گزشتہ چند ہفتوں کی علالت کے دوان اللہ تعالیٰ کا اتنا شکر ادا کیا کہ اس کے بعد شیطان مجھ سے بات کرنے کا روادار بھی نہیں رہےگا۔ میں جب سموگ کا شکار ہوا تو میر ے بچے مجھے ہسپتال لے گئے اور وہاں ایڈمٹ کرایا ۔میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے کیئرنگ اولاد دی ۔

روزانہ بہترین ڈاکٹر مجھے چیک کرتے ادویات خریدنا پڑتیں میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں یہ ادویات خریدنے کی استطاعت رکھتا تھا ۔میری بہو میرے لئے گھر سے کھانا بنا کر بھجواتی۔ قدرے بہتری پر گھر واپس آیا تو بیگم نے دیکھ بھال کا حق ادا کر دیا وہ میرے سونے کے بعد بھی جاگتی رہتی، مجھے کمزوری کی وجہ سے بہت زیادہ نقاہت محسوس ہونے لگی تھی اور یوں چلنے پھرنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔میرا ایک گھریلو معاون مجھے وہیل چیئر پر گھر میں ادھر سے ادھر لے جاتا اور میں ان سہولتوں پر مسلسل اللہ کا شکر ادا کرتا رہا ۔میرے والد نے اپنی سفید پوشی کے دوران میری اور میں نے اپنی سفید پوشی کے دوران اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلائی، میں عمر کا زیادہ حصہ کرائے کے گھروں میں رہا بالآخر مجھے اپنی چھت نصیب ہوئی۔ میرے زمانے میں سب کے پاس سردیوں کا پراپر لباس اور دوسرے پہناوے نہیں ہوتے تھے ،میں بھی ان سے محروم تھا مگر اب جب میں آج کی بد حواس قسم کی سردی میں نرم وگداز بستر پر رضائی اور اس پر کمبل ڈال کر سوتا ہوں تو باقی بیان کردہ نعمتوں کے علاوہ اس سہولت کیلئے میں اللہ کا شکر ادا کرتاہوں ۔گھر سے باہر نکلتے ہوئے بھی میں نے خود کو گرم کپڑوں میں لپیٹا ہوتا ہے میرے پاس آفس جانے کیلئے اپنی سواری ہے اور یوں مجھے گرمی سردی میں بس اسٹاپوں پر کھڑا نہیں ہوتا پڑتا، میں دوست احباب ،عزیزوں رشتہ داروں کی خوشی غمی میں شریک ہوتا ہوں اور ایسے مواقع پر لین دین کے حوالے سے جو رسم ورواج ہوتے ہیں اپنی حیثیت کے مطابق ان کی پیروی کرتا ہوں ۔میں نے اپنے بچوں کی شادیاں محدود بجٹ میں اپنے ہی جیسے خاندانوں میں کیں۔ میری ’’ارینجڈ میرج ‘‘تھی جو ’’لو میرج‘‘ میں تبدیل ہو چکی ہے ۔میرے گھر میں تینوں ٹائم چولہا جلتا ہے سردیوں او رگرمیوں میں اپنی مرضی کے ٹمپریچر میں رہتا ہوں اور اس طرح کی بے شمار نعمتیں ہیں جن سے میرے خدا نے مجھے سرفراز کیا ہے۔

