آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لئے سیاسی جماعتوں کی جانب سے ملک بھر میں انتخابی مہم جاری ہے۔ اس مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کی قیادت کا سارا زور مخالفین کی کردار کشی اور الزام تراشی تک محدود ہے یا پھر ہر سیاسی جماعت نے اپنے ووٹرز کو "ٹرک کی بتی " کے پیچھے لگانے کے لئے کوئی نہ کوئی بیانیہ تشکیل دیا ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس سیاسی بیانیے کی بنیاد پر کوئی ووٹر اپنی جماعت کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرتا ہے وہ بھی حقیقی نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ بیانیہ بھی وقت اور حالات کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ایک جماعت جو خود کو جمہوریت کی سب سے بڑی علمبردار قرار دیتی ہے اس کے سیاسی بیانیے کا تمامتر انحصار اپنی شہید قیادت کی قربانیوں پر ہے۔ ایک اور سیاسی جماعت جس کی تشکیل ہی آمریت کے زیر سایہ ہوئی تھی اس نے اپنے ووٹرز کو لبھانے کے لئے پہلے "ڈکٹیشن نہیں لوں گا" کا بیانیہ تشکیل دیا اور پھر اسے "ووٹ کو عزت دو" میں تبدیل کر دیا۔ آج اسی سیاسی جماعت کی قیادت کو اسٹیبلشمنٹ کا "لاڈلا" قرار دیا جارہا ہے۔ اسی طرح جو سیاسی جماعت کل تک "ایک پیج" پر ہونے کی گردان کرتے نہیں تھکتی تھی وہ آج سب سے بڑی سیاسی مظلوم بنی ہوئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کے پاس ایسے "کلٹ " موجود ہیں جو اپنی سیاسی قیادت کے بیانیہ تبدیل کرتے ہی نئی سیاسی دھن پر ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔

اس سیاسی کلچر کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ 76سال گزرنے کے باوجود ہمارا ملک آج بھی ان بنیادی مسائل کو حل نہیں کر سکا ہے جنہیں ہمارے ساتھ یا بعد میں آزادی حاصل کرنے والے ممالک نہ صرف حل کر چکے ہیں بلکہ اب وہ ترقی پذیر کی بجائے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارا سیاسی کلچر تاحال خواتین، نوجوانوں اور اقلیتوں کی سیاسی عمل میں موثر نمائندگی یا شمولیت سے محروم ہے۔ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لحاظ سے ہم خطے میں سب سے پیچھے ہیں، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں پاکستان کی رینکنگ ہمسایہ ممالک سے کئی درجے کم ہے۔ اس کے باوجود یہ مسائل کسی سیاسی جماعت کی انتخابی مہم کا موضوع نہیں ہیں۔ عام انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم کا عرصہ رہ جانے کے باوجود ابھی تک کسی بڑی سیاسی جماعت نے اپنا منشور پیش نہیں کیا ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ پانچ سال کے دوران اقتدار کے مزے لوٹنے والی تینوں بڑی جماعتوں کی طرف سے اپنے اپنے ادوار کی کارکردگی پر مبنی کوئی وائٹ پیپر یا رپورٹ بھی ووٹرز کی آگاہی کے لئے پیش نہیں کی جا سکی ہے کہ جس کی بنیاد پر ووٹر انہیں ووٹ دینے یا ان کا محاسبہ کرنے کا فیصلہ کر سکے۔ اس طرح لایعنی بنیادوں پر تشکیل دیئے بیانیے کی مدد سے ہماری سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنے ووٹرز کو حقیقی مسائل سے بے بہرہ رکھنے میں کامیاب ہیں بلکہ انہیں اپنی کارکردگی کے حوالے سے بھی کسی قسم کے محاسبے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔

