احتساب عدالت کے جج بشیر نے نیب کے مقدمہ میں سال 2018 میں نواز شریف اور اُنکی بیٹی مریم نواز کو ایون فیلڈ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوے دس سال اور سات سال کی قید بامشقت کی سزا دی۔ اُس موقع پر عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماوں اور ووٹروں، سپوٹروں نے خوشیاں منائیں، مٹھائیاں تقسیم کیں اور اسے انصاف اور احتساب کے نام پر سراہا اور اس فیصلہ کا ہر جگہ دفاع کیا۔ آج تقریباً کوئی پانچ چھ سال کے بعد اُسی احتساب عدالت کے اُسی جج بشیر نے اُسی نیب کے توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور اُنکی اہلیہ کو 14,14سال کی قید بامشقت اور کوئی ڈیڑھ ارب کے جرمانے کی سزا سنا دی۔ آج تحریک انصاف جج بشیر کے فیصلہ کو انصاف کا قتل قرار دے رہی ہے جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مٹھائیاں تو نہیں بانٹیں لیکن دونوں سیاسی جماعتیں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف فیصلہ کو انصاف کی عملداری کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ یاد رہے کہ انہی جج بشیر کی اسی عدالت کے سامنے اسی نیب کا توشہ خانہ ریفرنس کا مقدمہ نواز شریف، آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف درج ہے۔نواز ، زرداری اور گیلانی کے خلاف نیب نے توشہ خانہ ریفرنس چند سال پہلے دائر کیا تھا۔ عمران خان اور اُنکی اہلیہ کے خلاف توشہ خانہ کا کیس چند ماہ پہلے جج بشیر کی عدالت کے سامنے دائر کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کا کیس چند ماہ پہلے دائر ہوا، اُس کا نیب نے خوب پیچھا کیا اور آج جج بشیر کی عدالت نےاس مقدمہ میں فیصلہ بھی سنا دیا۔ جو توشہ خانہ کیس جج بشیر کی عدالت کے سامنے بہت پہلے دائر کیا گیا تھا وہ کہاں گم ہے، اُسکے حوالے سے نیب کیوں سویا ہوا ہے اور اُس کیس میں جج بشیر کیوں روزانہ کی بنیاد پر مقدمہ نہیں چلا رہے۔ جج بشیر کو ایک فرد کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ یہ ایک ایسے نظام کانام ہے جس نے احتساب کے نام پر گزشتہ 25سال کے دوران ہماری سیاست، ہماری ریاست، ہمارے نظام احتساب اور عدالتی سسٹم کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا لیکن اسکے باوجود جاری و ساری ہے۔ جج بشیر نے ماضی میں جو فیصلہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف دیا اُس میں اُنکی بریت ہو چکی۔ نیب اور عدلیہ کی آنکھیں نواز شریف کے حوالے سے بالکل بدل چکیں اور اب عمران خان جس نظام احتساب کو ماضی میں احتساب کے نام پر انصاف کا نام دیتے تھے، خوشی مناتے تھے، دوسروں کو مٹھائیاں کھلاتے تھے اُن کو آج سود سمیت وہی نظام 14 سال قید بامشقت واپس لوٹا رہا ہے اور آج وہ کہہ رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ نانصافی ہو گئی اور احتساب کے نام پر اُن کو سیاسی وجہ پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ن لیگ کی طرف سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کے بعد پریس کانفرنس کی گئی اوراس فیصلے کو Justify کیا گیا۔ یاد رہے کہ جج بشیر کی طرف سے نیب کے توشہ خانہ کیس میں فیصلہ کو سراہنے والی ن لیگ نے اپنے حالیہ الیکشن منشور میں اس بات کا وعدہ کیا ہےکہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد نیب کے ادارہ کو ختم کردے گی، جس سے نیب کی عدالتیں بھی ختم ہو جائیں گی کیوں کہ ن لیگ یہ سمجھتی ہے کہ نیب کے ادارے نے کبھی احتساب کیا ہی نہیں بلکہ احتساب کے نام پر سیاسی انجینئرنگ کی، غلط طریقہ سے سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو جیلوں میں ڈالا، اُن کو خلاف جھوٹے سچے مقدمات میں سزائیں دیں۔ وہ نیب جو بُرا تھا اور جسے ختم کیا جانا چاہیے اُس کے عمران خان کے خلاف فیصلے پر ن لیگ مطمئن کیوں ہے؟ دوسری طرف اس فیصلہ کے بعد عمران خان کی بہن علیمہ خان نے پاکستان کے عدالتی نظام پر سوالاٹ اُٹھا دیے۔ علیمہ خان اور ان کے بھائی نے یہی سوالات ماضی میں کیوں نہیں اُٹھائے جب اُن کے سیاسی مخالفین کو احتساب کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ایسا نہیں کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان کرپشن ، بدعنوانی یا غیر قانونی عمل میں شریک نہیں ہوتے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا نظام احتساب اور نظام عدل ایک آنکھ سے دیکھنے کا عادی بن چکا ہے۔ اُن کو ایک آنکھ سے جو دکھایا جاتا ہے وہ وہی کچھ دیکھتے ہیں اور جب اُن کی ایک آنکھ بند کر کے دوسری آنکھ کھولنے کو کہا جاتا ہے تو وہ دوسری آنکھ سے بالکل اُس کے برعکس دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جو کچھ اُنہیں پہلے دکھایا جاتا ہے۔ ہماری سیاست، نواز شریف اورعمران خان کا جرم یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کےاس ناقص نظام کے ہاتھوں ڈسے جانے پر خوشی مناتے ہیں اور جب خود ڈسے جاتے ہیں تو ناانصافی کا رونا روتے ہیں۔ سیاستدانوں کی یہ ناکامی رہی کہ وہ اس ملک کو ایک با اعتبار، آزاد اور انصاف پسند احتساب کا نظام دینے میں ناکام رہے ۔ وہ کبھی اقتدار اور کبھی سزا اور جیل کی قید کاٹنے کے دائرہ کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ جبکہ نیب اورجج بشیر والا نظام احتساب اپنی جگہ قائم ہے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

