اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے نئے کرنسی نوٹوں کے اجرا کی تیاریوں سے متعلق خبریں میڈیا میں آنے کے بعد ملک میں دوبارہ یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ آیا اس اقدام سے معیشت کو کالے دھن سے پاک کرنے میں مدد ملے گی یا یہ موقع بھی ایک روایتی مشق کر کے ضائع کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے اب تک سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق نئے کرنسی نوٹوں کی تیاری میں دو برس لگیں گے اور اس ساری تگ و دو کا مقصد نئے نوٹوں میں جدید سیکورٹی فیچرز متعارف کروانا بتایا گیا ہے جس کے لئے نئے کرنسی نوٹوں کا رنگ، سیریل نمبرز، ڈیزائن بھی مختلف ہو گا اور ان میں ہائی سیکورٹی فیچرز ہوں گے تاکہ جعلی نوٹوں کی روک تھام ہو سکے۔ علاوہ ازیں ا سٹیٹ بینک نے یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ نئے کرنسی نوٹ جاری ہونے کے بعد بھی پرانے کرنسی نوٹ فوری طور پر منسوخ نہیں کئے جائیں گے بلکہ پرانے کرنسی نوٹ منسوخ یا تبدیل کرنے کا فیصلہ بتدریج اور مرحلہ وار کیا جائے گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں دنیا میں کرنسی کی گردش کی شرح جی ڈی پی کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ا سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت سات ہزار 680 ارب روپے مالیت کے کرنسی نوٹ اور سکے گردش میں ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں کرنسی نوٹ زیرگردش ہونے کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے افراطِ زر یعنی مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ا سٹیٹ بینک کا یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ طویل عرصے سے معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ علاوہ ازیں معاشی بحران کی وجہ سے ہی پاکستان اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ نو ماہ پر مشتمل اسٹینڈ بائی پروگرام پر بھی عمل درآمد کر رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے اور اس کے معیشت پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اگر تو یہ اقدام جعلی کرنسی نوٹوں کی روک تھام تک محدود رہتا ہے تو اس سے ملک کو زیادہ فائدہ ہونے کی امید نہیں ہے۔ تاہم اگر کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کے ذریعے معیشت کو دستاویز ی بنانے اور کالے دھن سے پاک کرنے کے اہداف حاصل کئے جائیں تو یہ اقدام ملک اور قوم کے لئےفائدے کا باعث ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ نئے کرنسی نوٹوں کے اجرا کے بعد ایک مخصوص مدت میں پرانے کرنسی نوٹ منسوخ کر دیئے جائیں تاکہ جن لوگوں نے اربوں، کھربوں روپے کا کالا دھن چھپا رکھا ہے اسے دستاویزی معیشت کا حصہ بنایا جا سکے۔ اس کے لئے یہ کیا جا سکتا ہے کہ پرانے کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کا کام بینکوں کے ذریعے سرانجام دیا جائے اور جو شخص بھی کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کے لئے بینکوں سے رجوع کرے اسے نئے کرنسی نوٹوں کی نقد ادائیگی کرنے کی بجائے اس کا بینک اکائونٹ کھول کر یہ رقم اس میں جمع کر دی جائے۔ علاوہ ازیں ایسے افراد کو فوری طور پر بطور ٹیکس دہندہ رجسٹرڈ کیا جائے اور ذرائع آمدنی کی وضاحت نہ کرنے والوں پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے۔ اس طرح نہ صرف بینکوں کے پاس بڑی مقدار میں ڈیپازٹ آ جائیں گے بلکہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں بھی فوری طور پر نمایاں اضافہ کیا جا سکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہئے کہ پانچ ہزار روپے والے مزید نوٹ چھاپنا بند کردے کیوں کہ یہ نوٹ درحقیقت ملک میں بدعنوانی کا پیسہ آسانی سے چھپانے اور رشوت کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے اگر پاکستان اور بھارت کا موازنہ کیا جائے تو یہ بات عجیب محسوس ہوتی ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی بڑی معیشت ہے لیکن وہاں پانچ ہزار کا نوٹ نہیں ہے۔ پانچ ہزار کا نوٹ ان لوگوں کے لئے ایک طرح کی سہولت کاری ہے جو کہ کیش کی اسمگلنگ کرتے ہیں یا کالا دھن جمع کرکے اسے منی لانڈرنگ اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان کو اس وقت جس معاشی بحران کا سامنا ہے اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں موجود کالے دھن کی فراوانی اور غیر دستاویزی معیشت ہے۔ اس طرح ایک طرف حکومت کے پاس ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو رہا ہے اور دوسری طرف قانونی طریقے سے کاروبار کرنے والے نجی اداروں کو مارکیٹ میں غیر منصفانہ مسابقت کا سامنا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی عشروں کی محنت سے صنعتی ادارے بنانے والے بڑے بڑے سرمایہ دار تو ملک میں جاری معاشی بحران کی وجہ سے سخت مالی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ کالے دھن اور غیر دستاویزی معیشت سے وابستہ عناصر کی دولت میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی جاری ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں کالے دھن یا بلیک اکانومی کا مجموعی حجم ایک کھرب ڈالر سے بھی زیادہ ہے اور اس کا بڑا حصہ بدعنوانی، ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ اور دیگر غیر قانونی پوشیدہ معاشی سرگرمیوں پر مشتمل ہے۔ کالے دھن کی اس فراوانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کو عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے چند ارب ڈالر حاصل کرنے پر کن کڑی شرائط اور معاشی پابندیوں کا سامناہے حالانکہ یہ رقم ملک کی مجموعی بلیک اکانومی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ایسے میں اگر نئے کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کو صرف جعلی کرنسی نوٹوں کے خاتمے کی روایتی کوششوں تک ہی محدود رکھا گیا تو یہ افسوسناک ہو گا کیونکہ دو سال تک جاری رہنے والے اس طویل عمل پر بھی قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ ہوں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق شہباز شریف لاہور کے حلقہ این اے 123 سے 63953 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔

غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق مریم نواز کے مدمقابل آزاد امیدوار مہر شرافت 21491 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ ن کا اپنا الیکشن سیل ہے جس میں تمام رزلٹ مرتب کیا جارہا ہے، طریقہ کار کے مطابق فارم 45 حاصل کرکے رزلٹ فائنل کیا جارہا ہے۔

ابھی کسی جماعت کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ نہیں ہوا، ہم انٹرا پارٹی الیکشن کرائیں گے، بیرسٹر گوہر علی خان کا دعویٰ

مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ بیرسٹر گوہر جو مرضی کہیں، نتائج کے بعد دعوے زیادہ مناسب ہونگے، پُرامید ہوں نواز شریف ہی وزیراعظم ہوں گے۔

پیپلز پارٹی نے اب تک سندھ اسمبلی کی 27 نشست جیت اپنے نام کرلی ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے خیبر پختونخوا اسمبلی کے 2 حلقوں کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا۔

مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ جب تک نتائج 50 فیصد سے زیادہ نہ ہوجائیں، حتمی ٹرینڈ کا کچھ نہیں کہہ سکتے۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کراچی کے نتائج کی تاخیر و ابہام کو جلد از جلد ختم کرے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کا کہنا ہے کہ آر اوز نے 30 منٹ میں مکمل نتائج نہ بھیجے تو معطل کردوں گا۔

مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف تقریر کیے بغیر ماڈل ٹاؤن سیکرٹریٹ سے روانہ ہوگئے، پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز بھی ہمراہ تھیں، الیکشن کمیشن کی جانب سے ٹاؤن ہال میں بڑی اسکرین پر رزلٹ بھی نہ دکھایا گیا۔

آر او آفس این اے 55 کے آفس میں میڈیا نمائندگان کا داخلہ بھی بند کردیا گیا ہے۔

فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ توقع یہی تھی کہ آزاد امیدوار کو برتری رہے گی۔

الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق الیکشن کمیش مصدقہ نتائج مرتب کررہا ہے۔

ولید اقبال نے کہا کہ جس قسم کےحالات کا ہمیں سامنا تھا اس میں ان نتائج کا آنا حوصلہ افزا ہے،

ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن اور وزارت داخلہ نے اس سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کر رکھا ہے۔

QOSHE - چوہدری سلامت علی - چوہدری سلامت علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

چوہدری سلامت علی

8 0
09.02.2024

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے نئے کرنسی نوٹوں کے اجرا کی تیاریوں سے متعلق خبریں میڈیا میں آنے کے بعد ملک میں دوبارہ یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ آیا اس اقدام سے معیشت کو کالے دھن سے پاک کرنے میں مدد ملے گی یا یہ موقع بھی ایک روایتی مشق کر کے ضائع کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے اب تک سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق نئے کرنسی نوٹوں کی تیاری میں دو برس لگیں گے اور اس ساری تگ و دو کا مقصد نئے نوٹوں میں جدید سیکورٹی فیچرز متعارف کروانا بتایا گیا ہے جس کے لئے نئے کرنسی نوٹوں کا رنگ، سیریل نمبرز، ڈیزائن بھی مختلف ہو گا اور ان میں ہائی سیکورٹی فیچرز ہوں گے تاکہ جعلی نوٹوں کی روک تھام ہو سکے۔ علاوہ ازیں ا سٹیٹ بینک نے یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ نئے کرنسی نوٹ جاری ہونے کے بعد بھی پرانے کرنسی نوٹ فوری طور پر منسوخ نہیں کئے جائیں گے بلکہ پرانے کرنسی نوٹ منسوخ یا تبدیل کرنے کا فیصلہ بتدریج اور مرحلہ وار کیا جائے گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں دنیا میں کرنسی کی گردش کی شرح جی ڈی پی کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ا سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت سات ہزار 680 ارب روپے مالیت کے کرنسی نوٹ اور سکے گردش میں ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں کرنسی نوٹ زیرگردش ہونے کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے افراطِ زر یعنی مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ا سٹیٹ بینک کا یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ طویل عرصے سے معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ علاوہ ازیں معاشی بحران کی وجہ سے ہی پاکستان اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ نو ماہ پر مشتمل اسٹینڈ بائی پروگرام پر بھی عمل درآمد کر رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کی........

© Daily Jang


Get it on Google Play