آج کل راحت فتح علی خان اور عمران خان کے ستارے گردش میں ہیں، قوم کے دونوں سپوتوں کا بُرا وقت چل رہا ہے، دونوں پر مفسدات میں ملوث ہونے کا الزام ہے، ایک صاحب کو تو ٹرائل مکمل ہونے کے بعد سزائیں بھی سنا دی گئی ہیں، جب کہ صاحبِ سُروسُرور کا ابھی (میڈیا) ٹرائل چل رہا ہے۔

پہلے راحت کا قصہ سن لیجیے۔ پچھلے ہفتے ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں راحت پُر حال دکھائی دیتے ہیں یعنی ’’ایں قدر مستم کہ از چشمم شراب آید بروں‘‘ والی کیفیت ہے، اور ایک شخص پر کفش کاری فرما رہے ہیں اور سختی سے پوچھ رہے ہیں کہ ’دوسری بوتل کہاں ہے ‘، منظر راحت کے گھر کا ہے اور مضروب ان کا ملازم نظر آتا ہے۔ حاسدوں نے فوراً یہ افواہ اُڑائی کہ خمر کی بات ہو رہی ہے، باقیوں نے جوتا ماری کو تذلیلِ انسانیت سے منسوب کیا، اور سب شروع ہو گئے راحت کو برا بھلا کہنے۔ رائے عامہ کے جائزے سے یہ ثابت ہوا کہ بوتل چور کو عوام کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل ہے، غالباً چور کو مظلومیت کے ووٹ مل رہے ہیں۔ بہرحال ہمارے ایک دوست یہ ویڈیو دیکھ کر راحت کے اور بھی بڑے فین ہو گئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ راحت نے شدید غصے کی حالت میں بھی ایک گالی تک نہیں دی، اور پھر راحت کون سا بلّے یا ہاکی سے مار رہے ہیں، وہ تو صرف ڈرانے کے لیے ایک کیوٹ سے سلیپر سے اپنا مالِ مسروقہ برآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خیر، اگلے دن راحت نے ایک ویڈیو وضاحت جاری کی جس میں ’ملزم‘ ان کے پہلو میں کھڑا ہے۔راحت نے کہا یہ استاد اور شاگرد کا نجی معاملہ ہے، استاد کبھی شاگرد کی گوش مالی کرتا ہے اور کبھی پیار، شاگرد نے تائید کی اور وضاحت کی کہ گم شدہ بوتل میں پیر صاحب کا دم کیا ہوا پانی تھا۔ویسے ہماری اس میں کیا دل چسپی کہ بوتل میں دم والا پانی تھا یا دما دم والا، راحت فتح علی خان کسی دارالعلوم کے مہتمم ہوتے تو ہمیں ان کی بوتل کے کانٹنٹ بارے تجسس ہوتا، ایک گویے کی بوتل میںجو بھی ہو سو ہو، بہرحال اس موضوع کا حق ایاز امیر ہی ادا کر سکتے تھے جو اس وقت اپنے الیکشن میں مصروف ہیں۔ جس طرح راحت نے جوتا باری کو نجی معاملہ قرار دیا کچھ اسی طرح کے عقائد بانی صاحب بھی رکھتے ہیں، یعنی اگر ان سے ان کے بچوں کی تعداد پوچھی جائے، عدت کی شادی کا سوال کیا جائے، کسی اخلاق باختہ آڈیو کی وضاحت مانگیں تو وہ ہر سوال کا ایک ہی مسکت جواب عطا کرتے ہیں کہ ’’ یہ میرا نجی معاملہ ہے‘‘۔ آہستہ آہستہ بانی صاحب اتنے ’ہاتھ چُھٹ‘ ہو گئے کہ انہوں نے غالباً سائفر اور توشہ خانہ کو بھی کوئی نجی معاملہ ہی سمجھ لیا۔ توشہ خانہ کیس میں کم از کم دس مقام پر قانون ٹوٹتا نظر آتا ہے، اور یہ نقد رقم سے خدا جانے بانی صاحب کی کیا دل چسپی تھی کہ کروڑوں کے تحائف خریدتے بھی کیش پر تھے اور بیچتے بھی کیش پر تھے۔