پاکستانی عوام پر اب ترس آنے لگا ہے۔ وہی مظلوم سی شکلیں، آنکھوں سے ٹپکتی مایوسی اور امید کی ملی جلی کیفیت، 75سال سے اپنے لیڈروںکیلئے گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگا رہے ہیں ۔ ہر بار اس امید پر ووٹ ڈالتے ہیں کہ اس مرتبہ ہماری تقدیر ضرور بدلے گی۔ ازلی بیماریاں لوڈ شیڈنگ،مہنگائی،گیس آٹے دال کی کمی اس بار ضرور ختم ہوگی، کارخانے چلیں گے، روزگار ملے گا، خوشحالی ہوگی اور ہمارا دیس خوب ترقی کرے گا مگر افسوس یہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ مزید تماشہ دیکھیے کہ لیڈروں کے انتخابی وعدوں اور نعروں میں بھی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ۔ پچاس برس پرانے نعرے آج بھی اتنے ہی کارگر ہیں جتنے پہلے تھے ۔ نہ حالات بدلے نہ نعرے۔ پھر بھی بے چارے عوام ووٹ کو قومی امانت سمجھتے ہوئے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے نکل پڑتے ہیں۔ آپ پاکستان کے کسی بھی حصے میں نکل جائیے آپ کو ہر طرف وطن عزیز سے دلی محبت رکھنے والے عوام نظر آئینگے۔ہر کوئی اپنے گاؤں اپنے شہر اپنے صوبے اپنے ملک کی ترقی چاہتا ہے مگر اپنے لیے فقط دو وقت کی باعزت روٹی کا طلبگار ہے۔ اگر کوئی حکومت اب تک عوام کی اتنی سی خواہش بھی پوری نہیں کر سکی تو بتائیے سیاسی جماعتوں کے منشور اور وعدوں کا کیا فائدہ ؟ پاکستانی عوام ناامیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی امید کا ایک چراغ ضرور جلائے رکھتےہیں ، اس لیے ہر الیکشن کی طرح اس بار بھی اپنی پسند کی پارٹیوں اور امیدواروں کے چناؤ کیلئے پرعزم ہیں۔ عوام اس بحث میں پڑے بغیر آگے بڑھنا چاہتےہیں کہ کون چور ہے اور کون ڈاکو اور کون کتنا ملک کو لوٹ کر کھا گیا ۔ عوام اب اس ڈرامہ بازی سے تنگ آ چکے ہیں اور اب وہ بس ملک کو آ گے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ عام انتخابات عوام کیلئے امید کی ایک کرن ہوا کرتے ہیں۔ اس سال آٹھ فروری کے انتخابات سے بھی سہانے خواب جُڑے ہوئے ہیں تاہم غالب خیال یہی ہے کہ انتخابات سے بھی کچھ نہیں بدلے گا۔ ملک جس طرح چل رہا ہے اسی ڈگر پر چلتا رہے گا۔ اگلے پانچ برس بھی پہلے حکومت سازی میں اور پھر حکومت بچانے میں گزر جائینگے۔ سیاسی جوڑ توڑ اب پاکستان کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے کیونکہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ایک تہائی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔ الیکشن کے فوراً بعد جوڑ توڑ شروع ہو جائیگا۔ دو چار سیٹیں رکھنے والے بھی پہاڑ پر چڑھ جائیں گے جن کو نیچے اتارنے کیلئے تجوریاں کھول دی جائینگی۔ وزارتیں بانٹی جائیں گی ۔کوئی روٹھے گا کسی کو منایا جائیگا۔ صوبائی حکومتوں کے لالچ دئیے جائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ شہروں تک کو بانٹا جائے گا اور کسی کو گورنر کی سیٹ دے کر راضی کیا جائے گا۔ خدا خدا کرکے مرکز میں کسی پارٹی کو حکومت قائم کرنے کی مہلت ملے گی۔ نازک تنکوں پر قائم اس آشیاں کو قائم رکھنے کیلئےپھر ہواؤں سے بچنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے ہاں چار موسموں کی طرح سیاسی موسم بھی تغیر و تبدل سے دوچار رہتے ہیں۔ دو سال بھی بمشکل گزرتے ہیں کہ اس آشیاں کو تندو تیز آندھیاں آن گھیرتی ہیں اور پھر تنکے بکھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس سارے کھیل میں نقصان صرف عوام اور پاکستان کا ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو قومی سطح پر بڑی سیاسی جماعتیں صرف تین چار ہی ہوتی ہیں جبکہ باقی تمام پریشر گروپ ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جاری کردہ لسٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں کل 175 سیاسی جماعتیں میدان میں ہیں۔ اندازہ کیجئے حکومت سازی کیلئے اکثریتی پارٹی کو کتنے پریشر گروپوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ ترقی یافتہ مغربی ممالک جن کی ہم مثالیں پیش کرتے رہتے ہیں ان میں دو پارٹی سسٹم رائج ہے۔ ہم اس حوالے سے ان سے قطعاً سبق حاصل نہیں کرتے ۔ دو پارٹی سسٹم میں جمہوری نظام اور جمہوریت پروان چڑھتی ہے جبکہ سینکڑوں پارٹی سسٹم میں کرپشن فروغ پاتی ہے ۔ ظاہر ہے حکومت سازی کیلئے اکثریتی پارٹی کو پریشر گروپوں کو ساتھ ملانے کیلئے کھربوں روپے رشوت ادا کرنا پڑتی ہے جو وہ آئندہ حکومتی منصوبوں سے ہی ریکور کرتی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اگلے انتخابات کے لیے بھی رقم جمع کی جاتی ہے اور پھر اتحادی لاڈلوں کو بھی لوٹ مار کی کھلی چھٹی دینا مجبوری بن جاتی ہے۔ یوں پاکستان لٹیروں کے چنگل میں پھنس جاتا ہے اور عوام اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھنے کے لیے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تماشہ دیکھتے رہتے ہیں ۔ قارئین کرام گزشتہ کئی دہائیوں سے یہی سب کچھ چل رہا ہے اس الیکشن کے بعد بھی سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا اور ہماری قومی حیات سے پانچ برس منہا ہو جائیں گے۔آخری جملہ: ماضی سے سبق نہ سیکھنے والی قومیں ترقی نہیں کرتیں بلکہ ترقی معکوس کرتی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے عدالتی فیصلے پر ردعمل میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے ہی کھودے گڑھے میں گرگئی۔

