اس وقت میرے سامنے موجود ٹی وی اسکرین پر بریکنگ نیوزنشر ہورہی ہے کہ سعودی وزیرخارجہ نے مشرقِ وسطیٰ کے دیرینہ تنازع کی بڑی وجہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ دیدیا ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے دوران پینل ڈسکشن میں سعودی وزیر خارجہ سعودی شہزادہ فیصل بن فرحان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا مسئلہ فلسطین حل ہونے کے بعد سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرسکتاہے؟ جسکا جواب سعودی وزیر نے یقیناکہہ کر دیا۔انہوں نے اس امر سے اتفاق کیا کہ علاقائی امن میں اسرائیل کا امن بھی شامل ہے لیکن خطے میں امن کا قیام صرف فلسطینیوں کیلئے خودمختار فلسطینی ریاست کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کیلئے سعودی عرب امریکی انتظامیہ کے ساتھ ملکر باہمی کوششیں کررہا ہے، سعودی شہزادہ فیصل نے مزید کہا کہ سعودی عرب کی اولین ترجیح غزہ میں امن ہے، غزہ میں فوری طور پرجنگ بندی ہونی چاہیے،اگر غزہ کے مصائب جاری رہے تو تنازعات کا سلسلہ چلتا رہیگا، اسرائیلی کارروائیوں سے علاقائی استحکام خطرے میں پڑگیا ہے۔مشرق وسطیٰ تنازع کے حوالے سے حالیہ پیش رفت نے دورجدید کی اس سفارتی پیچیدگیوں کی درست عکاسی کی ہے کہ عالمی سیاست میں نہ کوئی مستقل طور پر دوست ہوتا ہے اور نہ کوئی دشمن،یہ صرف اور صرف باہمی مفادات ہوتے ہیں جو ریاستوں کو قریب اور دور لے جاتے ہیں،اپنے ملکی مفادات کے حصول کی جدوجہد میں دوست اور مخالف بدلتے رہتے ہیں۔ میں گزشتہ چند برسوں سے بالخصوص اگست 2020ء میں معاہدہ ابراہیمی کے تناظر میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات استوار کر نے کی خبریں منظرعام پر آنے کے بعد متواتر اپنے خیالات کا اظہار کرتا آرہا ہوں کہ ہمارے خطے کی علاقائی صورتحال نہایت تیزی سے بدل رہی ہے، ہمیں بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ سعودی عرب عالمی برادری کاایک اہم ترین ملک اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کی بناء پر مسلمان دنیا میں بہت زیادہ مذہبی اثر و رسوخ کا حامل ہے۔تاریخی طور پر سعودی عرب کا موقف روزِ اول سے فلسطینی عربوں کے حق میں ہے،سعودی عرب اقوام متحدہ میں فلسطین پارٹیشن پلان کی پرزور مخالفت میں پیش پیش رہا اور عرب اسرائیل جنگ میں مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں ہراول دستہ ثابت ہوا، ستر کی دہائی تک سعودی عرب میں ایسے کسی فرد کو داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی جن کے پاسپورٹ پر اسرائیل آمدورفت کی مہر لگی ہوتی، سعودی مملکت میں روزگار کے متلاشی غیر ملکیوں کیلئے جیوش کمیونٹی سے اظہارِ لاتعلقی کے حلف نامہ پر دستخط لازمی تھے۔ تاہم ستر کی دہائی کے اختتام تک علاقائی صورتحال کو ایک نئے موڑ کا سامنا کرنا پڑا جب افغانستان میں سویت افواج داخل ہوگئیں۔ افغان عوام نے بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی تواس موقع پر امریکہ کے کلیدی اتحادی سعودی عرب اور پاکستان بطورفرنٹ لائن اسٹیٹ عالمی منظرنامہ پر ابھرے، مبصرین کا کہنا ہے کہ سویت یونین کے خلاف مزاحمت میں درپردہ اسرائیل کی تکنیکی اور دفاعی معاونت بھی شامل تھی جسے مصلحتاََ خفیہ رکھا گیا تھا۔ میں نے گزشتہ برس اکتوبر میں غزہ تنازع شروع ہونے سے قبل پیش گوئی کی تھی کہ معاہدہ ابراہیمی کے تحت بہت جلد سعودی عرب اور اسرائیل اپنی تاریخی دشمنی کو مٹانے جارہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ حالیہ غزہ تنازع نے علاقائی امن کی پیش رفت کو دھچکا ضرور پہنچایا ہے لیکن دونوں اطراف سے آج بھی امن کی خواہش توانا ہے۔ تاہم اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی روایتی سیاست کو تبدیل کرنے کی خاطر سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے بہت کچھ داؤپر لگانا پڑے گا، سب سے پہلے اسرائیل کو علاقے میں اعتمادسازی کی فضاء ہموار بنانے کیلئے غزہ کے مظلوم شہریوں پر طاقت کا بہیمانہ استعمال مکمل طور پر ترک کرنا ہوگا،میری ناقص رائے میں سعودی عرب بھی صرف اسی صورت ڈائیلاگ کی میز پر بیٹھنے کیلئے آمادہ ہوگا جب اسرائیل کی جانب سے دو ریاستی حل کے تحت فلسطینیوں کی آزاد ریاست کے قیام کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں،میں سمجھتا ہوں کہ حالیہ غزہ تنازع سے اسرائیل کی سفارتی و اخلاقی پوزیشن بہت زیادہ کمزور ہوچکی ہے اور اب سعودی عرب ماضی کی نسبت بہترین پوزیشن پر آگیا ہے کہ وہ غزہ سے ناکہ بندی ختم کرنے ، فلسطینی اتھارٹی کو مکمل بااختیار بنانے اور مغربی کنارے کے اہم علاقوں سے اسرائیلی دستبرداری وغیرہ کی پیشگی شرائط منوا سکے۔دوسری طرف اسرائیل کے حامی امریکہ اور مغربی ممالک کو بھی ادراک کرنا چاہیے کہ اگر آج اسرائیل ایک حقیقت ہے تو فلسطینی ریاست کو حقیقت کا روپ دینا بھی اقوام متحدہ کے حل طلب دیرینہ ایشوز میں سرفہرست ہے۔ مزید براں، مشرق وسطیٰ میں حالیہ پیش رفت نے میرے اس برحق موقف کو بھی تقویت پہنچائی ہے کہ ہر مسئلے کا حل مذاکرات ہے۔کوریائی ممالک ہوں یا جرمنی کے سابقہ حصے یا پھر یورپی ممالک، ان سب نے اپنے تنازعات گفت و شنید سے ہی حل کئے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