مگر ان کیلئے شکرگزاری کے علاوہ مجھے اپنے اللہ سے بہت گلے شکوے بھی ہیں ،میں بیمار تھا تو میرا تسلی بخش اور باعزت علاج ہوا ان لوگوں کا کیا قصور ہے جو ہسپتالوں کے برآمدوں میں پکے فرش پر لیٹے لیٹے انتقال کر جاتے ہیں اور علاج کیلئے پیناڈول کے علاوہ کوئی میڈیسن خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے !جن کے کرائے کے ایک ایک کمرے کے گھروں میں میاں بیوی بچے بچیاں فرش پر سوتے ہیں اور ان میں سے جو خوش قسمت ہیں وہ دو وقت کی روٹی کھاتے ہیں جھونپڑیوں میں رہنے والے گرمی، سردی، برسات، آندھی ہر طرح کے موسم سے نبرد آزما رہتے ہیں، انکے بچے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے اورانکے ہاتھوں میں کتابوں کی بجائے اوزار اور استاد کا تشدد اور جنسی ہراسانی ہوتی ہے۔ شہروں میں قطار اندر قطار کنالوں ،دس مرلوں اور پانچ مرلوں کے خوبصورت گھر نظر آتے ہیں جن میں گاڑیاں بھی کھڑی ہوتی ہیں اور جن مزدوروں نے تمام سرد و گرم موسم میں یہ گھر تعمیر کئے ہوتے ہیں کیا انکے مقدر میں تین مرلے کا گھر بھی نہیں ؟ہمارے گھروں میں غلامی کی طرز پر ملازموں کی بہتات نظر آتی ہے اور وہ ہمیں عیش وعشرت کی زندگی بسر کرتے دیکھتے ہیں کیا ان کے سینوں میں دل نہیں، کیا ان کے بچے ہمارے بچوں کو دیکھ کر دل گرفتہ نہیں ہوتے! وہ اسکول کیوں نہیں جا سکتے ان مزدوروں کی بچیوں کے ہاتھ پیلے کیوں نہیں ہوتےان کی ساری عمر خواب دیکھتے کیوں گزر جاتی ہے، ہم اپنی فیملی کے ساتھ مہنگے ہوٹل میں کھانا کھانے جاتے ہیں اور چھ سات سالہ غلام بنت غلام بچی کی گود میں اپنا دو تین سالہ بچہ دیکھ بھال کیلئے اس کے سپرد کر دیتے ہیں اور اسکے ساتھ بیٹھ کر وہ نعمتیں کھاتے ہیں جن کے بارے میں غلاموں کو بتایا جاتا ہے کہ یہ تمام نعمتیں ایمان والوں کو دوسری دنیا میں ملیں گی کہ یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے اور وہ لوگ جن کا جینا مرنا انکے اپنے ذمے ہے ریاست بھی انکی پرسان حال نہیں اور پورے گھر میں ایک فرد بھی ایسا نہیں جو ان کا دست بازو بن سکے، انکی عمر چارپائی پر اکیلے پڑے کھانسنے کے دورانیے تک ہی تو ہے جب کھانسی رکتی ہے تو ان کی آزمائش کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور اسکے بعد ان کیلئے ہمیشہ ساتھ رہنےوالی نعمتیں ہیں اگر وہ رب کا شکر ادا کرنے والوں میںسے تھے ۔

اللہ میاں سے میرےیہ گلے شکوے محدود ہیں اور اس لیے کہ وہ ہم سب کا پالنہار ہے مگر پالنہار صرف بیس پچیس فیصد کا کیوں سب کا کیوں نہیں ؟اللہ تعالیٰ نے یہ سہولت مغربی اقوام کو دی ہے جہاں گھریلو ملازمین اور ملازموں اوربوڑھوں تک کو وہ تمام سہولتیں ملتی ہیں جن سے وہ زندگی بسر کرسکیں ،میر ے خیال میں ہم میں اور ان میں یہ فرق اس لئے روا رکھا گیا ہے کہ قرآنی اصول کے مطابق انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کیلئے وہ کوشش کرتا ہے مگریا اللہ ہماری ریاست، ہمارے حکمران، ہمارے دانشور ہمیں صرف خواب کیوں دکھاتے ہیں ہمیں ہماری منزل تک پہنچانے کے دشوارگزار رستوں کو کیوں نہیں اپناتے اور اس کیلئے ہمارے حوصلوں کومہمیزکیوں نہیں دیتے؟بس اللہ میاں اب بس ہو گئی ہے!

ملتان میں رات پولیس نے سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کی رہائش گاہ پر مبینہ چھاپہ مارا۔

رپورٹس کے مطابق بچے پر حملے کے بعد مقامی شہریوں نے فائرنگ کرکے تیندوے کو ہلاک کردیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ رونتی کچے کے پولیس اہلکار چوکی سے واپس آرہے تھے کہ انہیں اغوا کرلیا گیا۔

لیویز حکام کا کہنا ہے کہ پانچوں افراد ٹیلی کام کمپنی کے ٹاور کی تنصیب کا کام کر رہے تھے کہ انہیں اغوا کیا گیا۔

شعیب شاہین نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ برابر ہیں، پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت میں دونوں نے پی ٹی آئی پر ظلم کیا۔

تھانا شیرا کوٹ پولیس نے فرار کا مقدمہ درج کر کے ملزمان باقر اور الیاس کو گرفتار کر لیا۔

بھارتی فلم انڈسٹری کی خوبرو اداکارہ رشمیکا مندانہ نے رنبیر کپور کے کن سپر اسٹارز کے کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے؟

عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کے خلاف مقدمہ میں جنوبی افریقہ کی درخواست پر جمعہ کو فیصلہ سنایا جائے گا۔

استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے سینئر رہنما ہمایوں اختر نے کہا ہے کہ گروپ میں ریاض فتیانہ کی سربراہی میں بہت سی قومیں اور الیکٹڈ لوگ شامل ہوئے ہیں۔

سری لنکا نے آن لائن مواد کنٹرول کرنے کا قانون منظور کرلیا،تاہم اپوزیشن جماعتوں نے قانون کو آزادی اظہار پر قدغن قرار دے دیا۔

فیصل واوڈا نے کہا کہ پی ٹی آئی میں 15 سال لگائے جو چیزیں ہورہی تھی وہ کلہاڑی خود پیر پر مارنا تھا۔

فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی نے انٹرنیشنل لیگ ٹی 20 میں شاندار آغاز کردیا۔

سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو نے 35 رکنی وفد کے ہمراہ دربار بابا گرو نانک کرتار پور کا دورہ کیا، ماتھا ٹیکا اور عبادات میں شرکت کی۔

سروے کے مطابق ن لیگ صوبے میں کھوئی ہوئی مقبولیت واپس حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئی۔

تحقیق کے مطابق روزانہ تین کپ چائے پینے سے حیاتیاتی طور پر بڑھتی عمر کے اثرات کو سست کیا جاسکتا ہے۔

دفاعی چیمپئن سبالینکا اور کوکو گف کے بعد ڈیانا یسٹ ریمسکا اور چین کی زینگ کین ون بھی آخری چار کھلاڑیوں میں شامل ہوگئیں۔

QOSHE - عطا ء الحق قاسمی - عطا ء الحق قاسمی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

عطا ء الحق قاسمی

30 0
25.01.2024

گزشتہ چند ہفتوں کی علالت کے دوان اللہ تعالیٰ کا اتنا شکر ادا کیا کہ اس کے بعد شیطان مجھ سے بات کرنے کا روادار بھی نہیں رہےگا۔ میں جب سموگ کا شکار ہوا تو میر ے بچے مجھے ہسپتال لے گئے اور وہاں ایڈمٹ کرایا ۔میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے کیئرنگ اولاد دی ۔

روزانہ بہترین ڈاکٹر مجھے چیک کرتے ادویات خریدنا پڑتیں میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں یہ ادویات خریدنے کی استطاعت رکھتا تھا ۔میری بہو میرے لئے گھر سے کھانا بنا کر بھجواتی۔ قدرے بہتری پر گھر واپس آیا تو بیگم نے دیکھ بھال کا حق ادا کر دیا وہ میرے سونے کے بعد بھی جاگتی رہتی، مجھے کمزوری کی وجہ سے بہت زیادہ نقاہت محسوس ہونے لگی تھی اور یوں چلنے پھرنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔میرا ایک گھریلو معاون مجھے وہیل چیئر پر گھر میں ادھر سے ادھر لے جاتا اور میں ان سہولتوں پر مسلسل اللہ کا شکر ادا کرتا رہا ۔میرے والد نے اپنی سفید پوشی کے دوران میری اور میں نے اپنی سفید پوشی کے دوران اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلائی، میں عمر کا زیادہ حصہ کرائے کے گھروں میں رہا بالآخر مجھے اپنی چھت نصیب ہوئی۔ میرے زمانے میں سب کے پاس سردیوں کا پراپر لباس اور دوسرے پہناوے نہیں ہوتے تھے ،میں بھی ان سے محروم تھا مگر اب جب میں آج کی بد حواس قسم کی سردی میں نرم وگداز بستر پر رضائی اور اس پر کمبل ڈال کر سوتا ہوں تو باقی بیان کردہ نعمتوں کے علاوہ اس سہولت کیلئے میں اللہ کا شکر ادا کرتاہوں ۔گھر سے باہر نکلتے ہوئے بھی میں نے خود کو گرم کپڑوں میں لپیٹا ہوتا ہے میرے پاس آفس جانے کیلئے اپنی سواری ہے اور یوں مجھے گرمی سردی میں بس اسٹاپوں پر کھڑا نہیں ہوتا پڑتا، میں دوست احباب ،عزیزوں رشتہ داروں کی خوشی غمی میں شریک ہوتا ہوں اور ایسے مواقع پر لین دین کے حوالے سے جو رسم ورواج ہوتے ہیں اپنی حیثیت کے........

© Daily Jang


Get it on Google Play