8؍فروری کے عام انتخابات میں ملکی سب سے مقبول جماعت پی ٹی آئی کو اسکی روایتی انتخابی شناخت ’’بلا‘‘ سے محروم کرکے ملک گیر پارٹی کو انتخابی عمل سے ہی باہر کردینے کا عدالتی ’’فیصلہ‘‘ بالآخر آگیا۔ جس تناظر ، پس منظر اور محفوظ ہونے کے بعد قوم کو انتظار کی سولی پر کھڑا کرکے جتنی تاخیر سے آیا اتنی پراسراریت میں لایا گیا کہپانچ مرتبہ فیصلے کا اعلان آگے بڑھایا گیا۔ گزشتہ جمعے کی رات 9 بجکر 25 منٹ پر پاکستان کے قاضی القضاۃ نے یہ فیصلہ سنایا جس کا مدعی خود پاکستان کا ایک اور بڑا آئین شکنی کا مرتکب ادارہ الیکشن کمیشن ٹھہرا۔ ایسا الیکشن کمیشن جس نے خود آئین کی صریحاً خلاف ورزی سے ملک میں اپنی واحد آئینی ذمے داری سے منحرف ہو کر الیکشن کے انعقاد کو ٹال کر خود کو واضح طور پر ملکی عملی سیاست کا ایک فریق بنا لیا۔ ایسے کہ انتخاب کو ملتوی کرنے کا حیلے بہانوں سے زور دار مطالبہ، پی ٹی آئی اور اسکی اسیر قیادت کی مسلسل تیزی سے ہوتی مقبولیت سے خائف ہو کر جماعت (تحریک انصاف) کی بڑی حریف ن لیگ اور اسکی اتحادی جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے کیا گیا ۔ عملی صورت سینٹ کی وہ قرار داد ہے جس میں کورم سے ماورا 12 رکنی اجلاس میں خلاف روایت بعد از نماز جمعہ سینٹ کا ہنگامی اجلاس بڑے پراسرار ماحول میں ہوا جہاں ن لیگ کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ نہ جانے کس طرح پہنچ گئے؟ صرف اسلئے کہ قرار داد کی منظوری پر بظاہر اسکی مخالفت کرکے قوم کو یہ بھی تاثر دیا جائے کہ ن لیگ انعقاد الیکشن کی تائیدی ہے۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ اگر ن لیگی نمائندہ واقعی قرارداد کا سچا مخالف تھاتو اس نے قوم کو بیوقوف بنانے والی سہانی جمہوری مزاج کی تقریر جو کی تو مطلوب سے کم ترین کورم کی نشاندہی کرکے اجلاس ہی کیوں نہ ختم کرایا؟ (جو کہ عمومی پریکٹس ہے) ڈاکٹر افنان اللہ ملک کے کسی پسماندہ دور افتادہ علاقے کی نمائندگی نہیں کرتے جو اپنی سادگی اور کم تعلیم کےباعث ایوان کے رول آف بزنس سے زیادہ شناسا نہیں اور جو بالعموم اجلاس کی کارروائیوں میں زیادہ سرگرم نہیں ہوتے۔ افنان پی ایچ ڈی، سیاسی معاملات میں باشعور چوکس اور (اللہ بخشے) مرحوم مشاہد اللہ جیسے سرگرم سینیٹر کے سیاسی تربیت یافتہ فرزند ہیں۔ انہوں نے ن لیگ اور خود کو جو جمہوری ثابت کرنے کیلئے اپنی تقریر سے اتنی وکالت کی ، کورم کی نشاندہی کرکے ’’انعقاد انتخابات کو پھر ٹالنے‘‘ کی نتیجہ خیز مخالفت بصورت کورم کی نشاندہی کیوں نہ کی؟ اس سے تو بالکل واضح ہوگیا کہ پھر الیکشن ٹالنے کی قرارداد ن لیگ، مولانا صاحب اور چند ہم خیال سینیٹروں کی جانب سے ویل ڈیزائنڈ تھی۔ ن لیگ تو ایوان میں بھی سیاست کی ماہر ہے جیسے میاں صاحب کی پانامہ پر تقریر دفاعی تھی۔ عدالتی سماعت میں آئی تو سیاسی بتائی گئی تھی۔ منظوری کے فالو اپ میں جس برجستگی سے قرار داد منظوری کا نوٹیفیکیشن ہوا اس سے چیئرمین آفس میں جاری انتخابی عمل میں پھر رخنے کی بو بھی آئی۔ قرارداد منظوری سے پہلے کے پراسرار ماحول کی گواہی عینی شاہد عزیزم حامد میر کی طرف سے آئی۔ اس سب کا فالو اپ عدالت عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ آگیا۔ اس پراسراریت کا حاصل جاننے کیلئے پوری قوم ’’سولی کے تخت‘‘ پر کھڑی شام گئے تک منتظر رہی اور فیصلہ رات ہی کو آیا۔