تحریک انصاف کے انتخابی نشان، بلے کو بحال کرنے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے نے تمام حکومتی مشینری کے علاوہ سیاسی جماعتوں اور انکے اتحادیوں کی صفوں کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ تحریک انصاف کو انتخابات کی دوڑ سے باہر کرنے کیلئے وہ بند دروازوں کے پیچھے کوئی اگلی چال چلنے کا سوچ رہے ہیں۔

دس جنوری کو مختصر حکم نامے میں پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ ’’ہم بائیس دسمبر کو الیکشن کمیشن کے جاری کردہ حکم نامے کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں کہ اس کی کوئی لیگل اتھارٹی اور قانونی جواز نہیں۔‘‘ اس نے الیکشن کمیشن کو مزید ہدایت دی کہ وہ ’’اپنی ویب سائٹ پر درخواست گزار (پاکستان تحریک انصاف) کیلئے فوراً ایک سرٹیفکیٹ شائع کرے کہ تحریک انصاف سیکشن 215اور 217اور الیکشن ایکٹ 2017 ءاور الیکشن رولز 2017ءکی کسی بھی اور معاون شق کے تحت اس انتخابی نشان کی حقدار ہے۔‘‘

تحریک انصاف کے سامنے مسلسل کھڑے کیے جانے والے بے شمار چیلنجوں سے بوجھل ماحول میںیہ فیصلہ پارٹی اور اسکے حامیوں کیلئے ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے۔ اگرچہ پارٹی کو اقتدار سے نکال باہر کیے جانے کے بعد روا رکھا جانے والا سفاک جبر بھی اس کے حامیوں کے عزم، استقلال اور جذبے کو متزلزل نہیں کر سکا، اور اب تو اس فیصلے نے ان کی توانائیوں کو مزید مہمیز دی ہے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ انتخابی اکھاڑے میں آئیں۔

لیکن ابھی اس ڈرامے کے حتمی انجام سے پہلے ایک مرحلہ باقی ہے :وہ یہ کہ الیکشن کمیشن پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا حق استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، جس کا قوی امکان ہے، تو فاضل عدالت کا فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنا سپریم کورٹ کیلئے انتہائی بلاجواز ہو گا۔ لیکن پھر ہر چیز حکومت کی تبدیلی کے سہولت کاروں کی دسترس میں ہے۔

گزشتہ دوبرسوں سے عوام نے جو کچھ برداشت کیا ہے، یہ چند سطریں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں۔ انھیں اپنے جمہوری حقوق سے محرومی کی اذیت جھیلنا پڑی۔ وہ ایسی حکومت کا انتخاب کرنے کے حق سے محروم کیے جارہے ہیں جس پر اعتماد ہو کہ وہ انھیں کئی ایک سنگین مسائل سے نجات دلا سکتی ہو۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان مسائل کی سنگینی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ریاست عمرانی معاہدے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کبھی کھلے دل سے کام نہیں لے رہی تھی، عمران حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ سکت مزید سمٹتی جا رہی ہے۔ عمران خان کے ہاتھ سے وہ موقع چھین لیا گیا کہ وہ پاکستان کو اس راہ پر گامزن کر سکیں کہ یہ سکیورٹی اور عوام کی فلاح و بہبود کے فیصلے کرنے کیلئے حقیقی طور پر آزاد ہو۔ بدقسمتی سے ایسا کوئی بھی امکان نہ تو مقامی طاقت کے ٹولےکیلئے قابل قبول ہے اور نہ ہی ہمارے بیرونی آقائوں کیلئے۔

اب پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ سامنے آنے پر ارباب اختیار مزید جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کر خان کو انتخابی اکھاڑے سے باہر رکھنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ ان کا کوئی بھی ہتھکنڈا کام نہیں دے گا۔ گزرنے والے ہر دن کے ساتھ حکومت کی چالبازیاں ملکی اور عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بن رہی ہیں۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات، جن میں تمام فریقوں کیلئے یکساں ہموار میدان ہو، کیلئےدبائو بڑھ رہا ہے۔ لیکن تحریک انصاف کو اس سے محروم رکھا جا رہا ہے، کیوں کہ اس کے کئی ایک رہنما اور کارکن حراست میں ہیں۔ انھیں قانونی حق حاصل نہیں، سیاسی جلسوں کی اجازت نہیں مل رہی، ریاستی تشدد استعمال کرتے ہوئے مسلسل خوف کی فضا قائم رکھی جا رہی ہے۔

