متوقع انتخابات میں چند ہی روز رہ گئے ہیں لیکن وہ انتخابی گہماگہمی نظر نہیں آرہی جواس موقع پرپہلے نظر آیا کرتی تھی۔ بہرحال مسلم لیگ(ن) نے ساہیوال اور مانسہرہ میں بڑے جلسے کرکے وہاں ماحول کو گرمانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بھی پنجاب اور سندھ میں جلسے کررہے ہیں جن میں وہ سیاسی رواداری اور شائستگی سے دور ہوتے نظر آرہے ہیں۔ یہی لب ولہجہ بانی پی ٹی آئی کا بھی تھا۔ شاید چیئرمین پی پی پی ان ہی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ مولانا فضل الرحمان تاحال اس انتخابی عمل میں اس طرح سرگرم نظر نہیں آرہے جس طرح وہ گزشتہ انتخابات میں نظر آتے تھے۔ اے این پی اور دیگر جماعتیں بشمول بلوچستان کی علاقائی جماعتوں کے بالکل متحرک نہیں ہیں۔ اسکی کیا وجوہات ہیں یہ تو سیاستدان ہی جانتے ہونگے۔

پاکستان تحریک انصاف کو شدید اندرونی اختلافات کا سامنا ہے۔ اس پارٹی پر اب وکلا قابض ہیں جنہوں نے کارکنوں کو نظر انداز کرکے ٹکٹیں آپس میں تقسیم کرلی ہیں۔ مبینہ طور پر وکلا کی وجہ سے پی ٹی آئی ’’بلے‘‘ کے نشان سے قانونی طور پر محروم ہوگئی ہے۔ لیکن اسکے علاوہ بھی چند اہم وجوہات ہیں جنکی وجہ سے اس جماعت کو انتخابی میدان میں شکست ہوسکتی ہے۔ پہلی وجہ یہ کہ اس جماعت کے کارکنان یقینی طور پر بے یقینی کا شکار ہیں۔ کیونکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ پی ٹی آئی کسی بھی وقت الیکشن کا بائیکاٹ کردے یا پارٹی کے امیدوار ہی الیکشن میں شرکت سے لاتعلق ہوجائیں اور کسی دوسری جماعت کے امیدوار کے حق میں دستبردار ہوجائیں۔ دوسری وجہ وہی ہے جو پہلے عرض کرچکے ہیں کہ پی ٹی آئی نے حقیقی کارکن امید واروں کو نظر انداز کردیاہے۔ تاہم سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے خاموش کارکن اور حامی افراد کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو ریاست کے حامی ہیں اور وہ ریاست مخالف گروہوں کے خلاف ہیں۔9مئی کے ریاست مخالف اور شرپسندانہ اقدامات نے ریاست کے حامی لوگوں کواس جماعت سے متنفر کردیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بانی پی ٹی آئی شدید ذہنی دبائو کی وجہ سے غیر مستحکم ذہنی حالت سے دوچار ہیں۔ اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ جوانہوں نے سمجھا تھا یا انکو بتایا جاتا تھا وہ سب غلط تھا۔ ریاست مخالف بیانات ، عسکری قیادت کے بارے میں متعصبا نہ اور غیرمہذب گفتگو ، عسکری تنصیبات پر حملے اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کے علاوہ سوشل میڈیاپر ریاستی اداروں کے بارے میں مکروہ مہم چلانے کو بھلا کون محب وطن پاکستانی پسند یا ایسے مذموم اقدامات کی حمایت کرسکتا ہے۔ ؟بانی پی ٹی آئی کو یہ سمجھ نہ آنا سمجھ سے بالاتر اور عجیب بات ہے۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ انکے ان ناپسندیدہ بیانات واقدامات کے نتائج کیا ہوسکتےہیں۔ جن لوگوں نےانکو ان اقدامات پر اکسایا یا ان اقدامات میں انکی حمایت کی وہی توانکے اصل دشمن تھے۔ شاید اب انکو یہ سب سمجھ آگیا ہو۔ اور اسی لیے وہ ذہنی دبائو اور جھنجھلاہٹ کا شکار اور غیر مستحکم ذہنی حالت سے دوچار ہیں۔ اس ذہنی صورتحال کی وجہ سے وہ آئے روزمختلف لوگوں سے جھگڑتے ہیں۔ چار پانچ بار جیل پولیس سے منہ ماری بھی کی۔ کچھ دن پہلے الیکشن کمیشن کی تحقیقاتی ٹیم کو دھمکیاں دیں۔ جیل حکام اور عملے کو بھی دھمکیاں دیتے ہیں۔ یہ سب باتیں ان کی ذہنی کیفیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ گزشتہ روز بھی سائفر کیس کی سماعت کے بعد جیل سپرنٹنڈنٹ کو دھمکیاں دیں اور دونوں کے درمیان شدید تلخ کلامی کی اطلاعات ہیں۔ اس موقع پربانی پی ٹی آئی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کارکنوں کو پیغام دیا کہ وہ اتوار کے دن ایک بار پھر سڑکوں پر نکلیں یعنی رسی جل گئی پربل نہیں گئے۔

