بانی پی ٹی آئی، ان کی اہلیہ اورشاہ محمود قریشی کو دوالگ الگ مقدمات میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔ کسی کو بھی سزا ہونے پر کسی کوبھی خوش نہیں ہونا چاہئے لیکن کیا کیا جائے کہ ماضی میں سیاسی مخالفین کوسزائیں سنائے جانے پرجو لوگ مٹھائیاں بانٹنے اور خوشیاں مناتے تھے۔ سیاسی مخالفین کوسزائیں سنانے پریہی لوگ عدالتوں کی تعریف اور قانون کی حکمرانی وبالادستی،ان سزاوں کو جائز اور مبنی بر انصاف کہا کرتے تھے ، وہی لوگ آج انکے خلاف آنیوالے فیصلوں کو انصاف کا قتل اور ظلم قرار دے رہے ہیں۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو والا کام نہیں چلتا۔ جن عدالتوں سے ان لوگوں کوسزائیں ہوئیں پوری قوم کے سامنے ان عدالتوں نے ان کو ہر پیشی پرپورا پورا موقع دیا کہ وہ اپنے دفاع میں جو کچھ پیش کرناچاہیں، پیش کریں لیکن اسکے بجائے وہ ہمیشہ ان کیسز سے بھاگنے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتے تھے ۔کبھی وکلا کو تبدیل کیا جاتا تھا کبھی وکلا پیش نہیں ہوتے تھے کبھی حکم امتناعی، کبھی وکلا کی تیاری نہ ہونے کے نام پر اگلی تاریخ الغرض کبھی کچھ کبھی کچھ۔کیا اس طرح کرنا انکے مفاد میں تھا؟ وقت نے ثابت کیا کہ تاخیری حربوں سے کیس کو طویل کیا جاسکتا ہے لیکن فیصلہ ہمیشہ قانون کے مطابق آخرکار ہوتا ہی ہے۔

سائفرکیس کو لے لیں۔یہ بات توسب جانتے ہیں کہ یہ ایک اٹل اور طے شدہ امر ہے کہ کوئی بھی ریاست اعلیٰ ترین عہدے پر فائز فرد کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ قومی راز اور نیشنل سیکورٹی سے جڑے معاملات کو غیر ذمہ دارانہ طریقے سے چلائے اور افشا کرے۔ یہ جانتے ہوئے اور اس کاحلف اٹھانے کے باوجود بانی پی ٹی آئی نے بحیثیت وزیر اعظم ایک انتہائی اہم سفارتی سائفر یعنی مراسلہ کو سیاسی مقاصد کی خاطر جلسہ میں سرعام لہرایا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس سے متعلق غلط بیانی کرتے ہوئے عوام کوگمراہ اور مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ اسی سائفر کی بنیاد پر’’ ہم کوئی غلام ہیں‘‘ کابیانیہ بنایا۔ اسکی جماعت کے بعض لوگوں نے تواپنی گاڑیوں پریہی بیانیہ تحریر کروایا تھا۔ اس اقدام اور بیانیہ کا مقصد پاک امریکہ تعلقات کو خراب کرناتھا۔ بانی پی ٹی آئی جانتے تھے کہ انکا یہ اقدام انکے حلف سے یکسر روگردانی اور آئین وقانون کے مطابق سنگین جرم ہے۔اس کیس میں تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے چلایا گیا۔ اس میں اس وقت کی اہم ریاستی شخصیات اس معاملے میں بطور گواہ پیش ہوئیں اور عدالت کے سامنے وہی بیانات دئیے جواس وقت جو کچھ ہواتھا۔ اس کیس کے ملزمان کو اپنے دفاع کا پورا پورا حق ان کے وکلا کے ذریعے دیاگیا جوقانونی تقاضا تھا آخری پیشیوں پر تاخیری حربہ ملزمان کیلئے بہت نقصان دہ تھا جبکہ عدالت میں ملزمان کا انتہائی ناجائز رویہ بھی قوم نے دیکھا۔

