تضادستان کی پون صدی پر محیط ہسٹری انتخابات پر اعتراضات و تلخ حقائق سے آلودہ ہے۔ سوائے 1970ء والے انتخابات کے جن کے نتائج کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا کیونکہ جو طاقتوران دنوں اقتدار پر براجمان تھے وہ انتقال اقتدار کیلئےتیار ہی نہیں تھے،نتیجتاً ملک ٹوٹ گیا۔ 77ء کے انتخابات میں اقتدار کے حریص سویلین شخص نےخود عسکریوں کو موقع دے دیا کہ وہ اقتدار حاصل کر لیں۔ 1985ء کے انتخابات مخصوص مقاصد کے تحت غیر جماعتی طور پر منعقد کروائے گئے جنکے منفی اثرات آج بھی ہماری قومی سیاست میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ ‎88ء کے انتخابات جن حالات میں منعقد ہوئے ان میں جمہوری قیادت کوجیسی کامیابی ملی وہ بھی غنیمت تھی مگر ایسی کڑی شرائط لگائی گئیں جن میں انتقالِ اقتدار نہیں شراکتِ اقتدار کا جمہوریت کے حق میں کمزور ترین فارمولا تشکیل پایا۔مابعد یہی فارمولا 90، 93اور 97سے ہوتا ہوا 2002ء ، 2008ء، 2013ءاور 2018ء تک پہنچا اور جوں کا توں آج 2024ء تک جاری و ساری ہے۔اس امر میں کوئی اشتباہ نہیں کہ اس دورانیے میں سویلینز اتھارٹی منوانےکیلئےبی بی اور میاں صاحب کے دو نام ضرور ابھر کر سامنے آئے مگر ایک کو مروادیا گیا اور دوسرے کی خوش بختی یا دانشمندی کہ جیل یاترا یا جلاوطنی پر اکتفا کیا گیا۔ ان دو کے علاوہ اس درویش کو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں ہمیشہ ”قومی مقابلۂ چاپلوساں“ جاری و ساری رہا اور آج بھی جاری ہے۔ ‎ سابق کھلاڑی کو میڈیا یا سوشل میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیاجاتا ہے کہ جیسے وہ سویلین اتھارٹی منوانے کیلئے قید و بند کی صعوبتیں اٹھارہا ہے ۔ حالانکہ ایسی بات کہیں سرے سے موجود ہی نہیں اسے بھلا آئین، جمہوریت ،ہیومن رائیٹس یا سویلین اتھارٹی سے کیا غرض اس کا اول و آخر اپنی ذات ہے۔ ‎آج بھی وہ اپنے تئیں یہ زعم پالے بیٹھا ہے کہ وہ عوام میں بے حد مقبول ہے اور بھاری میجارٹی کے ساتھ جیت کر اپنی عوامی طاقت کا لوہا طاقتوروں سے منوالے گا۔ ہمارے موجودہ سیاسی منظرنامے پرجیسی چاہے غیرجانبدارانہ نظر ڈالتے ہوئے حقائق کا ادراک کرلیا جائے اس وقت یہ قوم سوائے نوازشریف کے کسی اناڑی کو اپنی باگیں نہیں تھماسکتی۔ جس نے سویلین اتھارٹی منوانے کیلئے، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے، اس نے اپنے اقتدار کی قربانیاں دیں جیلیں اور جلاوطنیاں بھگتیں مگر کسی بھی آزمائش میں وہ اپنے قومی تعمیر و ترقی اور پاکستان کی خوشحالی کے ایجنڈے سے دستبردار نہیں ہوا۔ اس نے ہمیشہ وہ کیا جس سے اس ملک کی تقدیر بدلے یہاں سے غربت، جہالت، بیماری اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو۔ آج اگر ہم نوازشریف کے ادوار کو الگ کرتے ہوئے اس ملک کی حالتِ زار ملاحظہ کریں تو سوائے کھنڈرات کے کچھ دکھائی نہیں دے گا۔ درویش پوری دیانتداری سے یہ سچائی بیان کر رہا ہے کہ نوازشریف اس ملک کی اس وقت واحدامید ہے۔‎آج 8فروری کے روز اس درویش کی نگاہیں نوازشریف کو چوتھی بار وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھاتے دیکھ رہی ہیں ن لیگ مجموعی طور پرسوا سو سے زائد سیٹیں جیت جائے گی جبکہ مولانا فضل الر حمن، ایم کیو ایم، ق لیگ اور جہانگیر ترین نوازشریف کے اتحادی ہونگے پی ٹی آئی کے کئی آزاد بھی یہ چاہیں گے کہ وہ بہتی گنگا سے ہاتھ دھولیں بقیتہ السیف کا مقابلہ قائد حزب اختلاف کیلئےبلاول سے ہوگا،اگرچہ بلاول اس میںجیت جائے گالیکن بلاول کامیاب اپوزیشن لیڈر ثابت نہیں ہو گا۔ ‎جو تجزیہ کار یہ سوچ رہے ہیں کہ بلاول اسٹیبلشمنٹ کیلئے زیادہ قابل قبول ہوسکتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ پی پی کے کھیسے میں’ پاکستان کھپے‘ ڈال دیا جائے ان کا تجزیہ درست نہیں ، ہنوز دلی دوراست ۔ اس مرتبہ ایم کیو ایم کی پوزیشن نسبتاً بہتر رہے گی اور وہ حسبِ روایت اقتدار کا حصہ بنے گی ۔ پی پی والے پی ٹی آئی کے زوال سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے پنجاب کو فتح کرنے کا خواب 8فروری کو بھی خواب ہی رہے گا۔ ن لیگ کی بدقسمتی ہے کہ اس نے اپنی سولہ ماہ کی حماقتوں سے اپنا اتنا نقصان کیا ہے کہ آج اس کی قیادت میدان خالی ہونے کے باوجود ٹوتھرڈ میجارٹی کا خواب نہیں دیکھ پارہی۔ یہ تو وہ نوازشریف کے نام کو دعا دیں جو اتنی تباہ کاریوں کے باوجود بک رہا ہے اور وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آرہے ہیں،ن لیگ نہ صرف وفاق میں بغیر پی پی کی بیساکھی کے حکومت بنائے گی بلکہ پنجاب اور بلوچستان میں بھی ن لیگ کی حکومتیں بنیں گی، سندھ فی الحال پی پی کے پاس رہے گا لیکن کے پی میں دلچسپ کھچڑی پکے گی اس کا جوڑ توڑ خبروں کی زینت بنا رہے گا۔ ‎ہماری دینی سیاست ان دنوں خاصی بے حال ہے مولانا فضل کی جو پکی سیٹیں ہیں وہ تو انہیں ضرور مل جائیں گی لیکن ان کا ن لیگ سے سیٹ ایڈجسمنٹ میں محدود رہنا مولانا کیلئے نیک شگون ثابت نہیں ہوگا، لبیک والوں کی تمنائیں حسرتیں بن کر ہی رہ جائیں گی جبکہ جماعت اسلامی کی اندرونی صفوں میں یہ سوال ابھرے گا کہ وہ تنہا پرواز سے جوکمائی کرتے ہیں اس سے کہیں بہتر ثمرات وہ اتحادی سیاست سے حاصل کرسکتے ہیں جیسے کہ پہلے کرتے رہے ہیں۔