رہا معاملہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا، اس سے قبل کہ اسکا تنقیدی جائزہ لیا جائے سپریم کورٹ پر عوامی اعتبار، جاری فراہمی عدل و انصاف کے عمل کا پیشہ ورانہ معیار (پروفیشنلزم) اور موجود گھمبیر ملکی بحران میں سپریم کورٹ کے مجموعی کردار عدالت عظمیٰ کی عظمت عوام کی نظر اور مخالفین پی ٹی آئی کی رائے میں متاثر ہوئی۔ یہ طشت ازبام ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے۔ سب سے بڑے ذمے دار خود وہ جج صاحبان جنہوں نے اپنے ہاتھوں عدالتی بنچوں کی تشکیل کو اعداد کے جھگڑے پر ہم خیال کی بنیاد پر تقسیم کیا۔ بالائی اور زیریں عدالتوں نے خود ایک دوسرے کے فیصلوں اور احکامات کو تسلیم نہ کرنے کی رفتار میں غیر معمولی اضافہ کردیا۔ عدالتی نظام جزواً ٹھپ ہوگیا۔ توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے خود ٹرائل کورٹ کے سیشن جج کے اس فیصلے پر کڑی تنقید کی کہ صفائی کے گواہوں کوسنے بغیر کیسے فیصلہ سنادیا اور فیصلہ بھی نااہلی کا۔ بلا لینے کے حق کے تحفظ پر پی ٹی آئی کے حق میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے سے ملک میں بلاامتیاز پارٹی اطمینان کی لہر پیدا ہوئی کہ اب معمول کی انتخابی مہم شروع ہوگی اور الیکشن کےنتائج پر موجود بڑے خدشات میں کمی اور بعد از الیکشن حالات کے بہتر ہونے کا یقین اور حوصلہ پیداہوا تھاجوحالیہ فیصلے کی مبہم قانونی بنیاد اور ٹیکنیکل ناک آئوٹ کی الجھن میں لپیٹ کر دیا گیا ہے۔ پھر اس کی سماعت پر جس نوعیت کے ریمارکس اور سوال بنچ کی طرف سے آئے اس نے فراہمی انصاف کے معیار و اعتبار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سوشل میڈیا کے سنجیدہ وی لاگرہی نہیں مخالفین پی ٹی آئی صحافیوں، تجزیہ نگاروں حتیٰ کہ سیاسی شخصیات کی طرف سے اس پر سخت مایوسی کا اظہار کیا جارہا اور وکلا کا ایک بڑا طبقہ تو اس پر سیخ پا ہے۔ فیصلے کا محرک الیکشن کمیشن کی سیاست بنی ہے۔ جس کی آئین شکنی اور سیاسی اور غیر جانبدارانہ رویہ مکمل ثابت شدہ کیس ہے۔ الیکشن تو اب جیسا بھی ہوگا سو ہوگا ملک میں ناجائز نگران حکومتیں مسلط کرنے کا جواز شعوری تگ و دو سے مسلط کرنے پر خود الیکشن کمیشن کا احتساب شدت سے مطلوب ہوگیا ہے۔ جس طرح متنازعہ ترین الیکشن کی راہ نکال کر کروڑوں ووٹروں کو انکے اصل شکل میں رائے دہی کے حق سے محروم کیا گیا ہے وہ کمیشن کے احتساب کا مکمل حق رکھتے ہیں۔ وہ ایک پارٹی کو اقتدارمیں لانے کیلئے چارجڈ ہیں انکے حق کو جیت کر کسی بھی طرف آزاد امیدوار کے ہی تنگ ترین آپشن میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ بے حد و حساب کنفیوژن ان سے الگ ہے۔ اتنے گھمبیر ملکی بحران میں اب قانون قاعدہ تو رہا نہیںکہ چیف الیکشن کمشنر کا احتساب کیا جائے، حقیقتاً قوت عوام کو خود عوام سے تنخواہ لینے والے ملازم نے چیلنج کیا ہے، جسکا ایک ہی حل ہے کہ وہ قوت عوام جو بڑے فیصد کے ووٹروں کیساتھ اپنی پسند کی پارٹی کو ووٹ دینے سے محروم کردی گئی، اسے قوت عوام سے ’’قوت اخوت عوام‘‘ میں تبدیل کردیا جائے جس کے امکانات واضح ہیں کہ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کے پاکستان میں جمہوریت سے مخلص سیاسی کارکن بھی اپنے بنیادی سیاسی اخلاق کی حفاظت کیلئے اس فیصلے کے سخت ناقد بنے نظر آ رہے ہیں۔ لیکن گزرے جمعے کی رات سے ناچیز غریب نواز فقیر مبتلا گمان ہے کہ پاکستان پر مسلط دو سال سے خائف نظام بد اب لرز رہا ہے۔

