سپریم کورٹ آف پاکستان نے پرویز مشرف کی وفات کی وجہ سے ان کو خصوصی عدالت کی طر ف سے سنائی گئی سزائے موت کو ساقط کردیا ہے اور انکو حاصل مراعات کوبھی ختم کردیا ہے۔فیصلے کی بنیاد یہ بیان کی گئی کہ ان کی طرف سے کوئی عدالت میں پیش نہیں ہوا اور اس کیس کی پیروی نہیں کی۔ شاید یہ پاکستانی عدالتی تاریخ کا پہلا مقدمہ ہے جس میں اس طرح کی سزا دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر کسی کو مجرم قرار دیا جائے اور اس کی و فات ہوجائے تو بھی مقدمہ کی کارروائی جاری رہتی ہے اور اس کی طرف سے بوجوہ کوئی پیروی کیلئے پیش نہ ہوسکے تو عدل یہ ہے کہ اس شخص کو جواس دنیائے فانی میں نہیں ہے ،پھر بھی اس طرح کی سزا دی جاسکتی ہے جس سے وہ تو نہیں لیکن اس کے اہل خانہ متاثر ہوجائیں۔ قانونی موشگافیاں تو قانون والے ہی جانتے ہیں لیکن انسانیت کی بنیاد پر عقلی طور پر دیکھنا بھی عدل ہے۔ اور وہ یہ کہ کسی شخص کی وفات کے ساتھ ہی اسکے خلاف قائم تمام مقدمات بھی ختم ہوجاتے ہیں لیکن اس کیس میں خصوصی طور پر ایسا نہیں کیا گیا۔ دیکھا جائے تو اس فیصلے میں تمام مثالوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان لوگوں کوبھی سزا دی گئی ہے جو اس وقت پرویز مشرف کے ہم رکاب اور معاون تھے۔ کیا آئین شکنی کے اس ’’ خصوصی‘‘ مقدمہ میںان جج صاحبان کو بھی سزا دی گئی جنہوں نے اس وقت پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا اور لیگل فریم ورک آرڈر کی توثیق کی تھی۔ انکے علاوہ کیا ان سیاستدانوں کو بھی سزادی گئی جنہوں نے پرویز مشرف کا ساتھ دیاتھا۔اگرپرویز مشرف نے غداری کی تھی تو اس وقت جن جج صاحبان اور سیاستدانوں نے ان کا ساتھ دیا تھا اور اس ’’ جرم‘‘ میں برابر کے شریک کار تھے، وہ سزا سے بری الذمہ کیسے قرار پائے جا سکتے ہیں۔ پرویز مشرف تواب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان لوگوں میں جو ابھی زندہ ہیں اور دندناتے پھرتے ہیں انکو سزا نہ سنانا کہاں کا انصاف ہے۔ دوسری طرف پشاور ہائی کورٹ کے جس جج صاحب نے پرویز مشرف کی پھانسی کا آرڈر جاری کیا اور اس میں تحریر کیا کہ پرویز مشرف کو ڈی چوک میں پھانسی دی جائے اور تین دن تک لٹکایا جائے اس حکم اور فیصلے کی بھی عدالتی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یاد رہے کہ عالمی معیار انصاف میں 140میں سے پاکستان کا نمبر 130واں ہے۔ عدل تویہ بھی ہونا چاہیے کہ نظریہ ضرورت کے تحت پرویز مشرف مرحوم کی حکومت کی توثیق کرنیوالوں کوبھی اسی طرح کی سزا دی جائے۔ تو عدلیہ کی تاریخ میں عدل وانصاف کا نیا باب رقم ہو جائے گا۔

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ آئین وقانون صرف فوج پرہی لاگو ہوجاتا ہے۔لیکن اسی آئین کو سیاستدان جب چاہیں ترامیم کے نام پر پامال کردیں ،یہ جرم نہیں سمجھا جاتا کیا سیا ستدانوں نے اسی آئین میں اپنی ضرورت کیلئے بار بار تبدیلیاں نہیں کیں، کیا ہمارا آئین آج اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔؟ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ فوج میں اندرونی طور پر احتساب کا کڑا نظام موجود ہے اسکے تحت جنرل تک کو سزائیں دی گئی ہیں ۔سول عدالتوں سے بعض سیاستدانوں کوسزائیں دی گئی ہیں لیکن سپریم جوڈیشل کونسل کے باوجود جج کیلئے پتلی گلی موجود ہے جس سے وہ نکل جاتا ہے اور بغیر کسی سزا کے ریٹائرڈ کہلاتا ہے نہ صرف یہ بلکہ بعد از ریٹائرمنٹ تمام مراعات کا حقدار بھی ہوتا ہے۔ یہ کیسا نظام عدل واحتساب ہے۔