حکام کے مطابق جمشید دستی نے بغیر اجازت جلسہ اور غیر شائستہ تقریر کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام روز پارٹیاں بدلنے والوں کو آٹھ فروری کو عبرت ناک شکست دیں گے۔

مردان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے امیر حیدر خان ہوتی کا کہنا تھا کہ ساری عمر دوسروں سے حساب مانگتے رہے تو توشہ خانہ کیس میں حساب کیوں نہیں دیا۔

الیکشن مہم کے دوران خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ الیکشن نوجوانوں کی تقدیر کا فیصلہ کرے گا، ملک میں خوش حالی کا دور واپس لائیں گے۔

چیف آرگنائزر پی ٹی آئی عمر ایوب نے رؤف حسن کی مقرری کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔

انہوں نے پی ٹی آئی کی ریلی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرین سے اظہار ہمدردی کیا۔

ملکہ کوسار مری میں شدید برفباری کے باعث مری ایکسپریس وے سمیت کئی شاہراہوں پر پھسلن کے باعث کئی گاڑیاں پھنس گئیں، مری کی سیر کو جانے والے کئی خاندان بچوں سمیت گاڑیوں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں، رش کے باعث اسلام آباد سے مری کے لیے سیاحوں کا داخلہ بھی روک دیا گیا ہے۔

پنجاب کابینہ نے 3 ایم پی او کے نفاذ میں 3 ماہ توسیع کی تجویز مسترد کردی ہے۔

الیکشن کمیشن کے چاروں صوبائی الیکشن کمشنر کو مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ پولنگ کے دن پولنگ اسٹاف اور پولنگ ایجنٹ اپنے موبائل بند کر دیں گے۔

ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ الیکشن 8 فروری کو ہی ہوں گے۔

پیٹرول کی قیمت میں بڑا اضافہ کردیا گیا۔

بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ قوم جان چکی ہے کہ دونوں کیسز میں سیاسی انتقام ہے، سائفر کیس میں کیا جرم کیا گیا ہے۔

لاشوں کی آنکھوں پر پٹیاں، ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے، ان تمام فلسطینیوں کو تشدد کرکے قتل کیا گیا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ الیکشن بروقت کرانے کیلئے تیاریاں مکمل ہیں۔

جعلی شادیاں یورپی یونین کا رہائشی اجازت نامہ حاصل کرنے کےلیے کی گئی تھیں۔

گوہر اعجاز نے کہا کہ ملک میں چینی کے وافر ذخائر موجود ہیں۔

QOSHE - انصار عباسی - انصار عباسی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

انصار عباسی

30 25
01.02.2024

احتساب عدالت کے جج بشیر نے نیب کے مقدمہ میں سال 2018 میں نواز شریف اور اُنکی بیٹی مریم نواز کو ایون فیلڈ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوے دس سال اور سات سال کی قید بامشقت کی سزا دی۔ اُس موقع پر عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماوں اور ووٹروں، سپوٹروں نے خوشیاں منائیں، مٹھائیاں تقسیم کیں اور اسے انصاف اور احتساب کے نام پر سراہا اور اس فیصلہ کا ہر جگہ دفاع کیا۔ آج تقریباً کوئی پانچ چھ سال کے بعد اُسی احتساب عدالت کے اُسی جج بشیر نے اُسی نیب کے توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور اُنکی اہلیہ کو 14,14سال کی قید بامشقت اور کوئی ڈیڑھ ارب کے جرمانے کی سزا سنا دی۔ آج تحریک انصاف جج بشیر کے فیصلہ کو انصاف کا قتل قرار دے رہی ہے جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مٹھائیاں تو نہیں بانٹیں لیکن دونوں سیاسی جماعتیں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف فیصلہ کو انصاف کی عملداری کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ یاد رہے کہ انہی جج بشیر کی اسی عدالت کے سامنے اسی نیب کا توشہ خانہ ریفرنس کا مقدمہ نواز شریف، آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف درج ہے۔نواز ، زرداری اور گیلانی کے خلاف نیب نے توشہ خانہ ریفرنس چند سال پہلے دائر کیا تھا۔ عمران خان اور اُنکی اہلیہ کے خلاف توشہ خانہ کا کیس چند ماہ پہلے جج بشیر کی عدالت کے سامنے دائر کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کا کیس چند ماہ پہلے دائر ہوا، اُس کا نیب نے خوب پیچھا کیا اور آج جج بشیر کی عدالت نےاس مقدمہ میں فیصلہ بھی سنا دیا۔ جو توشہ خانہ کیس جج بشیر کی عدالت کے سامنے بہت پہلے دائر کیا گیا تھا وہ کہاں گم ہے، اُسکے حوالے سے نیب کیوں سویا ہوا ہے اور اُس کیس میں جج........

© Daily Jang


Get it on Google Play