بہرحال ہم یہاں خود کو سائفر کیس تک محدود رکھیں گے کیوں کہ کاغذ کے اس پرزے نے ہمیں خوب گہرے چرکے لگارکھے ہیں۔ سائفر مقدمے میں ابو سائفر کو دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی ہے، جس سائفر سے بانی صاحب ’کھیلنے‘ کا ارادہ رکھتے تھے وہی سائفر ان سے کھیل کھیل گیا ہے۔مقدمے کے قانونی اور سیاسی پہلوئوں پر بہت بات ہو چکی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی، الیکشن سے پہلے یہ سزا کیوں ضروری تھی اس کا جواب بھی ہماری سیاسی تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے۔ہمارا موضوع یہ بھی نہیں ہے کہ پچھلے الیکشن سے پہلے نواز شریف کو سزا ملنے پرعمران خان اور ان کی پارٹی کے زعماء مٹھائیاں کھاتے بھی تھے اور مٹھائی خوری کی تصویریں میڈیا پر فخریہ جاری بھی کرتے تھے۔ نواز شریف کو کسی نے عمران کی سزا پر شیرینی تقسیم کرتے دیکھا ہے؟ کسی جلسے کی کسی تقریر میں نواز شریف نے ’مجرم عمران احمد خان نیازی کے دردناک انجام‘ پر کوئی فلک شگاف بڑھک ماری ہے؟ بہرحال، اس تحریر کا مقصد نواز شریف کی سیاسی بلوغت ثابت کرنا بھی نہیں ہے۔ہمارا مسئلہ سادہ سا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ابو سائفر کا سب سے بڑا گناہ نہ گھڑی فروشی ہے نہ القادر ٹرسٹ کی سینکڑوں ایکڑ زمین، نہ فارن فنڈنگ اور نہ گوگی فنڈنگ، ان صاحب کا گناہِ کبیرہ اپنی حکومت ختم ہونے سے پہلے آخری ہفتے میں پانچ مرتبہ آئین توڑنا تھا، اور اُس آئین شکنی کی بنیاد جس بودی اینٹ پر رکھی گئی تھی اس کا نام تھا ’’سائفر‘‘۔ اسی کاغذ کی بنیاد پر ابو سائفر نے قومی اسمبلی کی اکثریت کو غیر ملکی ایجنٹ اور غدار قرار دے کر ، عدم اعتماد کی تحریک کو رد کر کے، قومی اسمبلی کو توڑنے کی سازش کی تھی۔ بندیال عدالت نے اس غیر آئینی عمل کو غیر آئینی تو قرار دیا، مگر آئین شکن ٹولے کو باعزت بری کر دیا۔ یہ ہے ہماری نظر میں وہ بدترین گناہ جو سائفر کے نام پرکیا گیا۔ سائفر گم ہو گیا، سائفر جلسے میں لہرایا، سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی، امریکا سے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی، یہ سب سنجیدہ باتیں ہیں مگر پھر بھی ہماری نظر میں ضمنی باتیں ہیں۔بانی صاحب، آئین شکنی نجی معاملہ نہیں ہوتا، یہ تو 25 کروڑ لوگوں کا اجتماعی مسئلہ ہوتا ہے۔ اپنی اصلاح کیجیے، آپ سے اب بھی لاکھوں لوگ توقعات باندھے ہوئے ہیں۔ اور راحت علی خان صاحب سے بھی عرض ہے کہ کسی دوسرے انسان کوزدوکوب کرنا تو کجا، چومنا بھی آپ کا نجی معاملہ نہیں ہے، لہٰذا آپ کیلئے برادرانہ مشورہ یہی ہے کہ آئینِ مجدِ انسانیت کی سختی سے پابندی کیجیے، خوب ریاض کریں، ردِ بلا کیلئے دم والا پانی پئیں، اور خوش رہیں۔

