انتخابی نشان کے بارے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اپیل سپریم کورٹ آف پاکستان نے منظور کرلی اور قواعد و ضوابط کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ’’بلے‘‘ سے محروم ہونا پڑا۔ اس کیس کی سپریم کورٹ میں تاریخ کی طویل ترین سماعت ہوئی۔ سب سے بہتر کام یہ ہوا کہ دو دن جاری اس سماعت کو تمام ٹی وی چینلز پر لائیو دکھایا گیا۔ معزز جج صاحبان نے کیا کیا سوالات کئے اور پی ٹی آئی کے وکلاء نے ان سوالات کے کیا جوابات دیئے یہ سب کچھ نہ صرف اندرون ملک بلکہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس سے نہ صرف سچ اور جھوٹ کروڑوں پاکستانیوں کے سامنے آیا بلکہ حسب عادت و روایت پی ٹی آئی کے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے خلاف جانبداری کے جھوٹے پروپیگنڈے کے دروازے بھی بند ہوگئے۔ اب تو لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی۔ سابق چیئرمین پی ٹی آئی کا یہ فیصلہ بھی غلط ثابت ہوا جس کے مطابق پارٹی کی باگ ڈور وکلاء کو سونپی گئی تھی۔ دنیا نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے وکلا نہ تو الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غلط ثابت کرسکے اور نہ ہی یہ ثابت کرسکے کہ جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ فلاں فلاں تو پارٹی کے رکن ہی نہیں ہیں۔

دراصل جس طرح کھیل الگ اور سیاست الگ چیزیں ہیں اسی طرح سوشل میڈیا اور قومی میڈیا پر بیانات اور عدالتی کارروائی یکسر مختلف چیزیں ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہ وکلاء جن کا ہم بڑا نام سنتے تھے اور انکے تجربے کا چرچا تھا وہ معزز جج صاحبان کے سوالات کے جوابات دے کر عدالت کو قائل ہی نہیں کرسکے۔ بلکہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں کئی قانونی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ علاوہ ازیں ان کا پلان اے اور بی دونوں ہی بری طرح ناکام ہوئے۔ پلان اے کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں جانے کے بعد وہاں سے پشاور ہائی کورٹ کی طرف بھی دوڑ لگا دی جبکہ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے ابھی فیصلہ بھی نہیں آیا تھا اور اگر بالفرض لاہور ہائی کورٹ سے ان کے خلاف بھی فیصلہ آتا تو پشاور ہائی کورٹ جاتے اور بعد میں ان کے پاس سپریم کورٹ جانے کا آپشن بھی موجود رہتا۔ یہ کیسے وکلا ہیں کہ ان کو یہ نکتہ بھی سمجھ نہیں آیا تھا۔ پلان بی کے مطابق پی ٹی آئی نظریاتی کا انتخابی نشان ’’بلے باز‘‘ کو بوقت ضرورت استعمال کرنا تھا جس کے چیئرمین اختر اقبال ڈار ہیں۔ پی ٹی آئی نے دوران سماعت ہی اپنا کیس کمزور اور ہارتا ہوا دیکھ کر اپنے امیدواروں کو پیغام جاری کیا کہ وہ سب اپنے ٹکٹ بلے باز کے نشان کے ساتھ ریٹرننگ افسران کے متعلقہ دفاتر میں جمع کرادیں۔ یہ خبر جیسے ہی ٹی وی چینلز پر چلی تو ایک طرف الیکشن کمیشن نے اپنے آر اوز کو ہدایات جاری کیں کہ کسی ایک جماعت کا امیدوار کسی دوسری جماعت کے نام، ٹکٹ اور نشان پر ٹکٹ جمع نہیں کراسکتا اس لئے اس طرح کے ٹکٹ وصول نہ کئے جائیں تو دوسری طرف پی ٹی آئی نظریاتی کے چیئرمین اختر اقبال ڈار نے ہنگامی پریس کانفرنس کرکے پی ٹی آئی کی جعل سازی کی قلعی کھول دی۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ کسی بھی معاہدے کی سختی سے تردید کی ۔ ادھر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس طرح جعل سازی سے کسی دوسری جماعت کے ٹکٹ اپنے امیدواروں کو جاری کرنے یا کاغذات نامزدگی کے ساتھ غلط بیان حلفی جمع کرانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح پی ٹی آئی کا پلان ’’بی‘‘ بھی بری طرح ناکام ہوگیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےپی ٹی آئی وکلا سے پوچھا کہ جب الیکشن کمیشن 2021ء سے جبکہ آپ کی حکومت بھی تھی نوٹسز دے رہا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن قانون کے مطابق کروائیں تو آپ نے کیوں یہ الیکشن نہیں کروائے ،اب آپ نے الیکشن کروائے بھی تو ان میں قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا گیا۔ پی ٹی آئی وکلا کے پاس اس سادہ سوال کا بھی مدلل جواب نہیں تھا۔ پی ٹی آئی کے وکلاء کی ایک ہی رٹ تھی کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے انکے ساتھ زیادتی اور جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور ’’بلے‘‘ کے نشان سے محروم کیا ہے۔ عدالت بار بار پوچھتی رہی کہ آپ ثابت کریں کہ الیکشن کمیشن نے آپ کے خلاف جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے لیکن پی ٹی آئی وکلا اپنے اس الزام کو ثابت کرسکے نہ ہی اپنے موقف کا کسی بھی طرح دفاع کرسکے۔ وہ اپنے اس موقف کا بھی دفاع نہیں کرسکے کہ پارٹی سے انتخابی نشان لینا یا انٹرا پارٹی الیکشن کو تسلیم نہ کرنا الیکشن کمیشن آف پاکستان کا دائرہ اختیار ہی نہیں ہے۔ نہ ہی یہ ثابت کرسکے کہ اکبر ایس بابر سمیت دیگر 14درخواست گزار پی ٹی آئی کے ممبر ہی نہیں ہیں۔ مختصر یہ کہ وہ عدالت کےکسی بھی استفسار پر پارٹی کی طرف سے کوئی بھی تحریری ثبوت پیش نہ کرسکے تو عدالت نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا تھا اور وہ ہی کیا۔