گزشتہ روز بھی ایسا ہی واقعہ رونما ہوا جب سپریم کورٹ کے جج مظاہر علی نقوی پتلی گلی سے نکل گئے۔ واقعہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف مس کنڈکٹ کی 10شکایات پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری تھی کہ انہیں ان شکایات کا جواب دینا تھا لیکن جواب دینے کے بجائے انہوں نے استعفیٰ دیدیا۔ اسی طرح اب نہ تو انکے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی ہوسکتی ہے نہ ان کی مراعات میں کوئی کمی ہوسکتی ہے بلکہ وہ نام کے ساتھ ریٹائرڈ جسٹس سپریم کورٹ بھی لکھ سکتے ہیں۔ دیکھئے کہ مس کنڈکٹ اور کرپشن کے مرتکب یا ملزم جج کے صرف استعفیٰ دینے سے وہ تحقیقات اور کارروائی سے بچ سکتے ہیں ،وہ تمام مراعات اور ریٹائرڈ لفظ لکھنے کے بھی حقدار ہوتے ہیں لیکن ایک ایسا شخص جواپنی زندگی اس ملک وقوم کی حفاظت کیلئے ہر وقت قربان کرنے کوتیار بیٹھا ہواور اس کو وفات پاجانے کے بعد بھی ایسی سزا دی جائے جبکہ اس نے نہ تو آئین کا تیا پانچہ کیا ہو جیسا کہ بعض لوگ کرتے رہتے ہیں نہ ملک وقوم کو کوئی نقصان پہنچایا ہو نہ اس پر کرپشن کا ذرہ برابر داغ ہو اور سب سے بڑھ کریہ کہ جب وہ اس فانی دنیا میں بھی نہ ہو پھر ایسے شخص کے خلاف ایک پرانا مقدمہ بعد ازوفات تازہ کرنا اور اس طرح کی سزا کا تصور بھی عجیب ونرالا ہے۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے اسی راستے کا استعمال کیا جس طرح بعض عمارتوں میں ایمرجنسی دروازے اور روشن دان پہلے سے بنائے جاتے ہیں۔ ان کے پاس بھی ایمرجنسی دروازہ استعفیٰ کی صورت میں موجود تھا وہ استعمال کرکے باہر نکل گئے۔ کسی فوجی یا سیاستدان سوائے بانی پی ٹی آئی کے اور کسی کے پاس ایسا دروازہ جو پتلی گلی میں نکلتا ہو نہیں ہے ۔عام آدمی کو تو خیر حصول انصاف کیلئے بڑے پاپڑ بیلناپڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ جیل میں بند ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انصاف ملنے تک وہ دنیاسے ہی رخصت ہوجاتے ہیں اورپھر جاکر بریت کا فیصلہ آجاتا ہے۔ کیسا زبردست نظام ہے کہ کسی کوتو بعد از وفات بھی سزا دی جاتی ہے اور کوئی بعداز وفات بری توہوجاتا ہے لیکن اس کی زندگی کے کئی سال جوجیل میں گزرے اس کے اہل خانہ متاثر ہوئے ان کامداوا کچھ نہیں ہوتا۔ کس سے فریاد کریں، کس سے منصفی چاہیں۔

امریکا اور برطانیہ نے یمن میں حوثیوں کے خلاف نیا محاذ کھول دیا۔

لندن میں 72 سالہ امام پر لاپرواہی سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے موت کا سبب بننے کا جرم ثابت ہو گیا۔

ملک کے بیشتر شہروں میں دھند کا تسلسل برقرار ہے، مزید 25 پروازیں منسوخ کردی گئی جبکہ 5 متبادل ایئرپورٹس پر منتقل کی گئی۔

حیات مانیکا 2018 میں اس حلقے سے ن لیگ کے امیدوار تھے، میاں حیات مانیکا بشریٰ بی بی کے داماد بھی پیں۔

