ریاست انسان کی تخلیق کا اعلیٰ ترین مظہر ہے۔لیکن انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ریاست اور اس میں بسنے والے عوام کے درمیان رشتے کو استوار کرنے میں کئی قوتیں حائل ہوتی ہیں اور صرف وہی سماج کسی نہج پر پہنچتا ہے جو ان قوتوں کے خلاف مسلسل مزاحمت کرتا ہے اور برسر پیکار رہتا ہے۔ غالبؔ نے اسی مزاحمت کے بارےمیں کیا خوب کہا ہے کہ!

دام ہر موج میں ہے حلقہ صدکام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

غالب کہتے ہیں کہ جو قطرہ سیپی کے منہ میں چلا جاتا ہے ، موتی بن جاتا ہے لیکن ہر موج میں سینکڑوں مگر مچھ موجود ہوتے ہیں جو قطرے کو موتی نہیں بننے دیتے۔پاکستان اپنی76سالہ سیاسی تاریخ میں انہی مگر مچھوں سے نبرد آزما ہے اور یہ کہ ہمارا سماج نہ صرف ان قوتوں پر قابو پا نہ سکا بلکہ رفتہ رفتہ یہ قوتیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں ، دوسری طرف یورپین معاشروں کے ارتقا نے یہ سبق دیا ہے کہ قطرے کو موتی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ آئین، جمہوریت اور سیاست مسلسل ارتقا پذیر ہوتے رہیں تو ہی ایک فلاحی ریاست وجود میں آسکتی ہے۔