آج اگر آپ کسی محفل میں سیاست کا ذکر چھیڑ دیں تو کسی بھی سیاسی جماعت کا حمایتی شخص آپ کو اپنی جماعت کی کارکردگی یا منشور بتانے کی بجائے اسی بیانیے کو دہراتا نظر آئے گا جو سوشل میڈیا، سیاسی جلسوں اور ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے ان کے ذہنوں میں انڈیلا جا رہا ہے۔ اس سیاسی طرز عمل کو مسترد کرنے کی بجائے اسے مزید فروغ دے کر دراصل ہم خود ہی اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ یہ سیاسی کلچر ایسے افراد کو سیاسی عمل میں کامیاب ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے جو ہمیشہ موقع پرستی کی سیاست کرتے ہوئے ووٹرز سے جذباتی نعروں پر ووٹ لیتے ہیں اور پھر اپنے مفادات کی تکمیل میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اس طرح حقیقی سیاسی ورکرز اور قیادت کے آگے آنے کا راستہ مسدود ہوتا جا رہا ہے اور ہم خطے کے دیگر ممالک کی نسبت "کنوئیں کے مینڈک" بنتے جا رہے ہیں۔ وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ بیانیے کی بنیاد پر تشکیل دیئے گئے سیاسی کلچر سے نہ پہلے ملک کا بھلا ہوا اور نہ ہی مستقبل میں اس کی امید ہے۔ اس طرز سیاست نے ملک میں تقسیم، شدت پسندی اور انتشار کو فروغ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی ان کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے اور ہر سیاسی جماعت اپنی جیت کو یقینی قرار دیتے ہوئے دوسرے کی برتری کو تسلیم کرنے کے لئے آمادہ نظر نہیں آتی۔یہ وہ سیاسی ماحول ہرگز نہیں ہے جس میں کوئی قوم ترقی کے سفر پر گامزن ہو سکے۔ اگر ہمیںاس بے ثمر سیاسی کلچر کو تبدیل کرنا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر ووٹر اپنے نمائندوں کا انتخاب سیاسی بیانیوں کی بجائے ان کے کردار اور کارکردگی کی بنیاد پر کرے۔ پاکستان کے سیاسی کلچر کو بیانیوں کی بجائے حقیقی مسائل کی طرف شفٹ کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ووٹرز اپنے نمائندوں کے سامنے پارٹی بیانیے کی بجائے تعلیم، صحت، روزگار، بنیادی سہولتیں، انفراسٹرکچر کی بہتری، فراہمی و نکاسی آب کے مسائل اور وسائل کی ضلع و تحصیل کی سطح تک تقسیم کے امور کو سیاسی فیصلہ سازی کا موضوع بنائیں۔ اگر اکیسویں صدی میں بھی ہماری سیاسی ترجیح شخصیت پرستی ہی رہے گی تو ہمیں اپنی پسماندگی کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ سیاسی کلچر اگر یونہی نسل در نسل چلتا رہا تو سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت کی بجائے شخصیت پرستی کا کلچر زندہ رہے گا اور عوام کی خدمت یا کارکردگی کی بنیاد پر سیاست کرنے والے سیاسی کارکن گمنامی کا حصہ بنتے رہیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

ڈاکٹرز کے مطابق معمول کے طبی معائنے کے دوران امریکی وزیر دفاع میں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔

امریکا کی 12 مشرقی ریاستوں میں آندھی، بارش اور برفبانی طوفان کے سبب بعض علاقوں میں بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیا۔

ترجمان جی ڈی اے کا کہنا ہے کہ سیکریٹری اطلاعات جی ڈی اے سردار عبدالرحیم نے خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دیئے۔

ملک بھر میں جاری شدید دھند کے سبب فلائٹ شیڈول معمول پر نہ آسکا، 30 ملکی اور غیر ملکی پروازیں منسوخ کردی گئیں۔

خطے میں سلامتی کے لیے امریکا اسرائیل سفارتی راستے پر یقین رکھتے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان میں بہترین، مضبوط تعلقات وقت کی اہم ضرورت ہیں، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری سے خطے میں استحکام آئے گا۔

پاکستان کے گلفام جوزف اور کشمالہ طلعت نے ایشین شوٹنگ چیمپئن شپ میں کانسی کا تمغہ جیت کر پیرس اولمپکس کے مکسڈ ایونٹ میں بھی جگہ بنالی۔

الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشانات کی تفصیل ریٹرننگ افسران کوبھجوا دی۔ تحریک انصاف کا انتخابی نشان ریٹرننگ افسران کو نہیں بھجوایا گیا۔