بلے کے انتخابی نشان پر الیکشن کمیشن کی اپیل پر سپریم کورٹ نے 5 صفحات کا تحریری فیصلہ جاری کردیا

مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قانون اور قاعدے کے مطابق ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے کہا ہے کہ 2 دنوں میں جھوٹ کے بڑے بڑے بت ٹوٹ گئے۔

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) پاکستان نے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں آپریشن کیا ہے۔

بیرسٹرگوہر نے کہا کہ ہم فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل کریں گے۔

ملکی سطح پر پیاز کی قیمتوں میں کمی کے لیے وزارتِ تجارت نے پیاز کی برآمدی قیمت میں 130 روپے فی کلو کا اضافہ کردیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ باقی سیاسی جماعتیں اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہیں، پیپلز پارٹی 10 نکاتی ایجنڈے پر الیکشن لڑ رہی ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم آج صبح آکلینڈ سے ہملٹن پہنچی، ہوٹل میں کچھ دیر آرام کے بعد ٹیم کے پانچ کھلاڑی پریکٹس کےلیے گراونڈ پہنچ گئے۔

رؤف حسن نے یہ بھی کہا کہ اختر اقبال ڈار کے ساتھ بھی وہی ہوا جو دیگر پریس کانفرنس کرنے والوں کے ساتھ ہوا۔

جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں۔

ریٹرننگ افسران نے پی ٹی آئی امیدواروں کی درخواست پر آزاد نشان الاٹ کر دیے۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان نیوی کے جہازوں کی بحیرہ عرب میں تعیناتی کو ٹاسک فورس 153 سے جوڑنے میں حقیقت نہیں۔

اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ انتخابی نشان الاٹ کرنے کے وقت میں مزید توسیع نہیں ہوگی۔

10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

QOSHE - ڈاکٹر حسن فاروقی - ڈاکٹر حسن فاروقی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈاکٹر حسن فاروقی

8 10
14.01.2024

پاکستانی عوام پر اب ترس آنے لگا ہے۔ وہی مظلوم سی شکلیں، آنکھوں سے ٹپکتی مایوسی اور امید کی ملی جلی کیفیت، 75سال سے اپنے لیڈروںکیلئے گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگا رہے ہیں ۔ ہر بار اس امید پر ووٹ ڈالتے ہیں کہ اس مرتبہ ہماری تقدیر ضرور بدلے گی۔ ازلی بیماریاں لوڈ شیڈنگ،مہنگائی،گیس آٹے دال کی کمی اس بار ضرور ختم ہوگی، کارخانے چلیں گے، روزگار ملے گا، خوشحالی ہوگی اور ہمارا دیس خوب ترقی کرے گا مگر افسوس یہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ مزید تماشہ دیکھیے کہ لیڈروں کے انتخابی وعدوں اور نعروں میں بھی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ۔ پچاس برس پرانے نعرے آج بھی اتنے ہی کارگر ہیں جتنے پہلے تھے ۔ نہ حالات بدلے نہ نعرے۔ پھر بھی بے چارے عوام ووٹ کو قومی امانت سمجھتے ہوئے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے نکل پڑتے ہیں۔ آپ پاکستان کے کسی بھی حصے میں نکل جائیے آپ کو ہر طرف وطن عزیز سے دلی محبت رکھنے والے عوام نظر آئینگے۔ہر کوئی اپنے گاؤں اپنے شہر اپنے صوبے اپنے ملک کی ترقی چاہتا ہے مگر اپنے لیے فقط دو وقت کی باعزت روٹی کا طلبگار ہے۔ اگر کوئی حکومت اب تک عوام کی اتنی سی خواہش بھی پوری نہیں کر سکی تو بتائیے سیاسی جماعتوں کے منشور اور وعدوں کا کیا فائدہ ؟ پاکستانی عوام ناامیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی امید کا ایک چراغ ضرور جلائے رکھتےہیں ، اس لیے ہر الیکشن کی طرح اس بار بھی اپنی پسند کی پارٹیوں اور امیدواروں کے چناؤ کیلئے پرعزم ہیں۔ عوام اس بحث میں پڑے بغیر آگے بڑھنا چاہتےہیں کہ کون چور ہے اور کون ڈاکو اور کون کتنا ملک کو لوٹ کر کھا گیا ۔ عوام اب اس ڈرامہ........

© Daily Jang


Get it on Google Play