لاپتہ افرادکے سلسلےمیں بلوچستان سے کچھ خواتین و حضرات احتجاج کیلئے اسلام آباد آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد کلب کے باہر ڈیرے ڈال رکھے ہیں میڈیا پر ایک عجیب و غریب شور بپا ہے۔ ان کی باتیں سن کر لگتا ہے جیسےسچ مچ بلوچستان میں لاقانونیت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ احتجاج کرنے والی خواتین کی پُراعتماد گفتگو کے سحر میں بڑے بڑے صائب الرائے صحافی آئے ہوئے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ ظالموں نے بیگناہوں اور مظلوموں کی ایک بڑی تعداد اغوا کر رکھی ہے۔ میں خود یہ سوچنے لگ تھا کہ سفید دال میں کہیں کچھ کالا نیلا ہے مگر لاپتہ افراد سے متعلق بنائے گئے کمیشن نے جو رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے۔ اس نے پانی اور دودھ کو علیحدہ علیحدہ کر دیا ہے۔

رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گمشدہ افراد کے کل 10078کیسز تھے۔ جب ان کی مکمل جانچ پڑتال ہوئی تو معلوم ہوا کہ 77فیصد کیس ڈسپوز ہو چکے ہیں۔ یعنی پورے ملک میں اس وقت گم شدہ افراد کی تعداد 2318ہے۔ برطانیہ میں گمشدہ افراد کی تعداد تقریباً پونے دو لاکھ کے قریب ہے۔ امریکہ میں اس سے کہیں زیادہ ہے۔ گم شدہ افراد کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انہیں کسی نے پکڑ لیا ہے یا گرفتار کر لیا ہے۔ بے شمار لوگ بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور اپنے گھر والوں کو بتاتے ہی نہیں کہ وہ کہاں ہیں اس کے بھی کئی سبب ہوتے ہیں۔ ذاتی رنجشوں کی بنا پر بھی افراد گم ہو جاتے ہیں۔ کئی دفعہ دشمن لاش ہی غائب کر دیتے ہیں۔ بے شک ان گمشدہ لوگوں میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں ملکی سلامتی کی محافظ ایجنسیاں اٹھا لیتی ہیں، جیسے کلبھوشن کے ساتھ مل کر کام کرنے والے لوگ جن سے متعلق عدالتوں میں ثبوت فراہم کرنا ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ کوئی گواہ ہے ہی نہیں اور قانون پر عمل درآمد کرانے والوں کی گواہی کی عدالت میں کوئی حیثیت تسلیم ہی نہیں کی جاتی۔ مثال کے طور پر ایک دہشت گرد پکڑ لیا گیا۔ اس نے دوران تفتیش ہر بات تسلیم کر لی مگر عدالت میں جاکر کہا کہ مجھ سے زبردستی بیان لیا گیا تھا۔ عدالت مجبور ہے کہ قانون کے مطابق اسے رہا کر دے۔ یقیناً ان 2318لوگوں میں کئی ایسے لوگ بھی شامل ہونگے۔

اب آتے ہیں صرف بلوچستان کے گمشدہ افراد کی طرف۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے کل 2752کیسز تھے، جن میں سے 2224کیس حل ہو چکے ہیں۔ یعنی اس وقت بلوچستان کے گمشدہ افراد کی کل تعداد 528ہے۔ ملک کی باقی گمشدگیوں کے اعداد و شمار دیکھیں توحیرت ہوتی ہے کہ یہ شور صرف گمشدہ بلوچوں میں کیوں ہے۔ خیبر پختون خوا میں گم شدہ لوگوں کےکل کیسز 3485تھے جن میں 2149حل ہوچکے ہیں باقی 1336رہ گئے ہیں یعنی کے پی کے کے گمشدگان بلوچستان سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہیں مگر وہاں سے کوئی احتجاجی جلوس اسلام آباد نہیں آیا۔ کسی صحافی نے یہ نہیں کہاکہ پختونوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح پنجاب، آزاد جموں و کشمیر، اسلام آباد اور سندھ میں بھی گمشدہ افراد کے بہت سے کیسز ابھی تک حل طلب ہیں مگر کوئی قیامت نہیں آئی ۔چوبیس کروڑ کی آبادی میں ان کا تناسب ذرا سا ہے۔ امریکہ اور یورپ سے بہت کم۔کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 994 لاپتہ افراد اس وقت مختلف ڈیٹنشن سینٹرز میں جبکہ 644افراد پورے ملک کی جیلوں میں قید ہیں۔ یقینا ًیہ اطلاعات متاثرہ خاندانوں کیلئے باعث اطمینان ہیں اور اس امر کی توثیق کرتی ہیں کہ ریاست اس مسئلے سے نہ صرف مکمل طور پر آگاہ ہے بلکہ اس کے منصفانہ حل کیلئےکوشاں بھی ہے۔