وال اسٹریٹ جرنل کے دو سابق صحافیوں نے گوگل سے جھوٹ بولنے پر بھارتی بزنس میں گورو کمار سریواستو کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کردیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما شعیب شاہین نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن مافیا کا سہولت کار بن چکا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور مسلم لیگ ن میں این اے 242 پر شہباز شریف کےلیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی شرط سامنے آگئی۔

ایک جاپانی کمپنی کوئوں کو ڈرانے اور بھگانے کے لیے استعمال ہونے والا کرو بسٹر پندرہ برس سے ڈیولپ کر رہی ہے، کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اسکا کرو بسٹر جو کہ ایک پیلے پلاسٹک ٹرانسولینٹ کے ٹکڑے پر مشتمل ہوتا ہے،کسی بھی اور طریقے سے کووں کو ڈرانے والی شے سے زیادہ موثر ہے۔

سابق صوبائی وزیر کے پاس ایک کروڑ 77 لاکھ 50 ہزار روپے کی 3 گاڑیاں ہیں، جبکہ انکی اہلیہ کے پاس 100 تولہ سونے کی مالیت 3 لاکھ روپے ظاہر کی گئی۔

نگراں وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان نےکہا ہےکہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی طرف سے ایم بی بی ایس کےلیے بڑھائی فیسیں غیر قانونی ہیں۔

سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے اثاثوں کی تفصیلات پر دستاویز سامنے آگئیں۔

کونسل کی کارروائی روایات کے خلاف غیر ضروری اور جلد بازی میں کی جارہی ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی قانونی تقاضوں کے بھی خلاف ہے، جسٹس اعجاز الاحسن

QOSHE - چوہدری سلامت علی - چوہدری سلامت علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

چوہدری سلامت علی

13 0
10.01.2024

آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لئے سیاسی جماعتوں کی جانب سے ملک بھر میں انتخابی مہم جاری ہے۔ اس مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کی قیادت کا سارا زور مخالفین کی کردار کشی اور الزام تراشی تک محدود ہے یا پھر ہر سیاسی جماعت نے اپنے ووٹرز کو "ٹرک کی بتی " کے پیچھے لگانے کے لئے کوئی نہ کوئی بیانیہ تشکیل دیا ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس سیاسی بیانیے کی بنیاد پر کوئی ووٹر اپنی جماعت کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرتا ہے وہ بھی حقیقی نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ بیانیہ بھی وقت اور حالات کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ایک جماعت جو خود کو جمہوریت کی سب سے بڑی علمبردار قرار دیتی ہے اس کے سیاسی بیانیے کا تمامتر انحصار اپنی شہید قیادت کی قربانیوں پر ہے۔ ایک اور سیاسی جماعت جس کی تشکیل ہی آمریت کے زیر سایہ ہوئی تھی اس نے اپنے ووٹرز کو لبھانے کے لئے پہلے "ڈکٹیشن نہیں لوں گا" کا بیانیہ تشکیل دیا اور پھر اسے "ووٹ کو عزت دو" میں تبدیل کر دیا۔ آج اسی سیاسی جماعت کی قیادت کو اسٹیبلشمنٹ کا "لاڈلا" قرار دیا جارہا ہے۔ اسی طرح جو سیاسی جماعت کل تک "ایک پیج" پر ہونے کی گردان کرتے نہیں تھکتی تھی وہ آج سب سے بڑی سیاسی مظلوم بنی ہوئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کے پاس ایسے "کلٹ " موجود ہیں جو اپنی سیاسی قیادت کے بیانیہ تبدیل کرتے ہی نئی سیاسی دھن پر ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔

اس سیاسی کلچر کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ 76سال گزرنے کے باوجود ہمارا ملک آج بھی ان بنیادی مسائل کو حل نہیں کر سکا ہے جنہیں ہمارے ساتھ یا بعد میں آزادی حاصل کرنے والے ممالک نہ صرف حل کر چکے ہیں بلکہ اب وہ ترقی پذیر کی بجائے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارا سیاسی کلچر تاحال خواتین، نوجوانوں اور اقلیتوں کی سیاسی عمل میں موثر نمائندگی یا شمولیت سے محروم ہے۔ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لحاظ سے ہم خطے میں سب سے پیچھے ہیں، ہیومن........

© Daily Jang


Get it on Google Play