پاکستان اس رجحان کے برخلاف مسلسل سیاسی تنزلی کا شکار رہا ہے۔ اس سیاسی انحطاط کے عمل میں دوسرے اداروں کے ساتھ ساتھ عدلیہ نے بھی کئی بار ملک کے’’عظیم ترمفادات ‘‘کی خاطر جمہوریت ، آئین اور قانون کے تقدس سے انحراف کیا ۔ آئین ہر ملک کا بنیادی قانون ہوتا ہے جس سے دیگر باتوں کے علاوہ سیاسی ڈھانچہ بھی واضح کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں کئی دفعہ آئینی ضوابط کو نظر انداز کرکے فوجی حکومتیں نافذ کی گئیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی تاریخ میں مارشل لا اور آئین کی بیک وقت موجودگی نے بھی سیاسی ماحول کو پنپنے سے مسلسل روکے رکھا۔ 1953ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کر دیا اور اسکے کچھ عرصے بعد دستور ساز اسمبلی کوہی تحلیل کر دیا ۔حالانکہ اس وقت یہ دستور ساز اسمبلی 1954کے آئین کو تقریباً مکمل کر چکی تھی۔ سیاست کو اسی طرح پٹڑی سے اتارا جاتا رہا اور آخر کار 1958میں ایوب خان نے مارشل لا نافذکر دیا ۔ ان تمام مراحل پر گورنر جنرل اور ایوب خان کو عدلیہ کی پشت پناہی حاصل رہی۔5جولائی 1977ء کو ضیا الحق نے مارشل لا کا نفاذ کیا جس کو بیگم نصرت بھٹو نے غیر قانونی قرار دینے کیلئے 10نومبر 1977ء کو سپریم کورٹ میں اپیل کی جس میں چیف جسٹس انوار الحق نے اس موقف کو رد کر دیا اور نظریہ ضرورت کے تحت فوجی حکومت کو جائز قرار دیا ۔ اس کیس کے دوران وفاق کے وکیل اے۔ کے۔ بروہی نے کہا کہ موجودہ تبدیلی ایک کامیاب انقلاب ہے اور محض اسی بنا پر کیلسن کے نظریہِ ضرورت کے تحت اسے جائز قرار دیا جائے۔اس کے بعد پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد اپنی سیاسی پارٹی بنا لی اور یوں پچھلے کچھ عرصے میں بننے والی سیاسی روایات کو شدید دھچکا پہنچایا۔ موجودہ دور میں سیاسی تنزلی کا آغاز 2011ء سے ہوا جب اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے سر پر ہاتھ رکھا اور 2018ء میں عدلیہ کی مدد سے نواز شریف کی حکومت کو برطرف کرتے ہوئے ان پر مقدمات بنوا دیے گئے۔ عمران خان صرف ساڑھے تین سال ہی انکی خواہشات پر پورا اترسکا اور اب ایک بار پھرمقتدرہ نواز شریف کو اقتدار میں لانا چاہتی ہے جس کیلئے ایک سازگار ماحول کا چل چلائو ہے ۔ تحریک انصاف کے تمام بڑے لیڈران کو گرفت کر لیا گیا ہے یا ان سے پریس کانفرنسیں کروالی گئی ہیں۔ تحریک انصاف کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکتے ہوئے ان سے انتخابی نشان واپس لے لیا گیا جس سے انتخابی عمل مکمل طور پر متنازع ہو گیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑی سیاسی پارٹیوں میں ضابطے اور قانون کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشنز نہیں ہوتے اور پارٹی سربراہ کے کہنے پر ہی عہدوں کی بندر بانٹ اور سینٹرل کمیٹی کی تشکیل کی جاتی ہے۔ لیکن الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن 207کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس ایسا کوئی قانونی جواز نہیں ہے کہ وہ کسی پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن کی ہیئت کے بارے میں کوئی فیصلہ دے۔سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں ایسے کسی قانونی جواز کا حوالہ نہیں دیا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس کیس کا فیصلہ دیتے ہوئے نہ تو سیاسی پارٹیوںکے بنیادی حقوق پر بات کی ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ کے پرانے فیصلوں پر، جن میں’’بے نظیر انتخابی نشان‘‘ 1989اور اسی طرح کے دوسرے کیسز کا حوالہ دیا ۔ اس سے پہلے 1989میں بارہ ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے’’بے نظیر انتخابی نشان‘‘کے مقدمے میں انتخابی نشان کو پارٹیوںکی روح قرار دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 17کے مطابق انتخابی نشان ووٹر کو اسکی شناخت مہیا کرتا ہے اور انہی مقدمات کی نظیر کو سامنے رکھتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ نے 12جنوری 2024ء کو الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد کو کوئی اہمیت نہیں دی لیکن اسکی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے جو اپنی ضروریات کے مطابق ہیروز اور کلٹس کی نشوو نما کرتے ہیں او رجب یہ ہیروز قانون اور ضابطوں سے اپنے آپ کو بالا تر سمجھنے لگتے ہیں تو ان پر پابندیاں لگواتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان جیسے سماج میں جہاں سیاسی روایتوں کو پروان چڑھنے میں بہت عرصہ درکار ہے، وہاں الیکشن کمیشن ان بے ضابطگیوں کی نشان دہی کرتا اور 2024ء کے الیکشن کیلئے انہیں بلے کا نشان دیتے ہوئے تحریک انصاف کو الیکشن کے بعد انٹرا پارٹی الیکشن کروانے پر مجبور کرتا۔لیکن انتخابات کے اتنے قریب آنے کے بعد ایک بڑی سیاسی جماعت کو اس طرح انتخابی نشان سے محروم کرنے سے نہ صرف جمہوری عمل کو مزید تنزلی کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ ریاست اور عوام کے درمیان رشتہ استوار کرنے کی جستجو مزید ماند پڑ جائے گی اور غالبؔ کا یہ خیال شرمندہ تعبیر نہ رہے گا کہ کاش یہ قطرے کبھی موتی بن سکیں!

سیکیورٹی معاون کا مزید کہنا تھا کہ سیستان بلوچستان میں عدم تحفظ پیدا کرنے والوں کے خلاف فیصلہ کُن اقدامات کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کا مقابلہ کسی جماعت سے نہیں اپنی ہی ماضی کی کارکردگی سے ہے، منشور میں ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا ہے تو ن لیگ کا ماضی گواہ ہے۔

پنجاب بھر کے ڈرگ انسپکٹرز کو ان سیرپ کو قبضے میں لینے کی ہدایت کردی گئی ہے۔

ثمر بلور نے کہا کہ یہ لوگ کس منہ سے یہاں آکر ووٹ مانگیں گے۔

بالی ووڈ کے باصلاحیت اداکار کارتک آریان کی زندگی کا نیا رخ مداحوں کے سامنے آگیا۔

انڈر 19 کرکٹ ورلڈ کپ کے گروپ بی کے مقابلے میں جنوبی افریقا نے اسکاٹ لینڈ کو 7 وکٹ سے ہرا دیا۔

