دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں انتخابات کے دوران منشور کی بنیادی اہمیت ہوتی ہے۔عوام نہ تو آنکھیں بند کر کے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں نہ ہی سیاسی پارٹیاں منشور کے بغیر میدان عمل میں اترتی ہیں۔ اشرافیہ نے مختلف حیلوں سے عوام کو اتنے طبقات میں تقسیم کیا ہوا ہے کہ ان کی اجتماعی طاقت ختم ہو کر رہ گئی ہے اور وہ انتخابات میں پارٹی منشور دیکھے بغیر محض ذات، برادری، قومیت،نسل اور ذاتی مسائل کے حوالے سے اپنے ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں۔آج انتخابات جیسی اہم ترین سرگرمی ہونے میں کچھ دن ہی باقی رہ گئے ہیں لیکن تا حال کسی سیاسی جماعت نے اپنا منشور باقاعدہ طور پر جاری کرنے کا تکلف نہیں کیا۔پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر اپنے منشور کے حوالے سے چیدہ چیدہ نکات تو پیش کیے لیکن باقاعدہ طور پر منشور کا اجرا ابھی بھی باقی ہے۔مسلم لیگ نون نے ایک بزرگ قلم کار کی سربراہی میں منشور کمیٹی قائم کی تھی لیکن وہ بھی سرکاری کمیٹیوں کی طرح کہیں کاغذات میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ نہ تو منشور سامنے آیا ہے نہ ہی منشور کے بنیادی نکات۔پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اس وقت جیل میں بند ہیں ان کی جماعت کے اہم رہنما یا تو مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں یا پھر پارٹی چھوڑ کر گوشہ عافیت میں اپنی سیاسی زندگی اور موت کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں لہذا ان کی طرف سے منشور کا اجرا نہ ہونا قابل فہم ہے۔ ابھی تک میدان سیاست اس روایتی گرمی سے بھی محروم نظر آ رہا ہے جو پاکستان میں انتخابات کا خاصہ ہوتی ہے۔سیاسی جماعتوں کی طرف سے ابھی تک بنیادی امور ہی طے نہیں ہو رہے۔انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتیں اور ان کے نامزد کردہ امیدوار انتخابی میدان میں اترتے ہیں عوام کو بتاتے ہیں کہ وہ انتخاب جیت کر ان کے لیے کیا کریں گے ان کے سامنے اپنے منشور کے نکات رکھتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ایک ایسے لولے لنگڑے جمہوری نظام میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں انتخابات میں منشور کو محض کاغذی کارروائی کی حیثیت حاصل ہے۔یوں لگتا ہے تمام سیاسی جماعتوں نے منشور پر بات نہ کرنے کا عہد کیا ہوا ہے کیونکہ انتخابی مہم کے دوران بھی منشور یا منشور کے نکات کا ذکر شاذ ونادر ہی سنائی دیتا ہے۔ سارا زور ذاتی الزامات،طعن و تشنیع،دشنام طرازیوں اور ذاتی حملوں پر ہوتا ہے۔ دوسری طرف ہمارا ووٹر بھی منشور کو کم ہی اہمیت دیتا ہے رائے دہندگان میں بھی شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو جس نے اپنے ووٹ کا فیصلہ خالصتا منشور کی بنیاد پر کیا ہو۔ جبکہ مہذب دنیا میں منشور کے بغیر ووٹ دینے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے ہاں زیادہ تر تو شخصی پسند ناپسند اور سیاسی تعصب یا کسی کی نفرت یا محبت کی بنیاد پر ووٹ دیا جاتا ہے۔