حکام کے مطابق جمشید دستی نے بغیر اجازت جلسہ اور غیر شائستہ تقریر کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام روز پارٹیاں بدلنے والوں کو آٹھ فروری کو عبرت ناک شکست دیں گے۔

مردان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے امیر حیدر خان ہوتی کا کہنا تھا کہ ساری عمر دوسروں سے حساب مانگتے رہے تو توشہ خانہ کیس میں حساب کیوں نہیں دیا۔

الیکشن مہم کے دوران خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ الیکشن نوجوانوں کی تقدیر کا فیصلہ کرے گا، ملک میں خوش حالی کا دور واپس لائیں گے۔

چیف آرگنائزر پی ٹی آئی عمر ایوب نے رؤف حسن کی مقرری کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔

انہوں نے پی ٹی آئی کی ریلی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرین سے اظہار ہمدردی کیا۔

ملکہ کوسار مری میں شدید برفباری کے باعث مری ایکسپریس وے سمیت کئی شاہراہوں پر پھسلن کے باعث کئی گاڑیاں پھنس گئیں، مری کی سیر کو جانے والے کئی خاندان بچوں سمیت گاڑیوں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں، رش کے باعث اسلام آباد سے مری کے لیے سیاحوں کا داخلہ بھی روک دیا گیا ہے۔

پنجاب کابینہ نے 3 ایم پی او کے نفاذ میں 3 ماہ توسیع کی تجویز مسترد کردی ہے۔

الیکشن کمیشن کے چاروں صوبائی الیکشن کمشنر کو مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ پولنگ کے دن پولنگ اسٹاف اور پولنگ ایجنٹ اپنے موبائل بند کر دیں گے۔

ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ الیکشن 8 فروری کو ہی ہوں گے۔

پیٹرول کی قیمت میں بڑا اضافہ کردیا گیا۔

بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ قوم جان چکی ہے کہ دونوں کیسز میں سیاسی انتقام ہے، سائفر کیس میں کیا جرم کیا گیا ہے۔

لاشوں کی آنکھوں پر پٹیاں، ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے، ان تمام فلسطینیوں کو تشدد کرکے قتل کیا گیا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ الیکشن بروقت کرانے کیلئے تیاریاں مکمل ہیں۔

جعلی شادیاں یورپی یونین کا رہائشی اجازت نامہ حاصل کرنے کےلیے کی گئی تھیں۔

گوہر اعجاز نے کہا کہ ملک میں چینی کے وافر ذخائر موجود ہیں۔

QOSHE - حماد غزنوی - حماد غزنوی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

حماد غزنوی

10 12
01.02.2024

آج کل راحت فتح علی خان اور عمران خان کے ستارے گردش میں ہیں، قوم کے دونوں سپوتوں کا بُرا وقت چل رہا ہے، دونوں پر مفسدات میں ملوث ہونے کا الزام ہے، ایک صاحب کو تو ٹرائل مکمل ہونے کے بعد سزائیں بھی سنا دی گئی ہیں، جب کہ صاحبِ سُروسُرور کا ابھی (میڈیا) ٹرائل چل رہا ہے۔

پہلے راحت کا قصہ سن لیجیے۔ پچھلے ہفتے ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں راحت پُر حال دکھائی دیتے ہیں یعنی ’’ایں قدر مستم کہ از چشمم شراب آید بروں‘‘ والی کیفیت ہے، اور ایک شخص پر کفش کاری فرما رہے ہیں اور سختی سے پوچھ رہے ہیں کہ ’دوسری بوتل کہاں ہے ‘، منظر راحت کے گھر کا ہے اور مضروب ان کا ملازم نظر آتا ہے۔ حاسدوں نے فوراً یہ افواہ اُڑائی کہ خمر کی بات ہو رہی ہے، باقیوں نے جوتا ماری کو تذلیلِ انسانیت سے منسوب کیا، اور سب شروع ہو گئے راحت کو برا بھلا کہنے۔ رائے عامہ کے جائزے سے یہ ثابت ہوا کہ بوتل چور کو عوام کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل ہے، غالباً چور کو مظلومیت کے ووٹ مل رہے ہیں۔ بہرحال ہمارے ایک دوست یہ ویڈیو دیکھ کر راحت کے اور بھی بڑے فین ہو گئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ راحت نے شدید غصے کی حالت میں بھی ایک گالی تک نہیں دی، اور پھر راحت کون سا بلّے یا ہاکی سے مار رہے ہیں، وہ تو صرف ڈرانے کے لیے ایک کیوٹ سے سلیپر سے اپنا مالِ مسروقہ برآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خیر، اگلے دن راحت نے ایک ویڈیو وضاحت جاری کی جس میں ’ملزم‘ ان کے پہلو میں کھڑا ہے۔راحت نے کہا یہ استاد اور شاگرد کا نجی معاملہ ہے، استاد کبھی شاگرد کی گوش مالی کرتا ہے اور کبھی پیار، شاگرد نے تائید کی اور وضاحت کی کہ گم شدہ بوتل میں پیر صاحب کا دم کیا ہوا پانی تھا۔ویسے ہماری اس میں کیا دل چسپی کہ بوتل میں دم والا پانی تھا یا دما دم والا، راحت فتح علی خان کسی دارالعلوم کے مہتمم ہوتے تو........

© Daily Jang


Get it on Google Play