عمران خان نے مطالبہ کیا ہے کہ 9مئی کے واقعہ میں توڑ پھوڑ، ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کو CCTVکیمروں کے ذریعے شناخت کیا جائے اور گرفتار کر کے ان کے خلاف اسی انداز میں کارروائی کی جائے جیسے امریکی پارلیمنٹ ہاؤس کیپیٹل ہل پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کی گئی تھی۔دوسری طرف عمران خان نے اس خدشہ کے پیش نظر کہ تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ الیکشن جیتنے کی صورت میں وہ کسی دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں گے، پی-ٹی-آئی کی قیادت کو ہدائت کی ہے کہ پارٹی امیدواروں کو پی-ٹی-آئی سے وابستہ رکھنے کے لئے ان سے قرآن پر حلف لے کر وڈیو ریکارڈنگز محفوظ کر لی جائیں۔عمران خان کی طرف سے یہ پہلی بار نہیں ہوا جب انہوں نے جیلوں میں قید نوجوانوں اوراپنے ان شیدائیوں کو جنہوں نے اپنی زندگیاں اور مستقبل اپنے اس لیڈر پر قربان کر دئیے جس نے کبھی اپنے شیدائیوں پر بھی اعتبار نہیں کیااورخود کو بے گناہ اور معصوم ظاہر کرنے کے لئے بظاہران سے کنارہ کشی اختیار کر لی اورانہیں تنہا چھوڑ دیا۔عمران خان اس سے زیادہ سنگین ردعمل کا اظہار اس لئے نہیں کرسکتے تھے اور انہوں نے اپنے امیدواروں اور کارکنوں پر عدم اعتماد اس لئے کیا وہ خود کو جیل میں بے بس، مجبور اور بے اختیار سمجھتے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی ان وکیلوں کے قبضے میں ہے جو خود آپس میں بھی سنگین اختلافات کا شکار ہیں اور پارٹی کی بجائے اپنے اپنے منشور پر عمل پیرا ہیں اوراس حوالے سے پارٹی قائد سے مشاورت کرنا بھی گوارا نہیں کرتے نتیجتاً پارٹی کی عارضی قیادت کی پراسرار حکمت عملی کی وجہ سے پارٹی شکست و ریخت کا شکار ہے کیونکہ عارضی قیادت اپنی پالیسیوں کی وجہ سے پارٹی کارکنوں کو غلام سمجھتی ہے جس کی وجہ سے ان کے قرب سے محروم ہے۔اگرچہ یہ تاثر عام ہے کہ وقت کے ساتھ اپنی ہمدردیاں اور سوچ تبدیل کرنے والے مخصوص سوچ کے حامل لوگ اس امید پر عمران خان کے ساتھ کسی نہ کسی انداز میں کھڑے رہے کہ شائد کوئی معجزہ رونما ہو اور اچانک سیاسی منظر تبدیل ہو جائے، تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے کا خواہش ظاہر کی تو عارضی وکلا قیادت نے اپنی اپنی پسند کے لوگوں کو ٹکٹ بانٹے لیکن شومئی قسمت کہ اچانک منظر بدلا اور پارٹی اپنے اصل نشان بلے سے محروم ہو گئی اور الیکشن کمیشن نے پارٹی کا نشان دینے کی بجائے پی-ٹی-آئی کے ہر امیدوار کو انفرادی نشانات جاری کردئیے۔اب "خدا ہی ملا نہ وصال صنم"والی صورت حال پیدا ہوگئی لیکن انتخابات میں حصہ لینا ان کی مجبوری بن گئی کیونکہ انہوں پانچ پانچ کروڑ روپے کی بھاری قیمت ادا کرکے ٹکٹ خریدے تھے اور ہر قیمت پر اپنی رقم کی واپسی چاہتے تھے لہٰذا انہوں آزاد حیثیت میں علیحدہ علیحدہ انتخابی نشانات کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے میں ہی عافیت جانی۔ تحریک انصاف کی ماضی میں قائم کی گئی روایات کے تناظر میں تمام تر سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ تحریک انصاف کی سیاست کی بنیاد امن پر نہیں بلکہ تشدد پر استوار ہے اور تشدد کا عنصر غیر اعلانیہ طور پر ان کے منشور کا عملی جزو ہے۔پرتشدد رویہ، گالی کی سیاست اور عدم برداشت نوجوان نسل کی سیاسی تربیت کی بنیاد تصور کی جاتی ہے۔ فوج میں تقسیم پیدا کرنے کی خواہش پر مبنی عمران خان نے اپنی گمراہ کن اور منفی سوچ کی بنیاد پر ایک بار پھر اڈیالہ جیل سے شوشہ چھوڑا ہے کہ فوج کی 60 فیصد تعداد تحریک انصاف کی حامی ہے، بالفاظ دیگر فوج کی اکثریت عمران خان کے شرپسندی، بغاوت، سول نافرمانی، اور ریاست اور فوج سمیت دوسرے ریاستی اداروں سے ٹکراؤ کی نفرت انگیز پالیسی کے کمزور سیاسی ڈھانچہ کو درست قراردیا ہے؟کیا عمران خان کا یہ دعویٰ قابل قبول ہو سکتا ہے؟تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ تشدد کی یہ پالیسی انتخابات کے دوران اور اس سے قبل دکھائی دے گی جب تحریک انصاف کے گمراہ پیروکار اپنے سیاسی مخالفین کی سرعام تضحیک کریں گے،ان کے گھروں پر حملے کریں گے، آگ لگائیں گے، پولنگ دفاتر پر قبضے ہوں گے، ناپسندیدہ پولیس، الیکشن کمیشن اور سرکاری عمارتوں پر حملے ہوں گے لیکن حسب معمول ان شرپسندوں کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کرنے کی بجائے کہیں سے مذمتی بیان کے بعد سوشل میڈیا پر "لیول پلینگ فیلڈ" کا شور اٹھے گا اور حکومت کی جانب سے معذرت خواہانہ خاموشی سے ریاست دشمنوں کے حوصلے بلند ہوں گے اور تحریک انصاف کسی خوف اور رکاوٹ کے بغیر اپنی پرانی روش پر چل پڑے گی۔

