ہمارے ہاں بعض افراد 8فروری 2024ء کو ہورہے عام انتخابات کا موازنہ 7دسمبر1970ء کو ہونے والے عام انتخابات سے کر رہے ہیں تو سوچا کیوں نہ آج یہ مغالطہ دور کرنے کی کوشش کی جائے۔تقسیم ہندوستان کے بعدفیصلہ ہوا کہ جب تک دونوں ملک یعنی پاکستان اور بھارت اپنااپنا آئین نہیں بنالیتے تب تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ہی معاملات کو چلایا جائے گا۔بھارت نے تو پہلی فرصت میں یہ مرحلہ طے کرلیا اور 1951ء میں وہاں پہلے عام انتخابات بھی ہوگئے مگر پاکستان میں سانپ سیڑھی کا کھیل چلتا رہا۔1956ء کا آئین منظور ہوا ،سکندر مرزا گورنر جنرل کا عہدہ متروک ہوجانے کے بعد صدر پاکستان بن گئے اور طے پایا کہ نومبر 1958ء میں پہلے عام انتخابات ہوں گے۔بعد ازاں عام انتخابات کی تاریخ تبدیل ہوگئی اور انہیں فروری 1959ء تک ملتوی کردیا گیا۔دِقت یہ تھی کہ اس آئین کے تحت کوئی شخص منصب صدارت پر براجمان رہتے ہوئے صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا تھا یعنی صدر اسکندر مرزا کو دوبارہ صدر بننے کیلئے استعفیٰ دینا پڑتا اوراس بات کا احتمال تھا کہ وہ دوبارہ صدر منتخب نہ ہوپاتے۔چنانچہ کرسی کی لالچ میں وہ جنرل ایوب کے ہاتھوں استعمال ہوئے اور 8اکتوبر1958ء کو پاکستان بھر میں پہلا مارشل لاء لگا کر جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی ۔بعد ازاں ایوب خان نے تین جرنیلوں کو بھیج کر کس طرح صدر میجر جنرل سکندر مرزا سے گن پوائنٹ پر استعفیٰ لیا ،یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔پہلے فوجی حکمران نے اپنا آئین متعارف کروایا۔مئی 1962ء میں انتخابات تو ہوئے مگر انہیں عام انتخابات نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس میں سب کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں تھی صرف بی ڈی ممبر ہی حق رائے دہی استعمال کرسکتے تھے۔ایوب خان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو وہ اپنے بنائے آئین کے مطابق اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کے سپرد کرنے کے بجائے ملک کی زمام کار ایک تازہ دم فوجی ڈکٹیٹر کے حوالے کرکے رخصت ہوگئے۔دوسرے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے عام انتخابات کروانے کا اعلان کردیا۔28نومبر 1969ء کو جنرل یحییٰ خان نے یہ خوشخبری سنائی کہ 5اکتوبر 1970ء کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے عام انتخابات منعقد ہوں گے۔یکم جنوری 1970ء کو سیاسی سرگرمیو ں کی اجازت دیدی گئی۔الیکشن شیڈول تبدیل ہوا تو طے پایا کہ عام انتخابات اب 7دسمبر1970ء کو ہوں گے۔چنانچہ پاکستان میں طویل ترین انتخابی مہم کا آغاز ہوا ۔تقریباً ایک سال تک تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور کا پرچار کرنے اور عوام کو قائل کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا گیا۔یہاں تک کہ شیخ مجیب اورمولانا بھاشانی سمیت تمام سیاسی رہنمائوں کو پی ٹی وی اور ریڈیو پر عوام سے مخاطب ہونے اور اپنا پیغام پہنچانے کی اجازت دی گئی ۔معروف بیورو کریٹ روئیداد خان جنہیں یحٰیی خان کے دور میں پہلے پی ٹی وی کا منیجنگ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا اور پھر سیکریٹری انفارمیشن بنادیا گیا۔انہیں کہا گیا تھا کہ تمام سیاسی رہنمائوں کو بلا امتیاز قومی ٹی وی پر آکر اپنا منشور بیان کرنے کا موقع دیں ۔28 ا کتو بر 1970سے پولیٹیکل براڈکاسٹ کا سلسلہ شروع ہوا تو سب سے پہلے شیخ مجیب کو موقع دیا گیا۔روئیداد خان اپنی کتاب ’’Pakistan a Dream Gone Sour‘‘کے صفحہ نمبر 55اور56پر لکھتے ہیں کہ میںنے شیخ مجیب سے دھان منڈی میں ان کی رہائش پر ملاقات کی۔ان کی تقریر کے مسودے میں بنگلہ دیش کا حوالہ شامل تھا ،میں نے گزارش کی کہ اسے حذف کردیں کیونکہ یہ لیگل فریم ورک آرڈر کی گائڈ لائنز کے خلاف ہے۔وہ اسے حذف کرنے پر تیار نہ ہوئے۔میں نے تجویز دی کہ بنگلہ دیش کے لفظ کو مشرقی پاکستان سے بدل دیں یہ بات بھی انہیں قبول نہ تھی۔انہوں نے دھمکی دی کہ اگر حکومت نے لفظ بنگلہ دیش حذف کرنے پر اصرار کیا تو وہ ریڈیو اور پی ٹی وی پر تقریر نہیں کریں گے۔آخر کار راولپنڈی حکام نے انہیں اپنی مرضی سے تقریر کرنے کی اجازت دیدی۔اگرچہ میجر جنرل غلام عمر اور میجرجنرل رائو فرمان علی نے سیاسی بندوبست کے تحت مشرقی اور مغربی پاکستان میں اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کو منظم کرکے اور انہیں فنڈز مہیا کرکے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن کسی سیاسی جماعت کو دبانے کی کوشش نہ کی گئی۔سب کیلئےیکساں لیول پلیئنگ فیلڈ دستیاب ہو،اس بات کو یقینی بنایا گیا۔ نہ کسی سے نامزدگی فارم چھینے گئے ،نہ کسی امیدوارکے تائید کنندہ اور تجویز کنندہ کو اغوا کرنے کی شکایات سامنے آئیں اور نہ ہی بڑی تعداد میں کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ ان انتخابات کو پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین اور منصفانہ انتخابات قرار دیا جاتا ہے۔