ترجمان پی ٹی آئی کے مطابق شاندانہ گلزار کو این اے 30 سے پی ٹی آئی کا ٹکٹ جاری کیا جائے گا۔

طالبہ کا کہنا ہے کہ وہ جب سو کر اٹھی تو اسکی حالت بہتر نہیں تھی، وہ سو کر اٹھنے کے بعد بھی تھکاوٹ کا شکار محسوس کرنے لگی تھی۔

این اے 155سے مسلم لیگ ن کے صدیق بلوچ نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔

بالی ووڈ سپر اسٹار شاہ رخ نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران مجھے اور میرے خاندان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

رہنما مسلم لیگ ن میاں جاوید لطیف نے کہا کہ کسی جماعت سے اس کا نشان نہیں چھیننا چاہیے۔

وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر فوری جاری کرنے کی منظوری دی۔

ایک 45 سالہ پاکستانی بزنس مین خالد محمود کو لندن میں قتل کر دیا گیا ہے۔ میٹرو پولیٹن پولیس کو بزنس مین خالد محمود کی لاش 9 جنوری کو پارکنگ میں گاڑی سے ملی۔

فلم اناپورنی گزشتہ ماہ کے آخر میں ہی ریلیز کی گئی تھی جسے انتہاپسند ہندوؤں نے اسے ہندوؤں کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف قرار دیا تھا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران معاشی آؤٹ لک دباؤ میں رہا، رواں مالی سال معاشی ترقی کی شرح ایک اعشاریہ سات فیصد رہنے کی توقع ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق رولز رائس کی گھوسٹ بلیک بیج بھارت میں موجود مہنگی ترین گاڑیوں میں سے ایک ہے۔

QOSHE - ایس اے زاہد - ایس اے زاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایس اے زاہد

13 0
12.01.2024

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پرویز مشرف کی وفات کی وجہ سے ان کو خصوصی عدالت کی طر ف سے سنائی گئی سزائے موت کو ساقط کردیا ہے اور انکو حاصل مراعات کوبھی ختم کردیا ہے۔فیصلے کی بنیاد یہ بیان کی گئی کہ ان کی طرف سے کوئی عدالت میں پیش نہیں ہوا اور اس کیس کی پیروی نہیں کی۔ شاید یہ پاکستانی عدالتی تاریخ کا پہلا مقدمہ ہے جس میں اس طرح کی سزا دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر کسی کو مجرم قرار دیا جائے اور اس کی و فات ہوجائے تو بھی مقدمہ کی کارروائی جاری رہتی ہے اور اس کی طرف سے بوجوہ کوئی پیروی کیلئے پیش نہ ہوسکے تو عدل یہ ہے کہ اس شخص کو جواس دنیائے فانی میں نہیں ہے ،پھر بھی اس طرح کی سزا دی جاسکتی ہے جس سے وہ تو نہیں لیکن اس کے اہل خانہ متاثر ہوجائیں۔ قانونی موشگافیاں تو قانون والے ہی جانتے ہیں لیکن انسانیت کی بنیاد پر عقلی طور پر دیکھنا بھی عدل ہے۔ اور وہ یہ کہ کسی شخص کی وفات کے ساتھ ہی اسکے خلاف قائم تمام مقدمات بھی ختم ہوجاتے ہیں لیکن اس کیس میں خصوصی طور پر ایسا نہیں کیا گیا۔ دیکھا جائے تو اس فیصلے میں تمام مثالوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان لوگوں کوبھی سزا دی گئی ہے جو اس وقت پرویز مشرف کے ہم رکاب اور معاون تھے۔ کیا آئین شکنی کے اس ’’ خصوصی‘‘ مقدمہ میںان جج صاحبان کو بھی سزا دی گئی جنہوں نے اس وقت پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا اور لیگل فریم ورک آرڈر کی توثیق کی تھی۔ انکے علاوہ کیا ان سیاستدانوں کو بھی سزادی گئی جنہوں نے پرویز مشرف کا ساتھ دیاتھا۔اگرپرویز مشرف نے غداری کی تھی تو اس وقت جن جج صاحبان اور سیاستدانوں نے ان کا ساتھ دیا تھا اور اس ’’ جرم‘‘ میں برابر کے شریک کار تھے، وہ سزا سے بری الذمہ کیسے قرار پائے جا سکتے ہیں۔ پرویز مشرف تواب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان........

© Daily Jang


Get it on Google Play