اس وقت باقی لاپتہ افراد کی تلاش تو پولیس کو ہے، سرکاری ایجنسیوں کو ہے مگرہم لوگ صرف بلوچستان کے528 افراد کی جستجو میں ہیں۔ شاید اس لئے کہ ان کے گم ہونے کے سبب ایک مخصوص طبقہ ہم پر طرح طرح کے الزام عائد کر رہا ہے۔ گم ہونے والا آدمی ایک ہو یا پانچ سو، بے شک تکلیف دہ بات ہے مگر مجھے ان سے زیادہ تکلیف ان موجودہ لوگوں کی ہے جو غربت کی گہری گپھائوں میں گرے پڑے ہیں۔ مہنگائی نے جن کا جینا حرام کر رکھاہے جو فاقہ زدہ بچوں سمیت خود کشیوں پر مجبور ہیں۔ مجھے ان سفید پوش لوگوں کا دکھ ہے جن کے گھروں میں آٹا تک نہیں اور وہ کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے۔ مجھے ان بچوں کا دکھ ہے جو صبح اسکول جانے کی بجائے کھانا تلاش کرنے کیلئے گھروں سے نکلتے ہیں۔ سڑکوں سے کاغذ چنتے ہیں، امیروں کی گاڑیاں دھوتے ہیں، بابوئوں کے جوتے پالش کرتے ہیں، گاڑیوں کے ٹائروں میں ہوا بھرتے ہیں، یعنی مزدوری کرتے ہیں اور بیمار ماں باپ کی دوائیاں خریدتے ہیں، ایسے بچے سینکڑوں یا ہزاروں کی تعداد میں نہیں تقریباً پونے تین کروڑ ہیں۔ مجھے ان عورتوں کا دکھ ہے جو روٹی کیلئے عصمت فروشی کرتی ہیں۔ مجھے ان مزدوروں کا دکھ ہے جنہیں دن بھر کوئی مزدوری نہیں ملتی اور وہ اترے ہوئے چہروں کے ساتھ خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ کس کس دکھ کی بات کروں۔ جس طرف دیکھتا ہوں درد ہی درد دکھائی دیتے ہیں۔ چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ کراہیں سماعتوں میں تلخیاں گھولتی ہیں۔ مجھے انصاف گاہوں سے تکلیف ہے کہ ان کے آس پاس منصفی کی لاشیں گل سڑ رہی ہیں، بدبو پھیلتی چلی جا رہی ہے۔

مجھے ان شہیدوں کادکھ ہے جو دہشت گردی کی جنگ میں روز کفن پہن لیتے ہیں۔ مجھے ان سپاہیوں کا غم ہے جو ہماری جانوں کی حفاطت کرتے کرتے اپنی جانیں قوم و وطن پرنثار کر دیتے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس وقت کچھ دوست چاہتے ہیں کہ میں اور پوری پاکستانی قوم یعنی ہم سب اپنے یہ تمام دکھ، تمام درد بھول جائیں اور اپنے بلوچستان کے 528گمشدہ بھائیوں کا دکھ یاد رکھیں۔ چلیں یونہی سہی، آپ اسی میں خوش ہیں تو ہم حا ضر ہیں۔

امریکا اور برطانیہ نے یمن میں حوثیوں کے خلاف نیا محاذ کھول دیا۔

لندن میں 72 سالہ امام پر لاپرواہی سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے موت کا سبب بننے کا جرم ثابت ہو گیا۔

ملک کے بیشتر شہروں میں دھند کا تسلسل برقرار ہے، مزید 25 پروازیں منسوخ کردی گئی جبکہ 5 متبادل ایئرپورٹس پر منتقل کی گئی۔

حیات مانیکا 2018 میں اس حلقے سے ن لیگ کے امیدوار تھے، میاں حیات مانیکا بشریٰ بی بی کے داماد بھی پیں۔