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اسلام آباد پہنچ گئے، وہ اپنے دورے میں وزیر اعظم اور وزیر خا رجہ جلیل عباس جیلانی سے بھی ملاقات کریں گے۔

امریکی شہر سان فرانسسکو میں خالصتان کیلئے ووٹنگ کا آغاز ہوگیا ہے، امریکا بھر سے ہزاروں سکھ ووٹنگ میں شرکت کررہے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کو رہا کردیا گیا۔

امریکا یمن کے حوثی باغیوں کے حملوں سے نمٹنے کیلئے پاکستان سے تعاون کا خواہشمند ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم ) پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنوینر مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اعلان کرے کہ وہ ہمارے پاس ووٹوں کی بھیک مانگنے نہیں آئے گی۔

پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے کہا ہے کہ سلیکشن سے اقتدار میں آنے کی روایت اب ختم ہونی چاہیے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور امیدوار این اے 127 لاہور عطا تارڑ نے کہا ہے کہ نواز شریف کا ادنی کارکن بھی بلاول بھٹو زرداری کو شکست دے سکتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ اس مرتبہ وزیراعلی علی امین گنڈاپور بنے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان نے کہا ہے کہ چھانگا مانگا ہارس ٹریڈنگ مسلم لیگ ن کی شناخت ہے ۔

اردن میں امریکی فوجی اڈے پر ہونے والے ڈرون حملے میں 3 امریکی فوجی ہلاک ہوگئے۔

پاکستان کو اپنے دوسرے میچ میں ہالینڈ کے خلاف غضنفر علی نے 5 ویں منٹ میں برتری دلا دی۔

عالمی شہرت یافتہ گلو کار راحت فتح علی خان نے خفیہ ریکارڈنگ اور ویڈیو لیک کا الزام اپنے سابق پروموٹر سلمان احمد پر لگا دیا۔

ویسٹ انڈین بولر شیمر جوزف کی تباہ کن بولنگ نے آسٹریلیا کیلئے 216 رنز کا ہدف ناممکن بنا دیا۔

آئی سی سی نے معطلی کے بعد صورتحال کا جائزہ لینے پر پابندی ہٹانے کا فیصلہ کیا۔

علی امین گنڈاپور نے یہ بھی کہا کہ شیر افضل ہمارے مہمان ہیں، کارکن بھرپور استقبال کریں، 8 فروری کو انشاءاللّٰہ تحریک انصاف کی جیت ہوگی۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ آزاد امیدواروں کا خریدار آصف علی زرداری ہے۔

QOSHE - شکیل انجم - شکیل انجم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

شکیل انجم

21 5
29.01.2024

عمران خان نے مطالبہ کیا ہے کہ 9مئی کے واقعہ میں توڑ پھوڑ، ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کو CCTVکیمروں کے ذریعے شناخت کیا جائے اور گرفتار کر کے ان کے خلاف اسی انداز میں کارروائی کی جائے جیسے امریکی پارلیمنٹ ہاؤس کیپیٹل ہل پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کی گئی تھی۔دوسری طرف عمران خان نے اس خدشہ کے پیش نظر کہ تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ الیکشن جیتنے کی صورت میں وہ کسی دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں گے، پی-ٹی-آئی کی قیادت کو ہدائت کی ہے کہ پارٹی امیدواروں کو پی-ٹی-آئی سے وابستہ رکھنے کے لئے ان سے قرآن پر حلف لے کر وڈیو ریکارڈنگز محفوظ کر لی جائیں۔عمران خان کی طرف سے یہ پہلی بار نہیں ہوا جب انہوں نے جیلوں میں قید نوجوانوں اوراپنے ان شیدائیوں کو جنہوں نے اپنی زندگیاں اور مستقبل اپنے اس لیڈر پر قربان کر دئیے جس نے کبھی اپنے شیدائیوں پر بھی اعتبار نہیں کیااورخود کو بے گناہ اور معصوم ظاہر کرنے کے لئے بظاہران سے کنارہ کشی اختیار کر لی اورانہیں تنہا چھوڑ دیا۔عمران خان اس سے زیادہ سنگین ردعمل کا اظہار اس لئے نہیں کرسکتے تھے اور انہوں نے اپنے امیدواروں اور کارکنوں پر عدم اعتماد اس لئے کیا وہ خود کو جیل میں بے بس، مجبور اور بے اختیار سمجھتے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی ان وکیلوں کے قبضے میں ہے جو خود آپس میں بھی سنگین اختلافات کا شکار ہیں اور پارٹی کی بجائے اپنے اپنے منشور پر عمل پیرا ہیں اوراس حوالے سے پارٹی قائد سے مشاورت کرنا بھی گوارا نہیں کرتے نتیجتاً پارٹی کی عارضی قیادت کی پراسرار حکمت عملی کی وجہ سے........

© Daily Jang


Get it on Google Play