امریکی سینٹرل کمانڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ ہلاک حزب اللّٰہ کا کمانڈر امریکی فورسز پر حالیہ حملوں میں براہ راست ملوث تھا۔

مساجد میں درود و سلام اور نعت خوانی کی محفلیں ہورہی ہیں جبکہ مساجد میں چراغاں کیا گیا ہے۔

پاکستان سُپر لیگ نائن کا شاندار ایونٹ اس مرتبہ برطانیہ میں جیو نیوز پر اسکائی چینل سیون تھری فور پر براہ راست فری ٹو ایئر نشر کیا جائے گا۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ بیلٹ پیپر چھیننے کے ویڈیوثبوت ہیں، الیکشن کمیشن واقعے کا نوٹس لے۔

گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے صوبے کے عوام سے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اپیل کی ہے۔

پاکستانی کوہ پیماؤں نے ارجنٹائن کی چوٹی ماؤنٹ اکونکاگوا کو سر کرلیا۔

عام انتخابات کیلئے پورے پاکستان میں 90 ہزار 675 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی تاریخ ہے کہ ہم سیاسی انتقام نہیں لیتے۔

ستمبر 2021 سے لیزنگ کمپنی سے تنازعہ کے باعث طیارے جکارتہ میں پھنسے تھے،

میئر کراچی مرتضٰی وہاب نے کہا ہے کہ عباسی شہید اسپتال کو بند کرنے کی خبر جھوٹی ہے۔

نگراں حکومت میں عام انتخابات سے ایک روز قبل صحت سہولت پروگرام کو 30 جون تک توسیع دے دی گئی۔

11 مارچ تک بینک اکاؤنٹس اور سرمایہ کاری کی تفصیلات جمع کروائی جائیں گی،

یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی کوششوں کے حوالے سے خبر ایجنسی کا کہنا ہے کہ قطر اور مصر کے مجوزہ فریم ورک پر حماس نے اپنی تجاویز دے دیں۔

راجہ بشارت نے دعویٰ کیا ہے کہ کل ہم این اے 55 کی سیٹ بھاری لیڈ سے جیتیں گے۔

بھارتی ریاست اتر اکھنڈ میں متنازع یونیفارم سول کوڈ بل منظور کرلیا گیا۔ نئی دہلی سے بھارتی میڈیا کے مطابق اتر اکھنڈ یکساں سول کوڈ بل منظور کرنے والی بھارت کی پہلی ریاست بن گئی۔

لندن میں اولڈ بیلی کرمنل کورٹ کے نزدیک دھماکوں کے بعد عدالت کو خالی کرا لیا گیا، عدالتی کارروائی بھی روک دی گئی۔

QOSHE - افضال ریحان - افضال ریحان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

افضال ریحان

14 1
08.02.2024

تضادستان کی پون صدی پر محیط ہسٹری انتخابات پر اعتراضات و تلخ حقائق سے آلودہ ہے۔ سوائے 1970ء والے انتخابات کے جن کے نتائج کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا کیونکہ جو طاقتوران دنوں اقتدار پر براجمان تھے وہ انتقال اقتدار کیلئےتیار ہی نہیں تھے،نتیجتاً ملک ٹوٹ گیا۔ 77ء کے انتخابات میں اقتدار کے حریص سویلین شخص نےخود عسکریوں کو موقع دے دیا کہ وہ اقتدار حاصل کر لیں۔ 1985ء کے انتخابات مخصوص مقاصد کے تحت غیر جماعتی طور پر منعقد کروائے گئے جنکے منفی اثرات آج بھی ہماری قومی سیاست میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ ‎88ء کے انتخابات جن حالات میں منعقد ہوئے ان میں جمہوری قیادت کوجیسی کامیابی ملی وہ بھی غنیمت تھی مگر ایسی کڑی شرائط لگائی گئیں جن میں انتقالِ اقتدار نہیں شراکتِ اقتدار کا جمہوریت کے حق میں کمزور ترین فارمولا تشکیل پایا۔مابعد یہی فارمولا 90، 93اور 97سے ہوتا ہوا 2002ء ، 2008ء، 2013ءاور 2018ء تک پہنچا اور جوں کا توں آج 2024ء تک جاری و ساری ہے۔اس امر میں کوئی اشتباہ نہیں کہ اس دورانیے میں سویلینز اتھارٹی منوانےکیلئےبی بی اور میاں صاحب کے دو نام ضرور ابھر کر سامنے آئے مگر ایک کو مروادیا گیا اور دوسرے کی خوش بختی یا دانشمندی کہ جیل یاترا یا جلاوطنی پر اکتفا کیا گیا۔ ان دو کے علاوہ اس درویش کو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں ہمیشہ ”قومی مقابلۂ چاپلوساں“ جاری و ساری رہا اور آج بھی جاری ہے۔ ‎ سابق کھلاڑی کو میڈیا یا سوشل میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیاجاتا ہے کہ جیسے وہ سویلین اتھارٹی منوانے کیلئے قید و بند کی صعوبتیں اٹھارہا ہے ۔ حالانکہ ایسی بات کہیں سرے سے موجود ہی نہیں اسے بھلا آئین، جمہوریت ،ہیومن رائیٹس یا سویلین اتھارٹی سے کیا غرض اس کا اول و........

© Daily Jang


Get it on Google Play