ترجمان پی ٹی آئی کے مطابق شاندانہ گلزار کو این اے 30 سے پی ٹی آئی کا ٹکٹ جاری کیا جائے گا۔

طالبہ کا کہنا ہے کہ وہ جب سو کر اٹھی تو اسکی حالت بہتر نہیں تھی، وہ سو کر اٹھنے کے بعد بھی تھکاوٹ کا شکار محسوس کرنے لگی تھی۔

این اے 155سے مسلم لیگ ن کے صدیق بلوچ نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔

بالی ووڈ سپر اسٹار شاہ رخ نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران مجھے اور میرے خاندان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

رہنما مسلم لیگ ن میاں جاوید لطیف نے کہا کہ کسی جماعت سے اس کا نشان نہیں چھیننا چاہیے۔

وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر فوری جاری کرنے کی منظوری دی۔

ایک 45 سالہ پاکستانی بزنس مین خالد محمود کو لندن میں قتل کر دیا گیا ہے۔ میٹرو پولیٹن پولیس کو بزنس مین خالد محمود کی لاش 9 جنوری کو پارکنگ میں گاڑی سے ملی۔

فلم اناپورنی گزشتہ ماہ کے آخر میں ہی ریلیز کی گئی تھی جسے انتہاپسند ہندوؤں نے اسے ہندوؤں کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف قرار دیا تھا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران معاشی آؤٹ لک دباؤ میں رہا، رواں مالی سال معاشی ترقی کی شرح ایک اعشاریہ سات فیصد رہنے کی توقع ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق رولز رائس کی گھوسٹ بلیک بیج بھارت میں موجود مہنگی ترین گاڑیوں میں سے ایک ہے۔

QOSHE - منصور آفاق - منصور آفاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

منصور آفاق

14 5
12.01.2024

لاپتہ افرادکے سلسلےمیں بلوچستان سے کچھ خواتین و حضرات احتجاج کیلئے اسلام آباد آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد کلب کے باہر ڈیرے ڈال رکھے ہیں میڈیا پر ایک عجیب و غریب شور بپا ہے۔ ان کی باتیں سن کر لگتا ہے جیسےسچ مچ بلوچستان میں لاقانونیت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ احتجاج کرنے والی خواتین کی پُراعتماد گفتگو کے سحر میں بڑے بڑے صائب الرائے صحافی آئے ہوئے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ ظالموں نے بیگناہوں اور مظلوموں کی ایک بڑی تعداد اغوا کر رکھی ہے۔ میں خود یہ سوچنے لگ تھا کہ سفید دال میں کہیں کچھ کالا نیلا ہے مگر لاپتہ افراد سے متعلق بنائے گئے کمیشن نے جو رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے۔ اس نے پانی اور دودھ کو علیحدہ علیحدہ کر دیا ہے۔

رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گمشدہ افراد کے کل 10078کیسز تھے۔ جب ان کی مکمل جانچ پڑتال ہوئی تو معلوم ہوا کہ 77فیصد کیس ڈسپوز ہو چکے ہیں۔ یعنی پورے ملک میں اس وقت گم شدہ افراد کی تعداد 2318ہے۔ برطانیہ میں گمشدہ افراد کی تعداد تقریباً پونے دو لاکھ کے قریب ہے۔ امریکہ میں اس سے کہیں زیادہ ہے۔ گم شدہ افراد کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انہیں کسی نے پکڑ لیا ہے یا گرفتار کر لیا ہے۔ بے شمار لوگ بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور اپنے گھر والوں کو بتاتے ہی نہیں کہ وہ کہاں ہیں اس کے بھی کئی سبب ہوتے ہیں۔ ذاتی رنجشوں کی بنا پر بھی افراد گم ہو جاتے ہیں۔ کئی دفعہ دشمن لاش ہی غائب کر دیتے ہیں۔ بے شک ان گمشدہ لوگوں میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں ملکی سلامتی کی محافظ ایجنسیاں اٹھا لیتی ہیں، جیسے کلبھوشن کے ساتھ مل کر کام کرنے والے لوگ جن سے متعلق عدالتوں میں ثبوت فراہم کرنا ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ کوئی گواہ ہے ہی نہیں اور قانون پر عمل درآمد کرانے والوں کی گواہی کی عدالت میں کوئی........

© Daily Jang


Get it on Google Play