بانی پی ٹی آئی کے اس پیغام پر عملدرآمد ہوتا ہے یا نہیں لیکن اس سے انکی سوچ کی عکاسی ضرور ہوتی ہے کہ وہ موقع ملنے پر ملک میں افراتفری پھیلانے اور ریاست مخالف اقدامات سے باز نہیں آتے۔ وہ ماضی کی اس سوچ سے شاید ابھی نہیں نکلے جس کا عملی مظاہرہ پوری دنیا نے9مئی کو دیکھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب نہ توانکے پیغامات پرکوئی باشعور فرد سڑکوں پرنکل کراس طرح اودھم مچائے گا اور نہ ہی کسی بے شعور اور گمراہ کو دوبارہ ایسی مذموم ومکروہ حرکتوں کا موقع دیا جائے گا۔ یہ بھی واضح اور یقینی بات ہے کہ الیکشن کے نتائج کو پی ٹی آئی تسلیم نہیں کرئیگی اور یہ بھی بانی کی ہدایت پرہوگا کیونکہ9مئی کے ناپسندیدہ اقدامات،توشہ خانہ کیس اور سائفر سمیت دیگر مقدمات و مدنظر رکھتے ہوئے اور سمجھتے ہوئے کوئی محب وطن اس جماعت کو کیسے ووٹ دئیگا۔ اس لئے اس جماعت کی پہلی کوشش تو مبینہ طور پر یہ ہوگی کہ الیکشن کے بعد نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ملک میں افراتفری اور بے یقینی کی ایسی فضا قائم کی جائے کہ ریاستی نظام متاثر ہوجائے اور ایسی صورت میں اندرون ملک کاروبار متاثر ہو اور غیر ملکی سرمایہ کار یہاں آنے سے گریز کریں۔ اگر واقعی پی ٹی آئی والے اپنے بانی کی ہدایات پر ایسی کوئی بھی کوشش کریںگے تواس صورت میں حکومت جس کی بھی ہو راست اقدام پرمجبور ہوجائے گی۔ یاد رہے کہ یہ 2014نہیں2024ہے۔ اس لئے اب وہ کچھ نہیں ہوگا جوماضی میں ہو چکا ۔ امید کی جاسکتی ہے کہ پی ٹی آئی اب پرانی روش کو ترک کرکے ملکی ترقی کیلئے کردار ادا کرے گی۔

امریکا کی ریاست نیوہیم شائر میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کو منتخب کرنے کیلئے الیکشن کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔

فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کے حق میں آواز بلند کرنیوالے نے امریکا کے صدر جو بائیڈن کیلئے تقریر کرنا مشکل کردیا۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ اسرائیل کو 7 اکتوبر جیسا حملہ دوبارہ ہونے سے روکنے کا حق ہے، لیکن جب غزہ کی مستقل حیثیت کی بات آتی ہے تو ہم بہت واضح ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ زخمی اہلکار فرحان کو اسپتال منتقل کردیا گیا ہے، رہائشی عمارت میں گھسے ڈاکو دوسری عمارت کا سہارا لے کر فرار ہوگئے۔

خان یونس میں اسرائیلی فوج کے حملوں میں شدت آگئی، چند گھنٹوں میں 40 فلسطینی شہید کر دیے۔

