باہر تو صرف استعفے آرہے ہیں۔

اداروں کے اندر کیا قیامتیں برپا ہیں۔ ریاست کے ستون کیوں لرز رہے ہیں۔ اس پر ریاست کچھ نہیں کہہ رہی ہے۔ تجزیہ کار اپنے اپنے آقائوں اور اپنی اپنی پسند کے مطابق عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ خوش کسی کو بھی نہیں ہونا چاہئے۔ چراغ سب کے بجھ رہے ہیں۔ ہوا کسی کی نہیں ہے۔ ہوا اور تاریخ اپنے حساب سے آگے بڑھتے ہیں۔ یہ کسی کے دبائو میں نہیں آتے ۔ نہ ہی انہیں کسی وڈیو یا آڈیو لیک کا ڈر ہوتا ہے۔ نہ ہی یہ کسی اسکینڈل میںملوث ہوتے ہیں۔

ہماری ریاست کے ستون عام ریاستوں سے مختلف ہیں۔ بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ یہاں چار کی بجائے پانچ ستون ہیں۔ عمارت کمزور ہورہی تھی چار ستون سنبھال نہیں پارہے تھے۔ اس لیے پانچواں ستون سہارا دینے کے لیے کھڑا کیا گیا اب وہی سب سے مضبوط ستون ہے۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے صرف نظر کرکے درست تجزیہ ہو ہی نہیں سکتا۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور انکے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ اپنے مستقبل سے رشتہ جوڑیں۔ آئندہ ریاست ان کو ہی سنبھالنا ہے۔ ریاست، عدالت، مقتدرہ کے تھپیڑے ان کو ہی برداشت کرنے ہیں۔ اب الیکشن میں صرف 25دن رہ گئے ہیں۔ اب تو آپس میں مکالمہ بہت ضروری ہے۔ ہر فرد کا اپنا ایک وسیع حلقہ ہے۔ آپ ایک فرد سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ اپنے حلقے تک یہ پیغام پہنچاتا ہے۔ ہم جس کٹھن وقت سے گزر رہے ہیں یا جو کڑا وقت ہم پر بیت رہا ہے۔ اس میں ایک دوسرے سے جڑنا بہت ضروری ہے۔ ملک کے مستقبل کے لیے بھی اور اپنی صحت برقرار رکھنے کے لیے بھی۔ خیال ہم نفساں نہ ہونے سے ذہنی امراض میں اضافہ ہورہا ہے، درد کم کرنے یا ختم کرنے کی دوائیں، خواب آور گولیوںاور اس سے آگے بڑھ کر منشیات کا استعمال بھی زیادہ ہوتا ہے۔

کیا آپ نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ ریاست کے ستون کیوں لرز رہے ہیں۔ کیا پروفیسرز، لیکچررز اپنے طلبہ و طالبات کو بتارہے ہیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ الیکشن 2024 کے بارے میں قائل کیا جارہا ہے کہ ان کا انعقاد کیوں ضروری ہے۔ کیا محلے کے بزرگ، مسجد کے امام اور خطیب اپنے محلے داروں اور مقتدیوں سے تبادلۂ خیال کررہے ہیں کہ ہمیں اس وقت جس انتشار، بد حالی اور اجتماعی کرب کا سامنا ہے۔ ہم جس معاشی بحران کی لپیٹ میں ہیں۔ جس بد اخلاقی ،بد زبانی نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔ اس کے اصل اسباب کیا ہیں۔ پہلے 1947 سے 1970تک کے غلط عدالتی فیصلوں۔ ناروا اقتصادی پالیسیوں۔ اعلیٰ عہدوں پر منظور نظر افراد کی تقرریوں نے 1971 میں ہمارے اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ ہونے پر مجبور کردیا۔ پھر 1971 سے اور خاص طور پر 1985میں غیر جماعتی انتخابات نے۔ گزشتہ چالیس برس کی عوام دشمن حکمرانی۔ ایک طبقے کو نوازنے کی اقتصادی روش نے۔ عدالتی نا انصافیوں نے ہمارے سماج کو جس راستے پر ڈالا ہے۔ ہمارے جو ذہن بنادیے گئے ہیں کہ ہم ناانصافیوں پر چشم پوشی کرنے لگے ہیں۔ بد اخلاقی ہوتی ہے اسے روکتے نہیں ہیں۔ اپنے لیڈروں۔ روحانی پیشوائوں۔ دفتری سربراہوں۔ کمپنی مالکان کی غلط کاریوں پر انہیں ٹوکتے نہیں ہیں۔ اگر کوئی یہ جائز قدم اٹھاتا ہے تو اسے مصلحت کا سبق سکھاتے ہیں۔

اس لیے جو کچھ اب ہورہا ہے۔ چاہے اعلیٰ عدالتوں میں ہو یا وزارتوں میں صوبائی سیکرٹریٹوں میں یا بلدیاتی اداروں میں۔ یہ 1971سے ان برسوں کے حاکمانہ فیصلوں اور ہم محکوموں کی چشم پوشی اور مصلحت آمیزی کا منطقی اور تاریخی نتیجہ ہے۔ فطرت اور تاریخ اپنے اصولوں پر کوئی مصالحت نہیں کرتے ہیں۔