دھند کے باعث پنجاب میں موٹر ویز سمیت بڑی شاہراہیں ٹریفک کے لیے بند کردی گئی ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تمام افراد کے خلاف سڑک بلاک کرکے نعرے لگانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ جلسے سے شہباز شریف، مریم نواز اور سائرہ افضل تارڑ بھی خطاب کریں گی۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ایرانی حملے پر ہوسکتا ہے کہ ہمیں مزید سخت پوزیشن لینی پڑے لیکن یہ ضرور مدنظر رکھنا چاہے کہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے نہ بگڑیں کہ جن کی تلافی نہ ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف تو ایران خطے میں دہشت گردی اور عدم استحکام کا سب سے بڑا اسپانسر ہے اور دوسری طرف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے انسداد دہشت گردی کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

نگراں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے نام سے جعلی ہدایت نامہ پھیلایا گیا ہے۔

گورنر سندھ کامران ٹیسوری ایران سے کراچی پہنچ گئے، اُن کا کہنا ہے کہ ملکی سالمیت اور وقار کا جب معاملہ ہو تو پاکستان سب سے پہلے ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے عام انتخابات 2024ء کے امیدواروں کا ڈیٹا جاری کردیا ہے۔

ن لیگ کے سینئر رہنما اور این اے 75 کے آزاد امیدوار دانیال عزیز کا انتخابی جلسہ روک دیا گیا۔

بھارت سیریز پہلے ہی 0-2 سے اپنے نام کرچکا تھا، جبکہ آخری میچ میں جیت کےلیے افغانستان نے خوب جان لڑائی۔

معروف بھارتی اداکار جمی شیرگل کے والدین نے ان سے ڈیڑھ برس تک بات چیت نہیں کی اسکی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جمی نے اپنے بال کٹوالیے تھے، اس حوالے سے 53 سالہ جمی کا کہنا ہے کہ یہ انکی غلطی تھی۔

سابق صوبائی وزیر کامران بنگش کو الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان ریکٹ الاٹ کردیا گیا۔

اے ایس ایف کے ماہر عملے نے مسافر کے سامان کی اسکیننگ کے دوران دستی بیگ کو مشکوک قرار دیا، ترجمان اے ایس ایف