پی ٹی آئی کی انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی نیت ہی نہیں تھی جو الیکشن کرائے وہ الیکشن کمیشن کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش تھی جس میں وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ اس عدالتی کارروائی اور اس کو لائیو دکھانے سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ موجودہ الیکشن کمیشن بالکل غیر جانبدار ہے نہ اس کا کسی ایک طرف جھکائو ہے نہ ہی کسی ایک کے خلاف جانبداری کرتا ہے۔ پی ٹی آئی ہر اس فیصلے کو مانتی ہے جو اس کے حق میں ہو اور ہر اس فیصلے، عدالت اور ادارے کے خلاف ہوتی ہے جو قانون کے مطابق اوراس جماعت کے حق میں نہ ہو۔ پی ٹی آئی کی پالیسی بس یہ ہے کہ دھونس دھاندلی کے ذریعے ہی سیاست کی جائے۔ جو سیاست کے اصول کے خلاف ہے ابھی تو اور مرحلے بھی آنے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

دھند کے باعث موٹروے پشاور سے رشکئی تک جبکہ موٹروے ایم 3، ایم 4 اور ایم 5 بھی ٹریفک کے لیے بند کردی گئی ہیں۔

محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے دفعہ 144 کے تحت اسلحہ کی نمائش پر 45 روز کی پابندی کا نوٹیفکشن جاری کردیا گیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر ہمایوں مہمند نے الیکشن کے حوالے سے اپنی پارٹی کا پلان سی بتادیا۔

درخواست دسمبر کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کی گئی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پشاور میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے حلقے پی کے 78 میں ٹکٹ کی تقسیم پر اختلافات سامنے آگئے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ رجیم چینج کے بعد پی ٹی آئی کو دیوار سے لگایا گیا تھا، کئی امیدواروں کو نشان دینے کے مطالبے پر کہا گیا کہ آپ تو کاغذات نامزدگی واپس لے چکے ہیں۔

