ہم سنتے آئے ہیں کہ لاہور ن لیگ کا گھر ہے۔ پھر لاہور کوپی ٹی آئی کا گھر بنانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ اور بالآخر آج لاہور میں وہ ہی جماعت نظر آرہی ہے جس کا لاہور گھر ہونا چاہیے۔ یعنی پی پی پی کیوں کہ پی پی پی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کا گھر حقیقی طور پر لاہور ہی ہے کیوں کہ لاہور اس کی جنم بھومی ہے۔لاہور نے جو عقیدت شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو کی جھولی میں ڈالی وہ ملک کے کسی رہنما کے حصے میں نہیں آئی۔ 70ء کے انتخابات ہوں یا پھر 70ء اور 80ء کی دہائی ،قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے لاہوری جیالوں کا ضیاءالحق آمریت کیخلاف دما دم مست قلندر یا پھر 1986ء میں اہل لاہور کا شہید بینظیر بھٹو کا استقبال ہو، لاہور نے لاڑکانہ کے بھٹوز کی عقیدت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے یہ عقیدت مدھم ہونے لگی کیوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب سے باہر کر کے وہاں گملوں میں لگائی گئی قیادت کو جگہ دینے کی کوشش کی گئی مگر گزشتہ 30سالوں سے جاری یہ کوششیں آج دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی نے 8فروری کو ہونیوالے انتخابات میں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو لاہور کے ایک ایسے حلقے سے کھڑا کیا ہے جہاں پیپلز پارٹی کیلئے میدان کافی سازگار ہے اور یہ حلقہ متوسط طبقے کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری سے پہلے لاہور سے اسلم گل نے 34ہزار ووٹ لے کر یہ بات ثابت کردی تھی کہ لاہور میں پی پی پی آج بھی زندہ ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لینا مسلم لیگ نواز کو بھی پیغام ہے کہ اسکی لاہور پر مزید اجارہ داری نہیں چلے گی۔ اس حلقے میں بلاول بھٹو زرداری کی پی پی پی سے زیادہ عام عوام خود مہم چلارہے ہیں۔ مسیحی بھائیوں کا اس حلقے میں ایک بہت بڑا ووٹ بینک موجود ہے جو بلاول بھٹو زرداری کو اس حلقے سے جتوانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔ دوسری طرف اس حلقے میں غریب اور متوسط طبقے کے لوگ رہتے ہیں جو کسی بھی جماعت پر پی پی پی کو فوقیت دیتے ہیں۔ اس حلقے میں اور پورے لاہورمیں پی پی پی کی جگہ جگہ کارنر میٹنگز سے ن لیگ کی پریشانی عیاں ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ن لیگ بلاول بھٹو زرداری کے لاہور سے انتخابات میں حصہ لینے پر سوال اٹھا رہی ہے۔ کچھ ن لیگ والے تو فرما رہے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری نے سندھ میں کیا کیا ہے جو لاہور سے انتخابات لڑنے آگئے ہیں۔ یہ بھی عجیب منطق ہے لاہور کا شہباز شریف سندھ کے بلدیہ ٹائون میں انتخابات لڑ سکتا ہے مگر بلاول بھٹو زرداری کے لاہور سے نہیں؟ اگر پی پی نےکچھ نہیں کیا تو سندھ والے بلاول کے امیدواروں کو ووٹ کیوں دیتے ہیں اور ن لیگ کو مسترد کیوں کرتے ہیں؟ کچھ تو ایسا کیا ہے سندھ میں کہ ن لیگ کا یہاں کوئی ٹکٹ لینے والا نہیں جبکہ پی پی پی کا ٹکٹ پنجاب میں لینے والوں کی تو آج بھی لائن لگی ہوئی ہے۔ خیرلاہور میں ایک جشن کا سماں ہے۔ پی پی پی کے جیالے پنجاب کے ہر کونے سے چیئرمین کی مہم میں حصہ ڈالنے پہنچ رہے ہیں، دوسری طرف ن لیگ کی بھی مقامی اور صوبائی قیادت کو یہ مشن سونپ دیا گیا ہے کہ کچھ ہو جائے بلاول کو لاہور سے جیتنے نہیں دینا، جس کیلئے ن لیگ کی قیادت کا حکم ہے کہ جتنا پیسا لگ جائے پروا نہیں مگر بلاول بھٹو زرداری کو لاہور سے جیتنے نہیں دینا، کیوں کہ اس سے یقینی طور پر ن لیگ کی چوہدراہٹ کو خطرہ ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس حلقے میں ن لیگ نے کافی دن پہلے سے تیاریاں شروع کردی تھیں دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری کی کوشش سے اگر لاہور کی قیادت کے اختلافات ختم نہ ہوئے اور فیصل میر، یا اسطرح کے دوسرے ورکر جو کہ مرحوم جہانگیر بدر کی جگہ لے سکتا ہو جو ضیاءالحق کی آمریت میں پی پی کے ساتھ کھڑا رہا ہو ایسے ہی جیالے اور جیالیوں کو اس مہم کا انچارج نہ بنایا گیا تو یقینی طور پر پی پی پی کو نقصان ہو سکتا ہے۔ فیصل میر اور جہانگیر بدر جیسے دوست بلاول بھٹو زرداری کی مہم کا حصہ بننے کیساتھ ساتھ اگر دیگر حلقوں میں کام کریں تو دوسروں حلقوں میں پی پی کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہوگی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس مہم کا انچارج سوچ سمجھ کے رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ حلقے میں موجود ووٹرز کا کہنا ہے کہ وہ اس بار بلاول بھٹو زرداری کے حق میں فیصلہ کرنا چاہتے ہیں مگر لاہور کی تنظیم کے اختلافات اور متنازعہ لوگوں کو مہم کا حصہ بنانے سے ووٹ بینک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس مہم کی حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ بلاول کے دورہ لاہور میں ایسے جیالے ان سے ملتے نظر آئے ہیں کہ جن کے نام کے بغیر آمریت کے خلاف جدوجہد کا باب نامکمل ہے، یہ ہی لوگ بلاول کا اثاثہ ہیں کاش جہانگیر بدر زندہ ہوتے تو آج اس مہم کی قیادت ان سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ مگر پھر بھی بلاول بھٹو زرداری کا لاہور سے انتخابات میں حصہ لینا پنجاب کی سیاست میں آنیوالے کئی سالوں کیلئے حیران کن نتائج دے گا۔