فوربس کی جانب سے جاری کردہ ایک فہرست کے مطابق دنیا کی مضبوط ترین کرنسی میں امریکی ڈالر دسویں نمبر پر ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ بھارتی وزارت خارجہ اس معاملے پر سفارتی بات چیت کر رہا ہے۔

امریکا نے حوثی گروپ کو دوبارہ دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرلیا۔ خبر ایجنسی کے مطابق صدر بائیڈن نے 2021 میں حوثی گروپ کو دہشتگردوں کی فہرست سے نکال دیا تھا۔

QOSHE - ڈاکٹر مجاہد منصوری - ڈاکٹر مجاہد منصوری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈاکٹر مجاہد منصوری

15 2
18.01.2024

8؍فروری کے عام انتخابات میں ملکی سب سے مقبول جماعت پی ٹی آئی کو اسکی روایتی انتخابی شناخت ’’بلا‘‘ سے محروم کرکے ملک گیر پارٹی کو انتخابی عمل سے ہی باہر کردینے کا عدالتی ’’فیصلہ‘‘ بالآخر آگیا۔ جس تناظر ، پس منظر اور محفوظ ہونے کے بعد قوم کو انتظار کی سولی پر کھڑا کرکے جتنی تاخیر سے آیا اتنی پراسراریت میں لایا گیا کہپانچ مرتبہ فیصلے کا اعلان آگے بڑھایا گیا۔ گزشتہ جمعے کی رات 9 بجکر 25 منٹ پر پاکستان کے قاضی القضاۃ نے یہ فیصلہ سنایا جس کا مدعی خود پاکستان کا ایک اور بڑا آئین شکنی کا مرتکب ادارہ الیکشن کمیشن ٹھہرا۔ ایسا الیکشن کمیشن جس نے خود آئین کی صریحاً خلاف ورزی سے ملک میں اپنی واحد آئینی ذمے داری سے منحرف ہو کر الیکشن کے انعقاد کو ٹال کر خود کو واضح طور پر ملکی عملی سیاست کا ایک فریق بنا لیا۔ ایسے کہ انتخاب کو ملتوی کرنے کا حیلے بہانوں سے زور دار مطالبہ، پی ٹی آئی اور اسکی اسیر قیادت کی مسلسل تیزی سے ہوتی مقبولیت سے خائف ہو کر جماعت (تحریک انصاف) کی بڑی حریف ن لیگ اور اسکی اتحادی جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے کیا گیا ۔ عملی صورت سینٹ کی وہ قرار داد ہے جس میں کورم سے ماورا 12 رکنی اجلاس میں خلاف روایت بعد از نماز جمعہ سینٹ کا ہنگامی اجلاس بڑے پراسرار ماحول میں ہوا جہاں ن لیگ کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ نہ جانے کس طرح پہنچ گئے؟ صرف اسلئے کہ قرار داد کی منظوری پر بظاہر اسکی مخالفت کرکے قوم کو یہ بھی تاثر دیا جائے کہ ن لیگ انعقاد الیکشن کی تائیدی ہے۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ اگر ن لیگی نمائندہ واقعی قرارداد کا سچا مخالف تھاتو اس نے قوم کو بیوقوف بنانے والی سہانی جمہوری مزاج کی تقریر جو کی تو مطلوب سے کم ترین کورم کی نشاندہی کرکے اجلاس ہی کیوں نہ ختم کرایا؟ (جو کہ عمومی پریکٹس ہے) ڈاکٹر افنان اللہ ملک کے کسی پسماندہ دور افتادہ علاقے کی نمائندگی نہیں کرتے جو اپنی سادگی اور کم تعلیم کےباعث ایوان کے رول آف بزنس سے زیادہ شناسا نہیں اور جو بالعموم اجلاس کی کارروائیوں میں زیادہ سرگرم نہیں ہوتے۔ افنان پی ایچ ڈی، سیاسی معاملات میں باشعور چوکس اور (اللہ بخشے) مرحوم مشاہد اللہ جیسے سرگرم سینیٹر کے سیاسی تربیت یافتہ فرزند ہیں۔........

© Daily Jang


Get it on Google Play