سگیز ڈیری نامی کمپنی نے ڈیجیٹل ڈیٹوکس پروگرام کے انعقاد کا اعلان کیا۔

کرکٹ بورڈ کا آئین کہتا ہے کہ الیکشن میں منتخب چیئرمین کو انتخاب کے بعد ایک ہفتے میں چارج لینا ہوگا۔

اسرائیلی فوج نے خان یونس میں اسپتالوں پر حملے کیے۔ غزہ سے عرب میڈیا کے مطابق خان یونس میں النصر اسپتال کے اطراف اسرائیل نے بمباری کی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نارووال سے صوبائی حلقوں کے 4 امیدوار الیکشن سے دستبردار ہوگئے۔

مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز، یہودی آبادکاروں نے 38 اسکولوں کو شدید نقصان پہنچایا۔

ریٹائرڈ یا مستعفی جج کے خلاف کونسل کو کارروائی سے روکنے کے فیصلے کو وفاقی حکومت نے چیلنج کردیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دو تہائی یا تین چوتھائی اکثریت سے کامیابی کا دعویٰ کردیا۔

برطانیہ میں ایشا کے بعد طوفان جوسلین آگیا، کئی علاقوں میں اسی میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہواؤں کے ساتھ بارشیں شروع ہوگئیں۔

ماہرین نے خون کے ٹیسٹ سے الزائمر بیماری کی قبل از وقت تشخیص ممکن ہونے کی تصدیق کر دی۔

بلاول پہلے نواز شریف کے قد تک پہنچ جائیں پھر مکالمے کی خواہش کریں، رہنما ن لیگ

پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں ملک کو آصف علی زرداری کی ضرورت ہے۔

QOSHE - ایس اے زاہد - ایس اے زاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایس اے زاہد

11 0
24.01.2024

متوقع انتخابات میں چند ہی روز رہ گئے ہیں لیکن وہ انتخابی گہماگہمی نظر نہیں آرہی جواس موقع پرپہلے نظر آیا کرتی تھی۔ بہرحال مسلم لیگ(ن) نے ساہیوال اور مانسہرہ میں بڑے جلسے کرکے وہاں ماحول کو گرمانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بھی پنجاب اور سندھ میں جلسے کررہے ہیں جن میں وہ سیاسی رواداری اور شائستگی سے دور ہوتے نظر آرہے ہیں۔ یہی لب ولہجہ بانی پی ٹی آئی کا بھی تھا۔ شاید چیئرمین پی پی پی ان ہی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ مولانا فضل الرحمان تاحال اس انتخابی عمل میں اس طرح سرگرم نظر نہیں آرہے جس طرح وہ گزشتہ انتخابات میں نظر آتے تھے۔ اے این پی اور دیگر جماعتیں بشمول بلوچستان کی علاقائی جماعتوں کے بالکل متحرک نہیں ہیں۔ اسکی کیا وجوہات ہیں یہ تو سیاستدان ہی جانتے ہونگے۔

پاکستان تحریک انصاف کو شدید اندرونی اختلافات کا سامنا ہے۔ اس پارٹی پر اب وکلا قابض ہیں جنہوں نے کارکنوں کو نظر انداز کرکے ٹکٹیں آپس میں تقسیم کرلی ہیں۔ مبینہ طور پر وکلا کی وجہ سے پی ٹی آئی ’’بلے‘‘ کے نشان سے قانونی طور پر محروم ہوگئی ہے۔ لیکن اسکے علاوہ بھی چند اہم وجوہات ہیں جنکی وجہ سے اس جماعت کو انتخابی میدان میں شکست ہوسکتی ہے۔ پہلی وجہ یہ کہ اس جماعت کے کارکنان یقینی طور پر بے یقینی کا شکار ہیں۔ کیونکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ پی ٹی آئی کسی بھی وقت الیکشن کا بائیکاٹ کردے یا پارٹی کے امیدوار ہی الیکشن میں شرکت سے لاتعلق ہوجائیں اور کسی دوسری جماعت کے امیدوار کے حق میں دستبردار ہوجائیں۔ دوسری وجہ وہی ہے جو پہلے عرض کرچکے ہیں کہ پی ٹی آئی نے حقیقی کارکن امید واروں کو نظر انداز کردیاہے۔ تاہم سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے خاموش کارکن اور حامی........

© Daily Jang


Get it on Google Play