دھند کے باعث موٹروے پشاور سے رشکئی تک جبکہ موٹروے ایم 3، ایم 4 اور ایم 5 بھی ٹریفک کے لیے بند کردی گئی ہیں۔

محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے دفعہ 144 کے تحت اسلحہ کی نمائش پر 45 روز کی پابندی کا نوٹیفکشن جاری کردیا گیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر ہمایوں مہمند نے الیکشن کے حوالے سے اپنی پارٹی کا پلان سی بتادیا۔

درخواست دسمبر کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کی گئی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پشاور میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے حلقے پی کے 78 میں ٹکٹ کی تقسیم پر اختلافات سامنے آگئے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ رجیم چینج کے بعد پی ٹی آئی کو دیوار سے لگایا گیا تھا، کئی امیدواروں کو نشان دینے کے مطالبے پر کہا گیا کہ آپ تو کاغذات نامزدگی واپس لے چکے ہیں۔

فائنل میں ارسلان ایش نے کوریا کے چیری بیری مینگو کو 3-1 سے ہرایا۔

بھارتی ٹی وی شو بگ باس کے سیزن 17 کی ایک قسط کے دوران اداکارہ انکیتا لوکھنڈے نے اپنے شوہر وکی جین کے روبرو کئی چونکا دینے والے انکشافات کیے۔

پیٹرول کی قیمت میں 8 روپے فی لیٹر کمی کر دی گئی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما الیاس محمد، صمد مرسلین، رضوان بنگش اور جاوید نسیم بھی اسی حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے والوں میں شامل ہیں۔

ہم نے سوچا سب سے پہلے علما کو جمع کرکے گزارش کی جائے کہ اس مسئلے کو زندہ رکھیں، مفتی اعظم پاکستان

اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کے قریب یہودی بستی میں کار سوار نے حملہ کیا ہے۔

سابق عالمی نمبر تین ایلینا سوئٹلانا، ٹیٹانا ماریہ، بیلجئیم کی یانینا وکمئیراور ڈبلز پلئیر ٹیلر ٹاؤن بھی ایونٹ میں شریک ہیں۔

چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نذیر احمد بٹ نے سرکاری افسروں کو نیب کی جانب سے تنگ نہ کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔

آکسفام کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے 5 امیروں کی مجموعی آمدن ہر گھنٹہ 1 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز بڑھی۔

بحیرہ احمرمیں حوثیوں نے امریکی بحری جہاز کو بیلسٹک میزائل سے نشانہ بنایا، امریکی فوج نے اسکی تصدیق کر دی۔

QOSHE - محمد خان ابڑو - محمد خان ابڑو
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد خان ابڑو

14 0
16.01.2024

ہم سنتے آئے ہیں کہ لاہور ن لیگ کا گھر ہے۔ پھر لاہور کوپی ٹی آئی کا گھر بنانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ اور بالآخر آج لاہور میں وہ ہی جماعت نظر آرہی ہے جس کا لاہور گھر ہونا چاہیے۔ یعنی پی پی پی کیوں کہ پی پی پی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کا گھر حقیقی طور پر لاہور ہی ہے کیوں کہ لاہور اس کی جنم بھومی ہے۔لاہور نے جو عقیدت شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو کی جھولی میں ڈالی وہ ملک کے کسی رہنما کے حصے میں نہیں آئی۔ 70ء کے انتخابات ہوں یا پھر 70ء اور 80ء کی دہائی ،قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے لاہوری جیالوں کا ضیاءالحق آمریت کیخلاف دما دم مست قلندر یا پھر 1986ء میں اہل لاہور کا شہید بینظیر بھٹو کا استقبال ہو، لاہور نے لاڑکانہ کے بھٹوز کی عقیدت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے یہ عقیدت مدھم ہونے لگی کیوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب سے باہر کر کے وہاں گملوں میں لگائی گئی قیادت کو جگہ دینے کی کوشش کی گئی مگر گزشتہ 30سالوں سے جاری یہ کوششیں آج دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی نے 8فروری کو ہونیوالے انتخابات میں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو لاہور کے ایک ایسے حلقے سے کھڑا کیا ہے جہاں پیپلز پارٹی کیلئے میدان کافی سازگار ہے اور یہ حلقہ متوسط طبقے کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری سے پہلے لاہور سے اسلم گل نے 34ہزار ووٹ لے کر یہ بات ثابت کردی تھی کہ لاہور میں پی پی پی آج بھی زندہ ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لینا مسلم لیگ نواز کو بھی پیغام ہے کہ اسکی لاہور پر مزید اجارہ داری نہیں چلے گی۔ اس حلقے میں بلاول بھٹو زرداری کی پی پی پی سے........

© Daily Jang


Get it on Google Play