عام انتخابات کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ کیا عام انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا ہو سکے گا یا حالات مزید ابتری کا شکار ہوں جائیں گے؟ کیا آنے والی حکومت معیشت کی مستقل بنیادوں پر بحالی کیلئے درکار ٹھوس اقدامات اور اصلاحات پر عملدرآمد کر پائے گی یا ہم کاروبار مملکت چلانے کیلئے یونہی عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے ایک کے بعد ایک قرضہ یا مالیاتی اعانت کیلئے خوار ہوتے رہیں گے؟ کیا ہماری سیاسی جماعتیں برداشت اور رواداری کی پالیسی اپنا کر اپنے اندر جمہوریت کو پنپنے دیں گی یا سیاسی محاذ آرائی کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا؟ کیا ارباب اختیار ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے ایجنڈے کو اپنی پہلی ترجیح بنائیں گے یا ذاتی اور سیاسی مفادات ہی مقدم سمجھے جائیں گے۔ کیاآئینی ادارے اور سرکاری محکمے قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی پالیسی اپنائیں گے یا ایک بحران سے نکلنے کیلئے ایک نیا بحران پیدا کرنے کی روش جاری رہے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں کلبلا رہے ہیں لیکن کسی کے پاس ان سوالات کا تشفی آمیز جواب نہیں ہے۔

ملک میں سیاسی تقسیم بڑھتے بڑھتے نفرت اور شدت کی اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ ہر سیاسی جماعت کا ورکر اور لیڈر یکساں طور پر مخالف سیاسی جماعت کے کارکنوں اور قیادت کو قابل گردن زدنی سمجھنے لگا ہے۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی سیاسی لیڈر مفاہمت اور مل جل کر ملک کو آگے لیجانے کی بات کرنا بھی چاہتا ہے تو اسے سو بار سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں اس کے اپنے ہی اس بات پر اس سے ناراض نہ ہو جائیں۔ جہاں انتخابی عمل کا بنیادی نکتہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد ملک کو درپیش معاشی مسائل کیسے حل ہوں گے، سرکاری اداروں کی استعداد کار کیسے بہتر بنائی جائے گی اور عام شہریوں کی زندگیاں بہتر بنانے کیلئےتعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی میں بہتری کیسے لائی جائے گی۔ وہاں ایک دوسرے کی تضحیک اور ذاتی حملوں کو ہی سیاست سمجھ لیا گیا ہے۔

آپ کسی سیاسی جماعت کے لیڈر کے جلسوں میں کی جانے والی تقاریر سن لیں اس میں عوام کی فلاح وبہبود سے زیادہ وقت مخالفین پر طنز اور تضحیک آمیز جملے کسنے میں ضائع کیا جاتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سیاسی اجتماعات میں شریک عوام بھی اس کلچر کو فروغ دینے میں برابر کے شریک ہیں۔ اگر وہ اپنی سیاسی قیادت کے اس طرز گفتگو پر تالیاں بجانے اور واہ واہ کرنے کی عادت ترک کر دیں تو شاید قیادت کو بھی یہ احساس ہونا شروع ہو جائے کہ عوام باشعور ہو چکے ہیں اور انہیں اس طرح کی سطحی اور جذباتی باتوں سے متاثر کرنا اب ممکن نہیں ہے۔

اس وقت عوام کو درپیش اہم مسائل میں مہنگائی اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ سرفہرست ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے عام آدمی سے لے کر صنعتکار تک ہر کوئی پریشان ہے لیکن یہ مسئلہ کسی انتخابی جلسے یا تقریر کا موضوع نہیں ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی سیاسی قیادت کا احتساب کرنے یا ان سے سوال پوچھنے کو تیار ہی نہیں ہیں بلکہ ہم ان سے زیادہ ان کے دفاع کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اگر انتخابی جلسوں میں عوام اس طرح کے سوال پوچھنا شروع کر دیں کہ اس مہنگائی کے اصل محرکات کیا ہیں یا بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی اصل وجوہات کیا ہیں تو سیاسی قیادت بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گی کہ لوگوں کی معاشی مشکلات کی وجوہات کیا ہیں۔ انہیں یہ احساس رہے گا کہ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے معاشی ایجنڈے کی تیاری ابھی سے شروع کرنا ہو گی اور حکومت ملنے کے بعد گزشتہ حکومتوں کا رونا رونے کی بجائے مسائل حل کرنے کیلئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان میں اس وقت ہر طرح کی انڈسٹری تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے جس کی بڑی وجہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ انرجی کاسٹ بڑھنے کی وجہ سے پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے ہم مسابقت میں خطے کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کی متمنی ہر سیاسی جماعت اپنے منشور میں یہ بات ضرور لکھتی ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا لیکن اس کیلئے روڈ میپ تیار کرنے کی زحمت کے لئے کوئی تیار نہیں ہے۔ کاروبار کا ایک اصول ہے کہ اگر منافع کم بھی ہو تو پیداوار جاری رکھی جاتی ہے بلکہ اسے بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ آمدنی میں ہونے والی کمی کو پورا کیا جا سکے لیکن اگر کاروباری لاگت میں ہی اس قدر زیادہ اضافہ ہو جائے کہ مارکیٹ میں اس کا کوئی خریدار ہی نہ ملے تو پھر بڑی سے بڑی صنعتی ایمپائر کے لئے بھی کام جاری رکھنا ممکن نہیں رہتا ہے۔ اس طرح ایک مل یا فیکٹری بند ہونے سے صرف ایک صنعتکار یا فیکٹری مالک ہی خسارے کا شکار نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور اور اس سے جڑے دیگر کاروباری شعبے متاثر ہونے سے ہزاروں خاندان معاشی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس طرح یہ دائرہ بڑا ہوتے ہوتے پورے ملک کی معاشی صورتحال کی خرابی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ اس لئے حالات کا یہ تقاضا ہے کہ سیاسی قیادت عوام کو اعتماد میں لےاور ان کے سامنے ملک کی معاشی بحالی کا حقیقت پر مبنی ایجنڈا پیش کرے۔ عوام کو مفت بجلی، تنخواہیں دگنی کرنے اور نت نئے غیر پیداواری ترقیاتی منصوبوں کے سہانے خواب نہ دکھائیں کیونکہ کل جب آپ اقتدار میں آ کر یہ وعدے پورے نہیں کر پائیں گے تو اس سے عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد مزید کمزور ہو گا۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ اس وقت ملک کے حالات درست کرنے کیلئے میڈیسن کی نہیں بلکہ سرجیکل آپریشن کی ضرورت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جتنا چاہے پیسا بہاؤ پنجاب تمہارے فریب میں نہیں آنے والا۔