ان مقابلوں میں ملک بھر سے تن سازوں نے اپنی مہارت کا شاندار مظاہرہ کیا۔

گوجرانوالا کے حامد اور قصور کی زارا پولیس کے محکمے میں ہیں۔

وہ ہمارے مرشد ہیں ہمیں، مار سکتے ہیں، ڈانٹ بھی سکتے ہیں، شاگرد نوید حسنین

نگراں وفاقی وزیر نے کہا کہ وطن عزیز میں ہر سال 75 ہزار آئی ٹی گریجویٹس فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔

فضل الرحمان نے کہا کہ معیشت تباہ کرنے والے نے جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ کیا۔

دانیال عزیز نے الزام لگایا ہے کہ ان کے حامیوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔

بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ میاں صاحب کراچی کے این آئی سی وی ڈی کے باہر مباحثہ کر لیں۔

گورننگ بورڈ میں آزاد جموں و کشمیر اور ڈیرہ مراد جمالی کو بھی نمائندگی دی گئی ہے۔

اب اس حلقے میں تھانے کچہری اور كمیشن کی سیاست نہیں ہوگی، این اے97 میں اب تبدیلی آگئی ہے، صرف عوام کی خدمت ہوگی، ہمایوں اختر

QOSHE - ایوب ملک - ایوب ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایوب ملک

8 0
28.01.2024

ریاست انسان کی تخلیق کا اعلیٰ ترین مظہر ہے۔لیکن انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ریاست اور اس میں بسنے والے عوام کے درمیان رشتے کو استوار کرنے میں کئی قوتیں حائل ہوتی ہیں اور صرف وہی سماج کسی نہج پر پہنچتا ہے جو ان قوتوں کے خلاف مسلسل مزاحمت کرتا ہے اور برسر پیکار رہتا ہے۔ غالبؔ نے اسی مزاحمت کے بارےمیں کیا خوب کہا ہے کہ!

دام ہر موج میں ہے حلقہ صدکام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

غالب کہتے ہیں کہ جو قطرہ سیپی کے منہ میں چلا جاتا ہے ، موتی بن جاتا ہے لیکن ہر موج میں سینکڑوں مگر مچھ موجود ہوتے ہیں جو قطرے کو موتی نہیں بننے دیتے۔پاکستان اپنی76سالہ سیاسی تاریخ میں انہی مگر مچھوں سے نبرد آزما ہے اور یہ کہ ہمارا سماج نہ صرف ان قوتوں پر قابو پا نہ سکا بلکہ رفتہ رفتہ یہ قوتیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں ، دوسری طرف یورپین معاشروں کے ارتقا نے یہ سبق دیا ہے کہ قطرے کو موتی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ آئین، جمہوریت اور سیاست مسلسل ارتقا پذیر ہوتے رہیں تو ہی ایک فلاحی ریاست وجود میں آسکتی ہے۔

پاکستان اس رجحان کے برخلاف مسلسل سیاسی تنزلی کا شکار رہا ہے۔ اس سیاسی انحطاط کے عمل میں دوسرے اداروں کے ساتھ ساتھ عدلیہ نے بھی کئی بار ملک کے’’عظیم ترمفادات ‘‘کی خاطر جمہوریت ، آئین اور قانون کے تقدس سے انحراف کیا ۔ آئین ہر ملک کا بنیادی قانون ہوتا ہے جس سے دیگر باتوں کے علاوہ سیاسی ڈھانچہ بھی واضح کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں کئی دفعہ آئینی ضوابط کو نظر انداز کرکے فوجی حکومتیں نافذ کی گئیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی تاریخ میں مارشل لا اور آئین کی بیک وقت موجودگی نے بھی سیاسی ماحول کو پنپنے سے مسلسل روکے رکھا۔ 1953ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کر دیا اور اسکے کچھ عرصے بعد دستور ساز........

© Daily Jang


Get it on Google Play