اب یہاں سے ہمارے سامنے دو راستے ہیں:آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ایک حقیقی مینڈیٹ رکھنے والی حکومت کا قیام عمل میں لائے گا جس کے پاس اپنا وعدہ پورا کرنے کا قانونی جواز ہو گا، لیکن اس عمل کی راہ میں رکاوٹ ایک ایسی صورت حال پیدا کرے گی جس کے نتیجے میں اشتعال اور تشدد بھڑک سکتے ہیں۔ اول الذکر راستہ اختیار کرنے سے زخموں پر مرہم رکھنے کا چارہ ہو گا۔ وہ زخم جو بہت دیر سے رِس رہے ہیں۔ دوسرا راستہ ان زخموں کو مزید ہرا کردے گا۔ اس کے نتیجے میں ناقابل بیان اذیت اورتکلیف ہو گی۔ معقولیت کا تقاضا ہے کہ پہلے راستے کو اختیار کیا جائے اور دوسرے سے قدم کھینچ لیے جائیں۔

حل جو بھی ہو، شواہد بتاتے ہیں کہ ہم معقولیت کی راہ سے بدستور دور ہٹتے جا رہے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ یہ انتہائی بدقسمت صورت حال ہے، یہ تباہی کے بیج بھی بو سکتی ہے۔ یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ ہر مرض سختی کرنے سے مزید بگڑ جاتا ہے اور اس کی جڑیں گہری ہو جاتی ہیں۔ ایک وقت آتا ہے جیسا کہ ہمارے ستم زدہ ملک میں ہے، جب عقل اور معقولیت کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت اور اہمیت محسوس ہوتی ہے۔ صرف انہی کے ذریعے ہم مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ لیکن حماقت سے اٹے دوسرے راستے پر چلتے رہنے سے ہماری اس کھائی میں گرنے کی رفتار تیز تر ہوتی جائے گی جہاں سے پھر باہر نکلنے کی شاید کوئی تدبیر کام نہ دے ۔ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ اسی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن ہے۔ مختلف فورمز پر لڑائی لڑنے کی بجائے اسے من و عن تسلیم کرتے ہوئے ملک میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کرانے کا چارہ کیجیے، اس کے علاوہ لگنے والے زخموں کی مسیحائی کیلئے کچھ بھی کام نہیں دے گا۔ زخموں پر جلد مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔ انتخابات میں ممکنہ تاخیر، جیسا کہ کچھ سیاسی پنڈت تجویز کر رہے ہیں، پہلے سے خراب صورت حال کو مزید بگاڑ دے گی۔

طاقتور حلقے پشاور ہائی کورٹ کی طرف سے لگنے والے جھٹکے کی وجہ سے جاگ جائیں۔ اس فیصلے کو کھلے دل سے تسلیم کرکے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد کرائیں تا کہ اس مشق کو ملک کے عوام کی تائید حاصل ہو سکے۔ زخم یقیناً گہرے ہیں، جذبات بھڑکے ہوئے ہیں۔ مزید مایوسی ایسے ردعمل کو دعوت دے گی جو قابو سے باہر بھی ہو سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملک ناقابل بیان افراتفری کا شکار ہو سکتا ہے۔

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکرٹری انفارمیشن ہیں)

تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) میں ٹکٹ کی تقسیم پر اختلافات سامنے آگئے، رہنما خورشید عالم نے کہا کہ پارٹی قیادت پیراشوٹ پر لوگوں کو لا کر ہم پرمسلط کررہی ہے۔

مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ طے پاگیا۔

بالی ووڈ فلمساز انوراگ کشپ نے فلم 12 ویں فیل کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے 2023 ایسی فلم نہیں دیکھی۔

رانا ثناء نے کہا کہ ق لیگ کے ساتھ ہم نے جو بات کی پوری کی ہے۔

جمعیت علما اسلام کے کارکنوں نے ایک نوجوان کو پکڑ لیا، جبکہ باقی تین چار بھاگ گئے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کراچی سے سندھ اسمبلی کے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا۔

