گاہے خیال آتا ہے شاید ہم پاکستانیوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ آج تک ہم جسٹس منیر کو اسلئے مطعون کرتے چلے آئے ہیں کہ انہوں نے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کرنیکی روایت کیوں ڈالی مگر اچانک مزاج بدلا تو اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اسلئے ہدف تنقید بنالیا گیا ہے کہ انہوں نے نظریہ ضرورت کے بجائے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنا کیوں شروع کردیئے ہیں۔ میرا خیال ہے ایک بار ہم یہ طے کرلیں کہ عدلیہ کو آئین و قانون کی رو سے کام کرنا چاہئے یا پھر اخلاقیات، آئین کی روح اور سیاسی مصلحت جیسی مبہم اصطلاحات کے پیش نظر فیصلے کرنے چاہئیں۔ اگر تو آئین کے بجائے آئین کی روح، اخلاقی تقاضوں اور زمینی حقائق کے تحت کام چلانا ہے تو پھر یہ سب اصول بدلتے رہیں گے۔ ہر چیف جسٹس کی اپنی لغت اور اپنی تشریح و تعبیر ہوگی۔ لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ ہر عدالتی فیصلے کو آئین و قانون کی کسوٹی پرجانچنے کے بعد رائے دی جائے۔ سب سے پہلا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ جس طرح اے این پی کو ایک موقع دیدیا گیا اور چتائونی دینے کے بعد لالٹین کا انتخابی نشان لوٹا دیا گیا اسی طرح پی ٹی آئی کو بھی جرمانہ کردیا جاتا ،اس قدر سخت سزا نہ دی جاتی۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر پارٹی الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے دستور کے مطابق پارٹی الیکشن کروانے کی پابند ہے۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی کے دستور میں لکھا ہے کہ ہر تین سال بعد انٹرا پارٹی الیکشن ہونگے۔ لیکن الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق جماعتی انتخابات کیلئے پانچ سال کی مہلت دی گئی ہے۔ اے این پی کے انٹرا پارٹی الیکشن مئی 2019ء میں ہوئے تھے اور پانچ سال کی مہلت مئی 2024ء میں ختم ہوگی اسلئے عوامی نیشنل پارٹی کو جرمانہ کرکے انتخابی نشان لوٹا دیا گیا مگر پی ٹی آئی کی واردات کتنی گھنائونی ہے، آپ سنیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔2017ء میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے، کتنے شفاف تھے ،اس تفصیل میں نہیں جاتے ۔اب 2022ء میں پانچ سال پورے ہونے سے پہلے دوبارہ انتخابات کروانے تھے۔الیکشن کمیشن نے مئی 2021ء میں جب عمران خان وزیراعظم تھے، تب پہلا نوٹس جاری کیا۔ پی ٹی آئی نے اسے جوتے کی نوک پر رکھا ۔کچھ عرصہ بعد دوسرا نوٹس جاری کیا گیا اور 13جون2022ء کی ڈیڈلائن مقرر کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس تاریخ سے پہلے انتخابات نہ کروائے تو پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کردیا جائیگا۔

تحریک انصاف کے چیئرمین کی طرف سے جون 2022ء میں الیکشن کمیشن کو بتایا گیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن ہوگئے ہیں۔ اگرچہ حقیقی انتخابات کسی بھی سیاسی جماعت میں نہیں ہوتے مگر ضابطے اور قانون کے مطابق رسمی کارروائی ضرور کی جاتی ہے مگر پی ٹی آئی نے رسمی انتخابات کا تکلف اور تردد بھی گوارہ نہ کیا۔13ستمبر 2023ء الیکشن کمیشن نے اس جعلسازی اور فراڈ کا سراغ لگا لیا۔ قانونی تقاضا تو یہ تھا کہ اسی موقع پر انتخابی نشان واپس لے لیا جاتا لیکن مقبول سیاسی جماعت کو ایک موقع اور دیتے ہوئے دوبارہ انتخابات کروانے کا موقع دیدیا۔ الیکشن کمیشن کی ہدایات پر عمل کرنے کے بجائے اس نوٹس کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔اور پھر 2دسمبر 2023ء کو نام نہاد انتخابات کے ذریعے نئی قیادت کااعلان کردیا گیا۔جب انہیں چیلنج کیا گیا اور الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ دیا تو لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کے بجائے پشاور ہائیکورٹ سے حکم امتناع لے لیا گیا۔

پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کا دفاع تو ان کے وکلاء نے بھی نہیں کیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ انتخابات کے لئے محض رسمی کارروائی بھی پوری نہیں کی گئی۔مثلاً سپریم کورٹ میں سماعت کے د وران سوال ہوا ،پارٹی الیکشن کے لئے کوئی نامزدگی فارم تو بنایا ہوگا؟بتایا گیا، جی نامزدگی فارم ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔چیف جسٹس نے اسی وقت ویب سائٹ کھولی تو وہاں نامزدگی فارم موجود نہیں تھا۔دعویٰ کیا گیا کہ پارٹی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لئے پچاس ہزار روپے فیس مقرر کی گئی تھی۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ،کس اکائونٹ میں وہ فیس جمع ہوئی ،اس کا کوئی ثبوت ہے؟آپ بھی تو اپنے سیاسی مخالفین سے رسیدیں مانگتے رہے ہیں تو ایسی کوئی رسید ہے تو پیش کردیں ۔مگر کوئی ثبوت ہوتا تو سامنے آتا۔جب اور کوئی جواب نہیں بن پاتا تو کہا جاتا ہے کہ دیگر جماعتوں کے انتخابات بھی تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ(ن)یا کسی اور سیاسی جماعت کے لوگوں نے اپنے پارٹی انتخابات کو چیلنج کیا؟کسی اور سیاسی جماعت نے اس نوعیت کے فراڈ اور جعلسازی کا ارتکاب کیا؟کیا کسی اور سیاسی جماعت کو اس قدر مہلت ملی جتنی پی ٹی آئی کے حصے میں آئی؟عدالت میں کہا گیا،اکبر ایس بابر کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا ،انہوں نے کب استعفیٰ دیا؟کسی اور پارٹی میں شمولیت اختیار کی یا پھر کب انہیں پارٹی سے نکالا گیا ،کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں۔پی ٹی آئی کے وکلا ء خاموش رہے۔کہا جاتا ہے کہ تکنیکی بنیادوں پر ملک کی بڑی سیاسی جماعت کو میدان سے باہر کردیا گیا۔قانون نام ہی تکنیک کا ہے۔ہم سب اپنی آمدنی و اخراجات سے متعلق جو گوشوارے جمع کرواتے ہیں کیا وہ 100فیصد ٹھیک ہوتے ہیں ،نہیں۔لیکن اگر کوئی شخص گوشوارے جمع ہی نہ کروائے یا پھر جعلسازی کرتا پکڑا جائے تو ٹیکنیکل گرائونڈز پر اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

حماس کے مرکزی رہنما اور مذاکرات کار موسی ابو مرزوق کا کہنا ہے کہ ریڈ کراس نے حماس کے پاس اسرائیلی جنگی قیدیوں کو دوا فراہمی کی درخواست کی تھی۔

دھند کے باعث پنجاب میں موٹر ویز سمیت بڑی شاہراہیں ٹریفک کے لیے بند کردی گئی ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تمام افراد کے خلاف سڑک بلاک کرکے نعرے لگانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ جلسے سے شہباز شریف، مریم نواز اور سائرہ افضل تارڑ بھی خطاب کریں گی۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ایرانی حملے پر ہوسکتا ہے کہ ہمیں مزید سخت پوزیشن لینی پڑے لیکن یہ ضرور مدنظر رکھنا چاہے کہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے نہ بگڑیں کہ جن کی تلافی نہ ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف تو ایران خطے میں دہشت گردی اور عدم استحکام کا سب سے بڑا اسپانسر ہے اور دوسری طرف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے انسداد دہشت گردی کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

نگراں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے نام سے جعلی ہدایت نامہ پھیلایا گیا ہے۔

گورنر سندھ کامران ٹیسوری ایران سے کراچی پہنچ گئے، اُن کا کہنا ہے کہ ملکی سالمیت اور وقار کا جب معاملہ ہو تو پاکستان سب سے پہلے ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے عام انتخابات 2024ء کے امیدواروں کا ڈیٹا جاری کردیا ہے۔