اس کیس میں اہم ترین گواہ اس وقت کے وزیر اعظم کے پرسنل سیکرٹری اعظم خان نے اپنے بیان میں اقرار کیا کہ اس نے سائفر وزیر اعظم کو دیا لیکن وہ انہیں واپس نہیں دیا گیا۔ دوسرے اہم گواہ سفیر اسد مجید نے اپنے تحریری بیان میں کہا کہ سائفر میں نہ کوئی دھمکی تھی نہ ہی اس وقت کی حکومت کے خلاف کوئی سازش تھی۔ تقریباً اسی طرح کا بیان تیسرے اہم ترین گواہ اس وقت کے سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے بھی تحریری طور پر دیا ۔ اس وقت کے وزیر اعظم اوران کے پرسنل سیکرٹری اعظم خان کی آڈیو لیک بھی ٹھوس ثبوت کے طور پر موجودہے۔ سائفر سے متعلق شاہ محمود قریشی کا کردار بھی نہایت واضح ہے۔ یہ ایک انتہائی اہم فیصلہ ہے کیونکہ کسی بھی شخص کو پاکستان کے نیشنل سیکورٹی اور سفارتی تعلقات کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عدالت نے ثابت کیا کہ کوئی بھی فرد جواہم ریاستی ذمہ داری پر مامور ہو، کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو وہ ہمیشہ قانون کے سامنے جوابدہ رہے گا۔ مغربی ممالک میں بھی اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طورپر1971میں پیپٹا گون پیپرز کیس، واٹرگیٹ ا سکینڈ ل ،1998,99میں امریکی صدر بل کلنٹن کا مواخذہ وغیرہ وغیرہ۔کالم کی تنگی داماں کی وجہ سے ان کیسز کی تفصیلات تحریر نہیں کی جا سکتیں۔ اس لئے یہاں صرف حوالہ جات کے طور پر پیش خدمت ہیں۔ اس کیس اور فیصلے میں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ ایک سائفر کا کیس اور اس سے متعلق فیصلہ نہیں بلکہ دراصل اس کیس میں سزا ایک خفیہ سرکاری دستاویز کو عام کرنے اور پھر اس کو گم کرنے پر دی گئی ہے جو آئین، حلف اور قانون کی صریح خلاف ورزی تھی۔

جہاں تک توشہ خانہ کیس کا تعلق ہے تو اس میں بھی ملزمان کو دفاع کا پورا پورا موقع دیا گیا لیکن وہ اپنے دفاع اور صفائی میں کچھ بھی پیش نہ کرسکے بلکہ لیت ولعل سے کام لیتے رہے۔ جبکہ استغاثہ نے تمام ثبوت اور تحریری بیانات عدالت میں پیش کرکے اپنے کیس کو مضبوط کئے رکھا۔ توشہ خانہ کیس میں نہایت بیش قیمت گھڑی کی فروخت سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔ یہ صرف تحفہ میں دی گئی ایک نادر ونایاب گھڑی کی فروخت کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ ملکی عزت ووقار کو سر بازار داو پر لگانے کا معاملہ تھا۔ اربوں روپے کی گھڑی اور دیگر سامان ’’ چوری کا کپڑا اور ڈانگوں کے گز‘‘ کی طرح بازار میں فروخت کیا گیا۔ کیا اس معاملے کو قانون پس پشت ڈال کر نظر انداز کیا جاتا ؟ یہ تو ممکن ہی نہیں تھا۔عدالت کے ہر سوال کے جواب میں ’’ مجھے نہیں معلوم‘‘ سے تو قانون کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ پی ٹی آئی کے جو دوست یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں سزائیں ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے ختم ہوجائیں گی، شاید وہ بانی پی ٹی آئی کو طفل تسلی دے رہے ہیں۔ دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

ان کا کہنا تھا کہ باجوڑ میں آزاد امیدوار ریحان زیب کے قتل پر ہر پختون رنجیدہ ہے، ہم سیاسی وابستگی سے قطع نظر ہر پختون کے لیے امن چاہتے ہیں۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ مولانا نے اپنوں میں ٹکٹیں بانٹ کر سارا خاندان الیکشن میں کھڑا کردیا، مولانا فضل الرحمان اسلام چاہتے ہیں یا اسلام آباد چاہتے ہیں۔

اس موقع ہر جہانگیر ترین نے معذور طالبہ کے نام پر اسکالر شپ بھی دینے کا اعلان کیا۔

قطری وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ امید ہے اگلے دو ہفتوں میں اچھی خبر سنا سکیں گے۔

ویڈیو سوشل میڈيا پر وائرل ہوگئی ہے اور صارفین کیپٹن (ر) محمد صفدر کے رویے کی تعریف کر رہے ہیں

بیرسٹر گوہر نے یہ بھی کہا کہ وہ وکلا ہمارے خلاف پیش ہوتے رہے اور پراسیکیوشن کی ٹیم کا حصہ تھے،