اگر رائے دہندگان اپنے امیدوار سے اس کی جماعت کی پچھلی کارکردگی پوچھیں یا نئے منشور کی بنیاد پر بات کریں تو شاید سیاسی جماعتیں بھی منشور کو وہ اہمیت دیں جو انتخابی عمل میں دیگر نکات کو دی جاتی ہیں لیکن یہاں آوے کا آواہی بگڑا ہوا ہے نہ سیاسی جماعتیں منشور کو عزت دیتی ہیں نہ ووٹر منشور پر بات کرنا پسند کرتا ہے۔آج منشور کی عدم دستیابی کی وجہ سے ووٹ ان کاموں کے عوض دیے جاتے ہیں جو مقامی حکومتوں کا کام ہے اور عوام کا اپنا حق ہے،لیکن عوام کو یہ حق بھیک کی صورت میں ملتا ہے اور پھر اس کا تاوان ووٹ کی شکل میں مانگا جاتا ہے۔اب وقت ا ٓگیا ہے ووٹر گلیوں،نالیوں،تھانہ کچہری،یا فاتحہ خوانیوں پر ووٹ دینے کے بجائے قومی ایشوز پر ووٹ دیں۔ایسے لوگ قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب کیے جائیں جو سنجیدہ فکر ہوں،جو نالی بنوا کر ووٹ مانگنے کے بجائے قومی مسائل پر اپنی کارکردگی دکھا کر ووٹ مانگیں۔الیکشن ایکٹ کی دفعہ 200 کے تحت سیاسی جماعتوں کو یہ پابند تو کیا گیا ہے کہ وہ اخلاقیات کے منافی کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے لیکن اس میں کوئی ایسا فورم موجود نہیں کہ جو سیاسی جماعتوں سے پوچھ سکے کہ انہوں نے اپنے منشور کے کتنے نکات پر کتنے فیصد عمل کیا۔راقم کی دانست میں اس وقت چھ ایسے نکات ہیں کہ جن کی بنیاد پر انتخابی منشور کے خد و خال ترتیب دینے چاہئیں ان میں سب سے پہلی بات معیشت کی بحالی ہے۔جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا واضح لائحہ عمل دینا چاہیے۔ دوسرا اہم نکتہ جمہوری روایات اور آئین کی سربلندی ہے۔تیسرا نکتہ امن و امان کی بحالی ہے۔پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے اپنی جانیں قربان کر کے ملک میں جو امن و امان قائم کیا تھا وہ ایک مرتبہ پھر دشمن کے نشانے پر ہے۔ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو اپنا واضح لائحہ عمل پیش کرنا چاہیے۔چوتھا نکتہ اداروں کی بالادستی ہے جس میں شخصی فیصلوں کے بجائے ادارہ جاتی فیصلوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔پنجم، انداز حکمرانی میں شفافیت یا گڈ گورننس انتخابی منشور کا حصہ ہونا چاہیے۔چھٹا نکتہ موسمیاتی تبدیلیوں اور ان سے پیدا ہونے والے نقصانات اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات منشور میں شامل ہونا چاہئیں۔ کیونکہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور جس سے ہمارا زراعت کا شعبہ براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔زراعت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ جڑے ہونے کی وجہ سے اس کے مسائل سے نبرد آزما ہونا اور اس کے اثرات پر قابو پانا اور سیاسی جماعت کے منشور کا حصہ ہونا چاہیے۔اگر ہم منشور کو عزت نہیں دیں گے تو نہ ووٹ کو عزت ملے گی نہ عوام کو۔

