قومی انتخابات کے انعقاد میں دو دِن رہ گئے ہیں۔ الیکشن کی گہما گہمی آخری ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔ مگر ان انتخابات میں عوام کی وہ دلچسپی نظر نہیں آ رہی جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ یہ بہت اہم اور سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ اس بار عوام میں عدم دلچسپی اور بیزاری کا رُجحان کیوں غالب ہے۔ اس بار مسلم لیگ (ن) اگرچہ بڑے جلسے کرنے میں سرفہرست ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ عوام اس جماعت کو کامیاب کرانے میں بھی تن من سے دلچسپی رکھتےہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام سیاستدانوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اور معاشی مشکلات کی وجہ سے عام آدمی کے لئے اہم ترین مسئلہ دو وقت کی روٹی کا ہے۔ عوام کو معاشی پریشانیوں میں مبتلا کرنے کے ذمہ دار یہی جمہوریت کے دعویدار سیاستدان ہیں جو اپنے مفادات کے حصول کے لئے عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح قربان کرتے ہیں۔ اب تک انتخابی جلسوں میں تقاریر اور اخباری بیانات کودیکھئے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ملکی مسائل بالخصوص معیشت کی بہتری، مہنگائی اور غربت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری سے نجات کا کوئی قابل عمل منصوبہ نہیں ہے جو عوام کے سامنے پیش کر سکے۔ کوئی موٹرویز اور میٹروز کے حوالے دیتے ہیں کوئی گھربنا کر دینے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے دیتے ہیں اور سب کہتے ہیں کہ برسراقتدار آ کر وہ غربت و مہنگائی اور بے روزگاری کو ختم کر دیں گے۔ تین سو یونٹ تک بجلی مفت دی جائے گی اور یہاں تک کہ ماضی کی قیمتیں بحال اور مقرر کی جائیں گی۔ یہ سب کتنی غیرمنطقی باتیں ہیں جو کسی بھی طرح قابل عمل نہیں ہیں۔ ان سے کوئی یہ پوچھے کہ یہ سب کچھ کیسے اور کیونکر ہوگا۔ اس کا اُن کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ ایسے سوالات کون سوچتا اور پوچھتا ہے۔ عوام بے چارے تو اتنے سادہ ہیں کہ ہر بات پر جب اسٹیج پر کھڑا کوئی شخص تالیاں بجانا شروع کرتا ہے تو جلسے کے شرکاء کو یہ اشارہ ہوتا ہے کہ تالیاں بجائیں۔ مقرر نے کیا غیرمنطقی بات کی ہے یا مخالف کا مذاق اُڑایا ہے اس کا شرکاء کو پتہ ہی نہیں ہوتا۔ کوئی ان لیڈران سے یہ بھی پوچھے کہ ملک شدید معاشی مشکل میں ہے آپ لوگوں نے کتنا ذاتی پیسہ لا کر پاکستان کی بہتری کے لئے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ اپنی ساری دولت ملک سے باہر اور سیاست و حکومت ملک کے اندر۔

ہر جمہوری حکومت کا انحصار ملکی پیداوار بڑھانے کے بجائے غیرملکی قرضوں پر ہی رہا ہے جو ان کے لئے آسان طریقہ ہے اور ادائیگی تو عوام کو کرنی ہوتی ہے ان کو کیا۔ کوئی مسلم لیگ (ن) سے پوچھے کہ تین بار اقتدار میں آنے کے باوجود ان کا کونسا ایسا کارنامہ ہے جس سے ملک و قوم کو کوئی ترقّی و خوشحالی ملی ہو۔ ان کے پاس گھوم پھرکر موٹرویز اور میٹرو کے علاوہ اور کیا ہے ۔ یہ منصوبے بھی قرضے کے پیسوں سے بنے ہیں جن کی ادائیگی بھی عوام ہی کرتےہیں۔ یعنی عوام کی جُوتی عوام کے سَر۔ پی ڈی ایم حکومت میں اہم ترین عہدے اسی جماعت کے پاس تھے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے نام پر انہی لوگوں نے عوام کو دیوالیہ بنا دیا ہے۔ اب جو بھی حکومت آئے گی اُس کو اسی آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنا پڑے گا کیونکہ موجودہ مہنگا ترین معاہدہ اس سال مارچ میں ختم ہو جائے گا اور نیا معاہدہ آئی ایم ایف کی نئی شرائط کے مطابق کرنا ہوگا۔ تو بتایئے کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ سابق پی ٹی آئی حکومت کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس نے ملک و قوم کو کچھ نہیں دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے اس ملک میں وہ کچھ کیا اور وہ تبدیلیاں لے آئی جوپہلے کوئی کر سکا ہے نہ شاید آئندہ کوئی کرسکےگا۔ سابق پی ٹی آئی حکومت نے ملکی سیاست، معاشرت اور سماجی معاملات کویکسر تبدیل کر دیا حتیٰ کہ ملکی معیشت کو بھی تبدیل کیا۔ مثلاً اس حکومت نے نوجوانوں کی ایسی گمراہ کن ذہن سازی کی کہ وہ احترام اور اخلاقیات کو ہی بھول گئے۔

پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نےنوجوانوں کو تشدد پر ایسا راغب کیا کہ وہ اب یہ بھی نہیں سمجھتے کہ ان کے کس اقدام سے ملک کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ 9 مئی کے مذموم واقعات کے بعد حالیہ الیکشن مہم کے دوران کراچی اور کرک کے واقعات تازہ ترین مثالیں ہیں۔ 8 فروری اور اس کے بعد کیا حالات ہوں گے یہ کوئی نہیں جانتا۔ ملکی معیشت کو برباد کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے معاہدہ اور اُس کو توڑنا شاید کسی اور نے پہلے کیا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس دور میں کرپشن کا ایسا بازار گرم رہا جس کی ماضی میں کوئی مثال ملنا مشکل ہے۔ آج اگر یہ سب کچھ سامنے آنے کے بعد بھی کوئی اس جماعت کا حمایتی نظر آتا ہے تو وہ خود اس کی وجہ نہیں جانتا۔ ہماری مُراد عام لوگوں سے ہے بلکہ وہ حمایت اُس ذہن سازی کا اَثر ہے جو اُس کی، کی گئی ہے۔ اس لئے اُس کوبلاوجہ حمایتی ہی کہا جا سکتا ہے۔

جہاں تک پاکستان پیپلزپارٹی کا تعلق ہے تو اس جماعت کے ریکارڈ پر ملکی ترقّی اور عوام کی خوشحالی کا کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ سندھ میں پندرہ سال حکومت کے باوجود کراچی جیسے کاروباری حب کا حال سب کے سامنے ہے تو اندازہ لگایئے کہ اندرون سندھ کا کیا حال ہوگا۔ وہاں آج بھی غریب، غریب تر ہے۔ مواصلات، صحت اور تعلیم کا حال یہ ہے کہ سڑکیں ٹُوٹی پُھوٹی، مراکز صحت میں نہ ڈاکٹر، نہ ادویات اور اسکولوں میں زمینداروں کے مویشی بندھے ہوئے ہیں۔ پورے ملک میں غُربت کے اندھیرے ہیں۔ مہنگائی کا طُوفان ہے۔ کیا اس صورتحال کے باوجود بھی عام آدمی جو اصل متاثرہ ہے الیکشن میں دلچسپی لے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

امریکی جریدے کے مطابق پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام مارچ میں ختم ہورہا ہے، الیکشن کے بعد نئی حکومت آئی ایم ایف سے جاری معاہدہ ختم ہونے کے بعد نیا معاہدہ کرسکتی ہے۔

لاپتہ افراد پر بنائی گئی وزارتی کمیٹی کابینہ کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ کے تحت ریلی میں وفاقی وزرا، سیکریٹری خارجہ اور دیگر نے شرکت کی۔

نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ویدانت پٹیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کے انتخابی عمل کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔۔

ملک بھر میں 8 فروری کو ہونے والے الیکشن کی انتخابی مہم کا آج آخری روز ہے، انتخابی مہم کا وقت آج رات 12 بجے ختم ہوجائے گا۔

میرپورخاص میں پیپلز پارٹی کے امیدوار برائے سندھ اسمبلی سید ذوالفقار شاہ کی گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے جس میں وہ شدید زخمی ہوگئے۔

سینئر صحافی اور معروف تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ کوئی ایک سیاسی جماعت خیبرپختونخوا میں سادہ اکثریت لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے،صوبے میں الیکشن کے کھچڑی بنے گی۔