بھارت سیریز پہلے ہی 0-2 سے اپنے نام کرچکا تھا، جبکہ آخری میچ میں جیت کےلیے افغانستان نے خوب جان لڑائی۔

معروف بھارتی اداکار جمی شیرگل کے والدین نے ان سے ڈیڑھ برس تک بات چیت نہیں کی اسکی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جمی نے اپنے بال کٹوالیے تھے، اس حوالے سے 53 سالہ جمی کا کہنا ہے کہ یہ انکی غلطی تھی۔

سابق صوبائی وزیر کامران بنگش کو الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان ریکٹ الاٹ کردیا گیا۔

اے ایس ایف کے ماہر عملے نے مسافر کے سامان کی اسکیننگ کے دوران دستی بیگ کو مشکوک قرار دیا، ترجمان اے ایس ایف

فوربس کی جانب سے جاری کردہ ایک فہرست کے مطابق دنیا کی مضبوط ترین کرنسی میں امریکی ڈالر دسویں نمبر پر ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ بھارتی وزارت خارجہ اس معاملے پر سفارتی بات چیت کر رہا ہے۔

امریکا نے حوثی گروپ کو دوبارہ دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرلیا۔ خبر ایجنسی کے مطابق صدر بائیڈن نے 2021 میں حوثی گروپ کو دہشتگردوں کی فہرست سے نکال دیا تھا۔

QOSHE - محمد بلال غوری - محمد بلال غوری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد بلال غوری

16 28
18.01.2024

گاہے خیال آتا ہے شاید ہم پاکستانیوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ آج تک ہم جسٹس منیر کو اسلئے مطعون کرتے چلے آئے ہیں کہ انہوں نے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کرنیکی روایت کیوں ڈالی مگر اچانک مزاج بدلا تو اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اسلئے ہدف تنقید بنالیا گیا ہے کہ انہوں نے نظریہ ضرورت کے بجائے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنا کیوں شروع کردیئے ہیں۔ میرا خیال ہے ایک بار ہم یہ طے کرلیں کہ عدلیہ کو آئین و قانون کی رو سے کام کرنا چاہئے یا پھر اخلاقیات، آئین کی روح اور سیاسی مصلحت جیسی مبہم اصطلاحات کے پیش نظر فیصلے کرنے چاہئیں۔ اگر تو آئین کے بجائے آئین کی روح، اخلاقی تقاضوں اور زمینی حقائق کے تحت کام چلانا ہے تو پھر یہ سب اصول بدلتے رہیں گے۔ ہر چیف جسٹس کی اپنی لغت اور اپنی تشریح و تعبیر ہوگی۔ لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ ہر عدالتی فیصلے کو آئین و قانون کی کسوٹی پرجانچنے کے بعد رائے دی جائے۔ سب سے پہلا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ جس طرح اے این پی کو ایک موقع دیدیا گیا اور چتائونی دینے کے بعد لالٹین کا انتخابی نشان لوٹا دیا گیا اسی طرح پی ٹی آئی کو بھی جرمانہ کردیا جاتا ،اس قدر سخت سزا نہ دی جاتی۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر پارٹی الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے دستور کے مطابق پارٹی الیکشن کروانے کی پابند ہے۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی کے دستور میں لکھا ہے کہ ہر تین سال بعد انٹرا پارٹی الیکشن ہونگے۔ لیکن الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق جماعتی انتخابات کیلئے پانچ سال کی مہلت دی گئی ہے۔ اے این پی کے انٹرا پارٹی الیکشن مئی 2019ء میں ہوئے تھے اور پانچ سال کی مہلت مئی 2024ء میں ختم ہوگی اسلئے عوامی نیشنل پارٹی کو جرمانہ کرکے انتخابی نشان لوٹا دیا گیا مگر پی ٹی آئی کی واردات کتنی گھنائونی ہے، آپ سنیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔2017ء میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے، کتنے شفاف تھے ،اس تفصیل میں نہیں جاتے........

© Daily Jang


Get it on Google Play