امریکا کے صدر جوبائیڈن کی جنوبی کیرولائنا میں انتخابی مہم کے دوران تقریر کے موقع پر شرکا نے فلسطینیوں کی حمایت میں نعرے لگادیے۔

محکمہ تعلیم پنجاب کے نوٹیفکیشن میں اسکولوں سے چھٹی کا وقت نہیں بتایا گیا۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ لبنان، اسرائیل، حزب اللّٰہ تنازع بڑھنا کسی کےمفاد میں نہیں، مشرق وسطیٰ کے تمام رہنما غزہ تنازع پھیلنے سے روکنا چاہتے ہیں۔

ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ پاکستانی حکومت اور عوام زخمیوں کی جلد صحت یابی کےلیے دعاگو ہیں۔

بالی ووڈ کی باصلاحیت اداکارہ تاپسی پنوں نے اپنی فیورٹ فلم اور بچپن کا سیلبرٹی کرش بتادیا۔

احسن اقبال نے کہا کہ انتخابات 8 فرروی کو ہونے چاہئیں، اگر انتخابات ملتوی ہوئے تو بے یقینی طول پکڑے گی۔

ترجمان پولیس کا کہنا ہے کہ بم دھماکے میں زخمی اہلکار پشاور اسپتال میں دم توڑ گیا۔

صارفین نے سوشل میڈیا پر اسرائیل کے خلاف تحریک چلانے کا مطالبہ کردیا۔

مسلم لیگ (ن) مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے آج اپنے فیصلے سے قوم سے ہوئی ناانصافی کو ختم کردیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما حامد خان نے کہا ہے کہ آج کے عدالتی فیصلے سے جمہوریت کو پروموٹ کیا گیا۔

نگراں وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیر پور کے وائس چانسلر کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا۔

پی آئی اے کی 10 غیرملکی پروازوں کو متبادل ہوائی اڈوں پر اتارا گیا ہے۔

مالدیپ کے وزراء نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو مسخرہ، دہشت گرد اور اسرائیل کی کٹھ پتلی قرار دے دیا۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کی جانب سے اسپتال میں داخل ہونے کو مخفی رکھنے پر وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ توجہ لائیڈ آسٹن کی صحت پر ہے.

جاوید اختر نے فلم کا نام لیے بغیر فلم کے سین کو بیان کرکے اس پر تنقید کی تھی۔

محکمہ صجت سندھ کے مطابق بیرون ملک سے آنے والے مزید دو مسافروں میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔

QOSHE - پیر فاروق بہاو الحق شاہ - پیر فاروق بہاو الحق شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پیر فاروق بہاو الحق شاہ

33 1
09.01.2024

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں انتخابات کے دوران منشور کی بنیادی اہمیت ہوتی ہے۔عوام نہ تو آنکھیں بند کر کے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں نہ ہی سیاسی پارٹیاں منشور کے بغیر میدان عمل میں اترتی ہیں۔ اشرافیہ نے مختلف حیلوں سے عوام کو اتنے طبقات میں تقسیم کیا ہوا ہے کہ ان کی اجتماعی طاقت ختم ہو کر رہ گئی ہے اور وہ انتخابات میں پارٹی منشور دیکھے بغیر محض ذات، برادری، قومیت،نسل اور ذاتی مسائل کے حوالے سے اپنے ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں۔آج انتخابات جیسی اہم ترین سرگرمی ہونے میں کچھ دن ہی باقی رہ گئے ہیں لیکن تا حال کسی سیاسی جماعت نے اپنا منشور باقاعدہ طور پر جاری کرنے کا تکلف نہیں کیا۔پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر اپنے منشور کے حوالے سے چیدہ چیدہ نکات تو پیش کیے لیکن باقاعدہ طور پر منشور کا اجرا ابھی بھی باقی ہے۔مسلم لیگ نون نے ایک بزرگ قلم کار کی سربراہی میں منشور کمیٹی قائم کی تھی لیکن وہ بھی سرکاری کمیٹیوں کی طرح کہیں کاغذات میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ نہ تو منشور سامنے آیا ہے نہ ہی منشور کے بنیادی نکات۔پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اس وقت جیل میں بند ہیں ان کی جماعت کے اہم رہنما یا تو مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں یا پھر پارٹی چھوڑ کر گوشہ عافیت میں اپنی سیاسی زندگی اور موت کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں لہذا ان کی طرف سے منشور کا اجرا نہ ہونا قابل فہم ہے۔ ابھی تک میدان سیاست اس روایتی گرمی سے بھی محروم نظر آ رہا ہے جو پاکستان میں انتخابات کا خاصہ ہوتی ہے۔سیاسی جماعتوں کی طرف سے ابھی تک بنیادی امور ہی طے نہیں ہو رہے۔انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتیں اور ان کے نامزد کردہ امیدوار انتخابی میدان میں اترتے ہیں عوام کو بتاتے ہیں کہ وہ انتخاب جیت کر ان کے لیے کیا کریں گے ان کے سامنے اپنے منشور کے نکات........

© Daily Jang


Get it on Google Play