عدالت نے سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کو بھی طلب کر رکھا ہے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ اقتدار میں آنے کے بعد کراچی کے نوجوانوں کیلئے فری آئی ٹی یونیورسٹی بنائیں گے،

ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ کو بہت غصہ آرہا ہے عمران خان کے ساتھ غلط ہو رہا ہے تو ووٹ دیں کیوں کہ گراؤنڈ کی حقیقت یہی ہے، سینئر تجزیہ کار

بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بیان کے ساتھ دبئی کی بارش کے پانی میں ڈوبی سڑکوں کی ویڈیو بھی شیئرکردی۔

برطانیہ کے شاہ چارلس سوم میں کینسر کی تشخیص ہوئی ہے۔ اس حوالے سے پیر کو بکنگھم پیلس کی جانب سے ایک ای میل پر مبنی بیان میں اعلان کیا گیا۔

ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ملزم سعودی عرب جانے کیلئے تاخیر سے ایئرپورٹ پہنچا تھا، ملزم کے پہنچنے سے قبل ہی فلائٹ پرواز کر چکی تھی۔

سینئر صحافی اور معروف تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کو سادہ اکثریت نہیں ملی تو پنجاب میں نیا ماحول بنے گا۔

پی پی پی رہنما نے کہا کہ چھاپہ مسلم لیگ ن کے امیدوار عطا تارڑ کی قیادت میں مارا گیا،

اگر پچاس سے ساٹھ یا اس سے بھی اوپر چلا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ لوگ غیر معمولی تعداد میں نکل آئے ہیں اور اس کا بالکل مطلب یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کا ووٹر نکل آیا ہے، سینئر تجزیہ کار

QOSHE - ایس اے زاہد - ایس اے زاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایس اے زاہد

15 28
06.02.2024

قومی انتخابات کے انعقاد میں دو دِن رہ گئے ہیں۔ الیکشن کی گہما گہمی آخری ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔ مگر ان انتخابات میں عوام کی وہ دلچسپی نظر نہیں آ رہی جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ یہ بہت اہم اور سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ اس بار عوام میں عدم دلچسپی اور بیزاری کا رُجحان کیوں غالب ہے۔ اس بار مسلم لیگ (ن) اگرچہ بڑے جلسے کرنے میں سرفہرست ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ عوام اس جماعت کو کامیاب کرانے میں بھی تن من سے دلچسپی رکھتےہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام سیاستدانوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اور معاشی مشکلات کی وجہ سے عام آدمی کے لئے اہم ترین مسئلہ دو وقت کی روٹی کا ہے۔ عوام کو معاشی پریشانیوں میں مبتلا کرنے کے ذمہ دار یہی جمہوریت کے دعویدار سیاستدان ہیں جو اپنے مفادات کے حصول کے لئے عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح قربان کرتے ہیں۔ اب تک انتخابی جلسوں میں تقاریر اور اخباری بیانات کودیکھئے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ملکی مسائل بالخصوص معیشت کی بہتری، مہنگائی اور غربت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری سے نجات کا کوئی قابل عمل منصوبہ نہیں ہے جو عوام کے سامنے پیش کر سکے۔ کوئی موٹرویز اور میٹروز کے حوالے دیتے ہیں کوئی گھربنا کر دینے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے دیتے ہیں اور سب کہتے ہیں کہ برسراقتدار آ کر وہ غربت و مہنگائی اور بے روزگاری کو ختم کر دیں گے۔ تین سو یونٹ تک بجلی مفت دی جائے گی اور یہاں تک کہ ماضی کی قیمتیں بحال اور مقرر کی جائیں گی۔ یہ سب کتنی غیرمنطقی باتیں ہیں جو کسی بھی طرح قابل عمل نہیں ہیں۔ ان سے کوئی یہ پوچھے کہ یہ سب کچھ کیسے اور کیونکر ہوگا۔ اس کا اُن کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ ایسے سوالات کون سوچتا اور پوچھتا ہے۔ عوام بے چارے تو اتنے سادہ ہیں کہ ہر بات پر جب اسٹیج پر کھڑا کوئی شخص تالیاں بجانا شروع کرتا ہے تو جلسے کے شرکاء کو یہ اشارہ ہوتا ہے کہ تالیاں بجائیں۔........

© Daily Jang


Get it on Google Play