برطانیہ سے طوفان ’’ایشا‘‘ کے ٹکرانے کے بعد ایمبرو وارننگ جاری کردی گئی۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سابق صدر آصف علی ذرداری کے قریبی دوست انور مجید کے بیٹے نمر مجید کو کراچی ایئرپورٹ پر روک لیا۔

الیکشن کمشنر سندھ نے مانیٹرنگ ٹیم کو ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد ہر صورت یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔

انضمام الحق نے کہا کہ جب تک اعتماد نہیں دیں گے پرفارمنس نہیں ہوگی۔

سپریم کورٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات تک رسائی ہر شہری کا حق ہے۔

غزہ میں اسرائیل کے سفاکانہ حملے اور وحشیانہ بمباری ایک سو سات روز سے مسلسل جاری ہیں۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص بچوں کیلئے معروف انگریزی نظم جونی جونی یس پاپا کو کلاسیکل انداز میں گا رہا ہے۔

علی پلھ نے کہا کہ متحدہ کارکنان کے خلاف ایف آئی آردرج کروا دی ہے۔

گاڑی پر فائرنگ ہوئی ہے تاہم گاڑی بلٹ پروف ہونے کی وجہ سے پارٹی رہنما محفوظ رہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ ہم سے پاکستان کی ترقی کا موازنہ کرو۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینئر رہنما مصطفیٰ کمال نے پیپلز پارٹی سے 15 برس کے ظلم کا حساب لینے کا اعلان کردیا۔

متحدہ قومی موومنٹ کے سینئیر ڈپٹی کنوینئر فاورق ستار نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم نے ون ڈے میچ کھیل کر مخالفین کو فارغ کر دیا، آج کے جلسے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ موجود ہیں۔

تیسری پوزیشن کے میچ میں پاکستان کو نیوزی لینڈ نے 2 کے مقابلے میں 3 گول سے ہرادیا۔

ہمایوں اختر نے کہا کہ انتخابات میں کامیاب ہوکر حلقے کی ترقی کے لیے کام کریں گے،

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سربراہ خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ جب ہم آتے ہیں تو حاکم وقت گھر جاتے ہیں۔

QOSHE - چوہدری سلامت علی - چوہدری سلامت علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

چوہدری سلامت علی

8 1
22.01.2024

عام انتخابات کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ کیا عام انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا ہو سکے گا یا حالات مزید ابتری کا شکار ہوں جائیں گے؟ کیا آنے والی حکومت معیشت کی مستقل بنیادوں پر بحالی کیلئے درکار ٹھوس اقدامات اور اصلاحات پر عملدرآمد کر پائے گی یا ہم کاروبار مملکت چلانے کیلئے یونہی عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے ایک کے بعد ایک قرضہ یا مالیاتی اعانت کیلئے خوار ہوتے رہیں گے؟ کیا ہماری سیاسی جماعتیں برداشت اور رواداری کی پالیسی اپنا کر اپنے اندر جمہوریت کو پنپنے دیں گی یا سیاسی محاذ آرائی کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا؟ کیا ارباب اختیار ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے ایجنڈے کو اپنی پہلی ترجیح بنائیں گے یا ذاتی اور سیاسی مفادات ہی مقدم سمجھے جائیں گے۔ کیاآئینی ادارے اور سرکاری محکمے قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی پالیسی اپنائیں گے یا ایک بحران سے نکلنے کیلئے ایک نیا بحران پیدا کرنے کی روش جاری رہے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں کلبلا رہے ہیں لیکن کسی کے پاس ان سوالات کا تشفی آمیز جواب نہیں ہے۔

ملک میں سیاسی تقسیم بڑھتے بڑھتے نفرت اور شدت کی اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ ہر سیاسی جماعت کا ورکر اور لیڈر یکساں طور پر مخالف سیاسی جماعت کے کارکنوں اور قیادت کو قابل گردن زدنی سمجھنے لگا ہے۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی سیاسی لیڈر مفاہمت اور مل جل کر ملک کو آگے لیجانے کی بات کرنا بھی چاہتا ہے تو اسے سو بار سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں اس کے اپنے ہی اس بات پر اس سے ناراض نہ ہو جائیں۔ جہاں انتخابی عمل کا بنیادی نکتہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد ملک کو درپیش معاشی مسائل کیسے حل ہوں گے، سرکاری اداروں کی استعداد........

© Daily Jang


Get it on Google Play