اسسٹنٹ کمشنر علی پور مکرم سلطان نے میتیں لواحقین کے حوالے کیں۔

متاثرہ فیملی کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے ہماری کوئی مدد نہیں کی جا رہی، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے رابطہ نہیں کیا گیا۔

اُن کے دل میں ذکاء اشرف کے لیے زیادہ عزت ہوتی اگر وہ انہیں صاف صاف کہہ دیتے، مکی آرتھر

فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک دونوں دہشت گرد ہائی ویلیو ٹارگٹ تھے، آئی ایس پی آر

امداد کے منتظر شہری برہم ہوگئے، اور کہا کہ بِل تو گھر پر آجاتا ہے لیکن امداد کے لیے خوار کیا جاتا ہے،

وفاقی وزارتِ تعلیم اور صوبائی حکومتوں نے انتخابات کی وجہ سے 6 سے 9 فروری تک تعطیلات کا اعلان کردیا۔

انسان خود گرفتاری کےلیے جیل آگیا اور کیا ہوسکتا ہے، میرے گھر کو سب جیل بنادیا گیا، وہ کوئی ہوٹل تو نہیں، اہلیہ بانی پی ٹی آئی

ویڈیو وائرل ہونے پر پیپلز پارٹی کے امیدوار خورشید شاہ کا بھی ردعمل سامنے آگیا۔

کابینہ اجلاس میں دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ ڈریپ آن لائن پورٹل پر شہری مارکیٹ میں ادویات نہ ملنے کی شکایات درج کروا سکتے ہیں۔

اپسوس نے پاکستانی نوجوانوں کی رائے پر مبنی وائس آف امریکا کے لیے کیا گیا سروے جاری کردیا ۔

QOSHE - ایس اے زاہد - ایس اے زاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایس اے زاہد

12 1
02.02.2024

بانی پی ٹی آئی، ان کی اہلیہ اورشاہ محمود قریشی کو دوالگ الگ مقدمات میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔ کسی کو بھی سزا ہونے پر کسی کوبھی خوش نہیں ہونا چاہئے لیکن کیا کیا جائے کہ ماضی میں سیاسی مخالفین کوسزائیں سنائے جانے پرجو لوگ مٹھائیاں بانٹنے اور خوشیاں مناتے تھے۔ سیاسی مخالفین کوسزائیں سنانے پریہی لوگ عدالتوں کی تعریف اور قانون کی حکمرانی وبالادستی،ان سزاوں کو جائز اور مبنی بر انصاف کہا کرتے تھے ، وہی لوگ آج انکے خلاف آنیوالے فیصلوں کو انصاف کا قتل اور ظلم قرار دے رہے ہیں۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو والا کام نہیں چلتا۔ جن عدالتوں سے ان لوگوں کوسزائیں ہوئیں پوری قوم کے سامنے ان عدالتوں نے ان کو ہر پیشی پرپورا پورا موقع دیا کہ وہ اپنے دفاع میں جو کچھ پیش کرناچاہیں، پیش کریں لیکن اسکے بجائے وہ ہمیشہ ان کیسز سے بھاگنے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتے تھے ۔کبھی وکلا کو تبدیل کیا جاتا تھا کبھی وکلا پیش نہیں ہوتے تھے کبھی حکم امتناعی، کبھی وکلا کی تیاری نہ ہونے کے نام پر اگلی تاریخ الغرض کبھی کچھ کبھی کچھ۔کیا اس طرح کرنا انکے مفاد میں تھا؟ وقت نے ثابت کیا کہ تاخیری حربوں سے کیس کو طویل کیا جاسکتا ہے لیکن فیصلہ ہمیشہ قانون کے مطابق آخرکار ہوتا ہی ہے۔

سائفرکیس کو لے لیں۔یہ بات توسب جانتے ہیں کہ یہ ایک اٹل اور طے شدہ امر ہے کہ کوئی بھی ریاست اعلیٰ ترین عہدے پر فائز فرد کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ قومی راز اور نیشنل سیکورٹی سے جڑے معاملات کو غیر ذمہ دارانہ طریقے سے چلائے اور افشا کرے۔ یہ جانتے ہوئے اور اس کاحلف اٹھانے کے باوجود بانی پی ٹی آئی نے بحیثیت وزیر اعظم ایک انتہائی اہم سفارتی سائفر یعنی مراسلہ کو سیاسی مقاصد کی خاطر جلسہ میں سرعام لہرایا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس سے متعلق غلط بیانی کرتے ہوئے عوام کوگمراہ اور مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ اسی سائفر........

© Daily Jang


Get it on Google Play