فطرت افرد سے اغماض تو کرلیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

ان برسوں میں جو بھی سیاسی فوجی حکمراں رہے ہیں۔ جو بھی آرمی چیف رہے ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں کے چیف۔ آئی جی۔ سیکرٹری ۔ چیف سیکرٹری۔ وہ ہم میں سے ہی تھے اور ہیں۔ ہم سب نے مل جل کر جو ماحول تخلیق کیا ہے۔ اس میں سچائی، نیکی، صحیح فیصلوں سے سازگاری رہی ہی نہیں ہے۔ ہم نے عدالتوں کو غیر جانبدار نہیں رہنے دیا۔ عدلیہ کی آزادی کی تحریک کا جو نتیجہ نکلا۔ اس میں جس چیف جسٹس کو ہیرو بنایا گیا۔ اب اس کا نام لینا بھی گوارا نہیں ہے۔ کیا اس تحریک کے سرکردہ قانون دانوں نے کبھی ندامت کا اظہار کیا۔ ہمارا بس نہیں چلتا ورنہ ہم تاریخ کو بھی جانبدار کرلیں۔ صدیوں کی ہلاکتوں اور قیامتوں کے بعد انسانی دانش نے عوام کو فیصلہ سازی میں شرکت کا موقع دینے کے لیے اسمبلیوں، کانگریسوں اور سینیٹ کے ادارے قائم کیے ہیں۔ ان منزلوں کے حصول کے لیے انتخابات کا راستہ۔ اگر انتخابات منصفانہ نہ ہوں ۔ سب کو موقع نہ دیا جائے تو یہ صدیوں کا سوچاسمجھا راستہ بھی بے نتیجہ ہوجاتا ہے۔ پارلیمنٹ غیر نمائندہ ہوجاتی ہے۔ اس پر کبھی عدلیہ غالب آتی ہے کبھی اسٹیبلشمنٹ۔ تاریخ اور جغرافیہ دونوں ہمیں سمجھاتے ہیں کہ ریاست کے ستونوں کے مفادات ایک جیسے ہونے چاہئیں۔ انہیں ہی قومی مفادات کہا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد اس ملک کا آئین ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارا خیال تویہی ہے کہ 8 فروری کو الیکشن ہر صورت میں ہونے چاہئیں۔ اور ہر پارٹی ہر فرد کو شرکت کا موقع ملنا چاہئے۔ یہ فیصلہ عوام کو کرنے دیں کہ کون اس ملک کو آگے لے جاسکتا ہے اور کون نہیں۔ قرائن کہہ رہے ہیں استعفے اور بھی آسکتے ہیں، دبائو ،ھمکیاں جاری ہیں۔ دوسرے اداروں سے دوسری سرکاری خدمات سے بھی آسکتے ہیں۔ لیکن اس سے ریاست کے قدم نہیں رکنے چاہئیں۔ قومی سیاسی جماعتوں میں تو نہ تنظیم ہے نہ اتحاد۔ سماج کو بدلنے کی جرأت، یونیورسٹیوں، میڈیا، فلاحی اداروں، دینی مدارس کو کرنی چاہئے۔ اگر ہم ایک جغرافیائی وحدت کے طورپر بقا چاہتے ہیں۔

جمہوری اصولوں کے مطابق کسی بھی شہر میں کوئی بڑا منصوبہ عوام کی مرضی جانے بغیر شروع نہیں کرنا چاہئے۔ کراچی میں مرکزی شاہراہ شارع فیصل کے گرد ایئرپورٹ سے نرسری تک دونوں طرف 10 فٹ بلند دیوار تعمیر کی جارہی ہے۔ بنیادی مقصد شہر کی حسن آرائی بتایا گیا ہے۔ دوسرا مقصد اہم شخصیتوں کی سلامتی۔ شارع فیصل شہر قائد کی شہ رگ ہے۔ دونوں طرف دکانیں بھی ہیں۔ بحریہ۔ ایئر فورس۔ اور بری فوج کے مراکز بھی۔ اس شارع کی متبادل سڑک بھی کوئی نہیں ہے۔ ان دیواروں کی تعمیر کے لیے کیا کے ایم سی کونسل میں یا سندھ اسمبلی میں بحث کی گئی اور اس کے نتائج اور عواقب پر غور کیا گیا۔ کیا فیصل کالونی اور دوسرے علاقوں کی رائے لی گئی۔ دنیا میں یہ دیواریں گرائی جارہی ہیں۔ راستے کھو لے جارہے ہیں۔ سندھ حکومت دیواریں کھڑی کررہی ہے۔ اس فیصلے پر ماہرین کیا کہتے ہیں۔ عوام کی کیا رائے ہے۔ اس پر بات ہونی چاہئے۔

پہلے دیواریں کھڑی کرتے ہیں

حبس بڑھتا ہے تو در ڈھونڈتے ہیں

بلے کے انتخابی نشان پر الیکشن کمیشن کی اپیل پر سپریم کورٹ نے 5 صفحات کا تحریری فیصلہ جاری کردیا

مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قانون اور قاعدے کے مطابق ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے کہا ہے کہ 2 دنوں میں جھوٹ کے بڑے بڑے بت ٹوٹ گئے۔

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) پاکستان نے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں آپریشن کیا ہے۔

بیرسٹرگوہر نے کہا کہ ہم فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل کریں گے۔

ملکی سطح پر پیاز کی قیمتوں میں کمی کے لیے وزارتِ تجارت نے پیاز کی برآمدی قیمت میں 130 روپے فی کلو کا اضافہ کردیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ باقی سیاسی جماعتیں اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہیں، پیپلز پارٹی 10 نکاتی ایجنڈے پر الیکشن لڑ رہی ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم آج صبح آکلینڈ سے ہملٹن پہنچی، ہوٹل میں کچھ دیر آرام کے بعد ٹیم کے پانچ کھلاڑی پریکٹس کےلیے گراونڈ پہنچ گئے۔

رؤف حسن نے یہ بھی کہا کہ اختر اقبال ڈار کے ساتھ بھی وہی ہوا جو دیگر پریس کانفرنس کرنے والوں کے ساتھ ہوا۔

جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ میرا نواز شریف سے رشتہ ٹکٹ اور عہدہ مانگنے سے بہت بڑا ہے۔

ریٹرننگ افسران نے پی ٹی آئی امیدواروں کی درخواست پر آزاد نشان الاٹ کر دیے۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان نیوی کے جہازوں کی بحیرہ عرب میں تعیناتی کو ٹاسک فورس 153 سے جوڑنے میں حقیقت نہیں۔

انتم نقوی فرسٹ کلاس کرکٹ میں ناقابل شکست 300 رن بنانے والے زمبابوے کے پہلے کرکٹر بن گئے۔

اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ انتخابی نشان الاٹ کرنے کے وقت میں مزید توسیع نہیں ہوگی۔

10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

QOSHE - محمود شام - محمود شام
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمود شام

24 3
14.01.2024

باہر تو صرف استعفے آرہے ہیں۔

اداروں کے اندر کیا قیامتیں برپا ہیں۔ ریاست کے ستون کیوں لرز رہے ہیں۔ اس پر ریاست کچھ نہیں کہہ رہی ہے۔ تجزیہ کار اپنے اپنے آقائوں اور اپنی اپنی پسند کے مطابق عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ خوش کسی کو بھی نہیں ہونا چاہئے۔ چراغ سب کے بجھ رہے ہیں۔ ہوا کسی کی نہیں ہے۔ ہوا اور تاریخ اپنے حساب سے آگے بڑھتے ہیں۔ یہ کسی کے دبائو میں نہیں آتے ۔ نہ ہی انہیں کسی وڈیو یا آڈیو لیک کا ڈر ہوتا ہے۔ نہ ہی یہ کسی اسکینڈل میںملوث ہوتے ہیں۔

ہماری ریاست کے ستون عام ریاستوں سے مختلف ہیں۔ بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ یہاں چار کی بجائے پانچ ستون ہیں۔ عمارت کمزور ہورہی تھی چار ستون سنبھال نہیں پارہے تھے۔ اس لیے پانچواں ستون سہارا دینے کے لیے کھڑا کیا گیا اب وہی سب سے مضبوط ستون ہے۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے صرف نظر کرکے درست تجزیہ ہو ہی نہیں سکتا۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور انکے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ اپنے مستقبل سے رشتہ جوڑیں۔ آئندہ ریاست ان کو ہی سنبھالنا ہے۔ ریاست، عدالت، مقتدرہ کے تھپیڑے ان کو ہی برداشت کرنے ہیں۔ اب الیکشن میں صرف 25دن رہ گئے ہیں۔ اب تو آپس میں مکالمہ بہت ضروری ہے۔ ہر فرد کا اپنا ایک وسیع حلقہ ہے۔ آپ ایک فرد سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ اپنے حلقے تک یہ پیغام پہنچاتا ہے۔ ہم جس کٹھن وقت سے گزر رہے ہیں یا جو کڑا وقت ہم پر بیت رہا ہے۔ اس میں ایک دوسرے سے جڑنا بہت ضروری ہے۔ ملک کے مستقبل کے لیے بھی اور اپنی صحت برقرار رکھنے کے لیے بھی۔ خیال ہم نفساں نہ ہونے سے ذہنی امراض میں اضافہ ہورہا ہے، درد کم کرنے یا ختم کرنے کی دوائیں، خواب آور گولیوںاور اس سے آگے بڑھ کر منشیات کا استعمال بھی زیادہ ہوتا ہے۔

کیا آپ نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ ریاست کے ستون کیوں لرز رہے ہیں۔ کیا پروفیسرز، لیکچررز اپنے طلبہ و طالبات کو بتارہے ہیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ الیکشن 2024 کے بارے میں قائل کیا جارہا ہے کہ ان کا انعقاد کیوں ضروری ہے۔ کیا محلے کے بزرگ، مسجد کے امام اور........

© Daily Jang


Get it on Google Play