قومی اسمبلی کے حلقے این اے 216، اور سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس 56 پر ن لیگ کے امیدوار بشیرمیمن الیکشن لڑرہے ہیں۔

استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) نے الیکشن 2024ء کے امیدواروں کی فہرست جاری کردی۔

موٹر سائیکل سوار شخص خاتون کے ساتھ چلتی موٹر سائیکل سے غیر اخلاقی حرکت کرکے فرار ہوگیا۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان آکلینڈ میں کھیلے گئے پہلے ٹی 20 انٹرنیشنل میں فیلڈرز نے 4 کیچز گرائے۔

نین تارا نے کہا کہ آج وہ جس مقام پر ہیں اس کے حصول میں ان کے شوہر نے کافی مدد کی ہے۔

سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کی جانب سے 18 خواتین ڈائیورز کو ڈیزل ہائبرڈ بس، الیکٹرک ہائبرڈ بس سے متعلق ٹریننگ دی جارہی ہے۔

فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے کہا ہے کہ یمن کے خلاف امریکی اور برطانوی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف نے کراچی سے قومی اسمبلی پر پارٹی ٹکٹوں کا اعلان کردیا۔

استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما فرخ حبیب نے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 114 اور پی پی 115 سے بھی کاغذات جمع کروائے تھے۔

71 سالہ جواؤ پیمینٹا ڈی سلوا گھر کے نیچے مدفون سونے کی موجودگی کا خواب دیکھنے کے کچن کے نیچے کھدائی شروع کی۔

QOSHE - رؤف حسن - رؤف حسن
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

رؤف حسن

16 21
13.01.2024

تحریک انصاف کے انتخابی نشان، بلے کو بحال کرنے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے نے تمام حکومتی مشینری کے علاوہ سیاسی جماعتوں اور انکے اتحادیوں کی صفوں کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ تحریک انصاف کو انتخابات کی دوڑ سے باہر کرنے کیلئے وہ بند دروازوں کے پیچھے کوئی اگلی چال چلنے کا سوچ رہے ہیں۔

دس جنوری کو مختصر حکم نامے میں پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ ’’ہم بائیس دسمبر کو الیکشن کمیشن کے جاری کردہ حکم نامے کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں کہ اس کی کوئی لیگل اتھارٹی اور قانونی جواز نہیں۔‘‘ اس نے الیکشن کمیشن کو مزید ہدایت دی کہ وہ ’’اپنی ویب سائٹ پر درخواست گزار (پاکستان تحریک انصاف) کیلئے فوراً ایک سرٹیفکیٹ شائع کرے کہ تحریک انصاف سیکشن 215اور 217اور الیکشن ایکٹ 2017 ءاور الیکشن رولز 2017ءکی کسی بھی اور معاون شق کے تحت اس انتخابی نشان کی حقدار ہے۔‘‘

تحریک انصاف کے سامنے مسلسل کھڑے کیے جانے والے بے شمار چیلنجوں سے بوجھل ماحول میںیہ فیصلہ پارٹی اور اسکے حامیوں کیلئے ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے۔ اگرچہ پارٹی کو اقتدار سے نکال باہر کیے جانے کے بعد روا رکھا جانے والا سفاک جبر بھی اس کے حامیوں کے عزم، استقلال اور جذبے کو متزلزل نہیں کر سکا، اور اب تو اس فیصلے نے ان کی توانائیوں کو مزید مہمیز دی ہے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ انتخابی اکھاڑے میں آئیں۔

لیکن ابھی اس ڈرامے کے حتمی انجام سے پہلے ایک مرحلہ باقی ہے :وہ یہ کہ الیکشن کمیشن پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا حق استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، جس کا قوی امکان ہے، تو فاضل عدالت کا فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنا سپریم کورٹ کیلئے انتہائی بلاجواز ہو گا۔ لیکن پھر ہر چیز حکومت کی تبدیلی کے سہولت کاروں کی دسترس میں ہے۔

گزشتہ دوبرسوں سے عوام نے جو کچھ برداشت کیا ہے، یہ چند سطریں اس کا........

© Daily Jang


Get it on Google Play