دھند کے باعث پنجاب میں موٹر ویز سمیت بڑی شاہراہیں ٹریفک کے لیے بند کردی گئی ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تمام افراد کے خلاف سڑک بلاک کرکے نعرے لگانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ جلسے سے شہباز شریف، مریم نواز اور سائرہ افضل تارڑ بھی خطاب کریں گی۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ایرانی حملے پر ہوسکتا ہے کہ ہمیں مزید سخت پوزیشن لینی پڑے لیکن یہ ضرور مدنظر رکھنا چاہے کہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے نہ بگڑیں کہ جن کی تلافی نہ ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف تو ایران خطے میں دہشت گردی اور عدم استحکام کا سب سے بڑا اسپانسر ہے اور دوسری طرف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے انسداد دہشت گردی کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

نگراں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے نام سے جعلی ہدایت نامہ پھیلایا گیا ہے۔

گورنر سندھ کامران ٹیسوری ایران سے کراچی پہنچ گئے، اُن کا کہنا ہے کہ ملکی سالمیت اور وقار کا جب معاملہ ہو تو پاکستان سب سے پہلے ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے عام انتخابات 2024ء کے امیدواروں کا ڈیٹا جاری کردیا ہے۔

ن لیگ کے سینئر رہنما اور این اے 75 کے آزاد امیدوار دانیال عزیز کا انتخابی جلسہ روک دیا گیا۔

بھارت سیریز پہلے ہی 0-2 سے اپنے نام کرچکا تھا، جبکہ آخری میچ میں جیت کےلیے افغانستان نے خوب جان لڑائی۔

معروف بھارتی اداکار جمی شیرگل کے والدین نے ان سے ڈیڑھ برس تک بات چیت نہیں کی اسکی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جمی نے اپنے بال کٹوالیے تھے، اس حوالے سے 53 سالہ جمی کا کہنا ہے کہ یہ انکی غلطی تھی۔

سابق صوبائی وزیر کامران بنگش کو الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان ریکٹ الاٹ کردیا گیا۔

اے ایس ایف کے ماہر عملے نے مسافر کے سامان کی اسکیننگ کے دوران دستی بیگ کو مشکوک قرار دیا، ترجمان اے ایس ایف

فوربس کی جانب سے جاری کردہ ایک فہرست کے مطابق دنیا کی مضبوط ترین کرنسی میں امریکی ڈالر دسویں نمبر پر ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ بھارتی وزارت خارجہ اس معاملے پر سفارتی بات چیت کر رہا ہے۔

امریکا نے حوثی گروپ کو دوبارہ دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرلیا۔ خبر ایجنسی کے مطابق صدر بائیڈن نے 2021 میں حوثی گروپ کو دہشتگردوں کی فہرست سے نکال دیا تھا۔

QOSHE - ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی - ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی

25 20
18.01.2024

اس وقت میرے سامنے موجود ٹی وی اسکرین پر بریکنگ نیوزنشر ہورہی ہے کہ سعودی وزیرخارجہ نے مشرقِ وسطیٰ کے دیرینہ تنازع کی بڑی وجہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ دیدیا ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے دوران پینل ڈسکشن میں سعودی وزیر خارجہ سعودی شہزادہ فیصل بن فرحان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا مسئلہ فلسطین حل ہونے کے بعد سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرسکتاہے؟ جسکا جواب سعودی وزیر نے یقیناکہہ کر دیا۔انہوں نے اس امر سے اتفاق کیا کہ علاقائی امن میں اسرائیل کا امن بھی شامل ہے لیکن خطے میں امن کا قیام صرف فلسطینیوں کیلئے خودمختار فلسطینی ریاست کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کیلئے سعودی عرب امریکی انتظامیہ کے ساتھ ملکر باہمی کوششیں کررہا ہے، سعودی شہزادہ فیصل نے مزید کہا کہ سعودی عرب کی اولین ترجیح غزہ میں امن ہے، غزہ میں فوری طور پرجنگ بندی ہونی چاہیے،اگر غزہ کے مصائب جاری رہے تو تنازعات کا سلسلہ چلتا رہیگا، اسرائیلی کارروائیوں سے علاقائی استحکام خطرے میں پڑگیا ہے۔مشرق وسطیٰ تنازع کے حوالے سے حالیہ پیش رفت نے دورجدید کی اس سفارتی پیچیدگیوں کی درست عکاسی کی ہے کہ عالمی سیاست میں نہ کوئی مستقل طور پر دوست ہوتا ہے اور نہ کوئی دشمن،یہ صرف اور صرف باہمی مفادات ہوتے ہیں جو ریاستوں کو قریب اور دور لے جاتے ہیں،اپنے ملکی مفادات کے حصول کی جدوجہد میں دوست اور مخالف بدلتے رہتے ہیں۔ میں گزشتہ چند برسوں سے بالخصوص اگست 2020ء میں معاہدہ ابراہیمی کے تناظر میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات استوار کر نے کی خبریں منظرعام پر آنے کے بعد متواتر اپنے خیالات کا اظہار کرتا آرہا ہوں کہ ہمارے خطے کی علاقائی صورتحال نہایت تیزی سے بدل رہی ہے، ہمیں بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی........

© Daily Jang


Get it on Google Play