فائنل میں ارسلان ایش نے کوریا کے چیری بیری مینگو کو 3-1 سے ہرایا۔

بھارتی ٹی وی شو بگ باس کے سیزن 17 کی ایک قسط کے دوران اداکارہ انکیتا لوکھنڈے نے اپنے شوہر وکی جین کے روبرو کئی چونکا دینے والے انکشافات کیے۔

پیٹرول کی قیمت میں 8 روپے فی لیٹر کمی کر دی گئی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما الیاس محمد، صمد مرسلین، رضوان بنگش اور جاوید نسیم بھی اسی حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے والوں میں شامل ہیں۔

ہم نے سوچا سب سے پہلے علما کو جمع کرکے گزارش کی جائے کہ اس مسئلے کو زندہ رکھیں، مفتی اعظم پاکستان

اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کے قریب یہودی بستی میں کار سوار نے حملہ کیا ہے۔

سابق عالمی نمبر تین ایلینا سوئٹلانا، ٹیٹانا ماریہ، بیلجئیم کی یانینا وکمئیراور ڈبلز پلئیر ٹیلر ٹاؤن بھی ایونٹ میں شریک ہیں۔

چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نذیر احمد بٹ نے سرکاری افسروں کو نیب کی جانب سے تنگ نہ کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔

آکسفام کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے 5 امیروں کی مجموعی آمدن ہر گھنٹہ 1 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز بڑھی۔

بحیرہ احمرمیں حوثیوں نے امریکی بحری جہاز کو بیلسٹک میزائل سے نشانہ بنایا، امریکی فوج نے اسکی تصدیق کر دی۔

QOSHE - ایس اے زاہد - ایس اے زاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایس اے زاہد

24 1
16.01.2024

انتخابی نشان کے بارے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اپیل سپریم کورٹ آف پاکستان نے منظور کرلی اور قواعد و ضوابط کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ’’بلے‘‘ سے محروم ہونا پڑا۔ اس کیس کی سپریم کورٹ میں تاریخ کی طویل ترین سماعت ہوئی۔ سب سے بہتر کام یہ ہوا کہ دو دن جاری اس سماعت کو تمام ٹی وی چینلز پر لائیو دکھایا گیا۔ معزز جج صاحبان نے کیا کیا سوالات کئے اور پی ٹی آئی کے وکلاء نے ان سوالات کے کیا جوابات دیئے یہ سب کچھ نہ صرف اندرون ملک بلکہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس سے نہ صرف سچ اور جھوٹ کروڑوں پاکستانیوں کے سامنے آیا بلکہ حسب عادت و روایت پی ٹی آئی کے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے خلاف جانبداری کے جھوٹے پروپیگنڈے کے دروازے بھی بند ہوگئے۔ اب تو لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی۔ سابق چیئرمین پی ٹی آئی کا یہ فیصلہ بھی غلط ثابت ہوا جس کے مطابق پارٹی کی باگ ڈور وکلاء کو سونپی گئی تھی۔ دنیا نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے وکلا نہ تو الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غلط ثابت کرسکے اور نہ ہی یہ ثابت کرسکے کہ جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ فلاں فلاں تو پارٹی کے رکن ہی نہیں ہیں۔

دراصل جس طرح کھیل الگ اور سیاست الگ چیزیں ہیں اسی طرح سوشل میڈیا اور قومی میڈیا پر بیانات اور عدالتی کارروائی یکسر مختلف چیزیں ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہ وکلاء جن کا ہم بڑا نام سنتے تھے اور انکے تجربے کا چرچا تھا وہ معزز جج صاحبان کے سوالات کے جوابات دے کر عدالت کو قائل ہی نہیں کرسکے۔ بلکہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں کئی قانونی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ علاوہ ازیں ان کا پلان اے اور بی دونوں ہی بری طرح ناکام ہوئے۔ پلان اے کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں جانے کے بعد وہاں سے پشاور ہائی کورٹ کی طرف بھی........

© Daily Jang


Get it on Google Play