البتہ خفیہ اداروں کے تخمینے غلط ثابت ہوئے شجاع نواز اپنی تصنیف ’’کراسڈ سوارڈز ‘‘کے صفحہ نمبر 260پر لکھتے ہیں کہ انتخابی فوائد سمیٹنے کیلئےگھڑ سوار ی کا سلسلہ جاری تھا مگر ملٹری انٹیلی جنس کے تخمینے کے مطابق مشرقی پاکستان کی 167نشستوں میں سے عوامی لیگ زیادہ سے زیادہ 46-70سیٹیں جیت سکتی تھی ۔اسی طرح مغربی پاکستان کی 144نشستوں میں سے پیپلز پارٹی کو زیادہ سے زیادہ 20-30نشستیں دی گئیں۔خفیہ اداروں کے ان تخمینوں پر انحصار کرتے ہوئے حکمران جنتا کا خیال تھا کہ منقسم پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جسے باآسانی چلایا جا سکے گا۔ ڈھاکہ میں 14thڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل خادم راجہ اپنی خود نوشت ’’A Stranger in my own country‘‘کے صفحہ نمبر 14پر لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی صورتحال سے متعلق بات چیت کے دوران میں نے میجر جنرل غلام عمر کو بہت دو ٹوک انداز میں بتادیا کہ میرے تخمینے کے مطابق شیخ مجیب مشرقی پاکستان سے سویپ کرے گا اور 75فیصد نشستیں جیت لے گا۔میجر جنرل غلام عمر نے میری باتوں کا یقین نہ کیا کیونکہ میرا تجزیہ نہ صرف ان کی اپنی رائے کے برعکس تھا بلکہ ان کو رپورٹ کرنے والی ایجنسیوں کی رائے کے بھی خلاف تھا۔میں نے 1970ء کے حالات بیان کردیئے ہیں ان کا موجودہ حالات سے موازنہ کرکے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کیا تب اور اب میں کسی قسم کی کوئی مطابقت ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اسلام آباد پہنچ گئے، وہ اپنے دورے میں وزیر اعظم اور وزیر خا رجہ جلیل عباس جیلانی سے بھی ملاقات کریں گے۔

امریکی شہر سان فرانسسکو میں خالصتان کیلئے ووٹنگ کا آغاز ہوگیا ہے، امریکا بھر سے ہزاروں سکھ ووٹنگ میں شرکت کررہے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کو رہا کردیا گیا۔

امریکا یمن کے حوثی باغیوں کے حملوں سے نمٹنے کیلئے پاکستان سے تعاون کا خواہشمند ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم ) پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنوینر مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اعلان کرے کہ وہ ہمارے پاس ووٹوں کی بھیک مانگنے نہیں آئے گی۔

پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے کہا ہے کہ سلیکشن سے اقتدار میں آنے کی روایت اب ختم ہونی چاہیے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور امیدوار این اے 127 لاہور عطا تارڑ نے کہا ہے کہ نواز شریف کا ادنی کارکن بھی بلاول بھٹو زرداری کو شکست دے سکتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ اس مرتبہ وزیراعلی علی امین گنڈاپور بنے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان نے کہا ہے کہ چھانگا مانگا ہارس ٹریڈنگ مسلم لیگ ن کی شناخت ہے ۔

اردن میں امریکی فوجی اڈے پر ہونے والے ڈرون حملے میں 3 امریکی فوجی ہلاک ہوگئے۔

پاکستان کو اپنے دوسرے میچ میں ہالینڈ کے خلاف غضنفر علی نے 5 ویں منٹ میں برتری دلا دی۔

عالمی شہرت یافتہ گلو کار راحت فتح علی خان نے خفیہ ریکارڈنگ اور ویڈیو لیک کا الزام اپنے سابق پروموٹر سلمان احمد پر لگا دیا۔

ویسٹ انڈین بولر شیمر جوزف کی تباہ کن بولنگ نے آسٹریلیا کیلئے 216 رنز کا ہدف ناممکن بنا دیا۔

آئی سی سی نے معطلی کے بعد صورتحال کا جائزہ لینے پر پابندی ہٹانے کا فیصلہ کیا۔

علی امین گنڈاپور نے یہ بھی کہا کہ شیر افضل ہمارے مہمان ہیں، کارکن بھرپور استقبال کریں، 8 فروری کو انشاءاللّٰہ تحریک انصاف کی جیت ہوگی۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ آزاد امیدواروں کا خریدار آصف علی زرداری ہے۔

QOSHE - محمد بلال غوری - محمد بلال غوری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد بلال غوری

24 1
29.01.2024

ہمارے ہاں بعض افراد 8فروری 2024ء کو ہورہے عام انتخابات کا موازنہ 7دسمبر1970ء کو ہونے والے عام انتخابات سے کر رہے ہیں تو سوچا کیوں نہ آج یہ مغالطہ دور کرنے کی کوشش کی جائے۔تقسیم ہندوستان کے بعدفیصلہ ہوا کہ جب تک دونوں ملک یعنی پاکستان اور بھارت اپنااپنا آئین نہیں بنالیتے تب تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ہی معاملات کو چلایا جائے گا۔بھارت نے تو پہلی فرصت میں یہ مرحلہ طے کرلیا اور 1951ء میں وہاں پہلے عام انتخابات بھی ہوگئے مگر پاکستان میں سانپ سیڑھی کا کھیل چلتا رہا۔1956ء کا آئین منظور ہوا ،سکندر مرزا گورنر جنرل کا عہدہ متروک ہوجانے کے بعد صدر پاکستان بن گئے اور طے پایا کہ نومبر 1958ء میں پہلے عام انتخابات ہوں گے۔بعد ازاں عام انتخابات کی تاریخ تبدیل ہوگئی اور انہیں فروری 1959ء تک ملتوی کردیا گیا۔دِقت یہ تھی کہ اس آئین کے تحت کوئی شخص منصب صدارت پر براجمان رہتے ہوئے صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا تھا یعنی صدر اسکندر مرزا کو دوبارہ صدر بننے کیلئے استعفیٰ دینا پڑتا اوراس بات کا احتمال تھا کہ وہ دوبارہ صدر منتخب نہ ہوپاتے۔چنانچہ کرسی کی لالچ میں وہ جنرل ایوب کے ہاتھوں استعمال ہوئے اور 8اکتوبر1958ء کو پاکستان بھر میں پہلا مارشل لاء لگا کر جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی ۔بعد ازاں ایوب خان نے تین جرنیلوں کو بھیج کر کس طرح صدر میجر جنرل سکندر مرزا سے گن پوائنٹ پر استعفیٰ لیا ،یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔پہلے فوجی حکمران نے اپنا آئین متعارف کروایا۔مئی 1962ء میں انتخابات تو ہوئے مگر انہیں عام انتخابات نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس میں سب کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں تھی صرف بی ڈی ممبر ہی حق رائے دہی استعمال کرسکتے تھے۔ایوب خان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو وہ اپنے بنائے آئین کے مطابق اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کے سپرد کرنے کے بجائے ملک کی زمام کار ایک تازہ دم فوجی ڈکٹیٹر کے حوالے کرکے رخصت ہوگئے۔دوسرے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے عام انتخابات کروانے کا اعلان کردیا۔28نومبر 1969ء........

© Daily Jang


Get it on Google Play