الیکشن 2024ء کے پرامن اور منصفانہ انعقاد پر پاکستان الیکشن کمیشن اور ملک کے تمام جمہوریت نواز طبقات کو مبارک ہو ،بلاشبہ ان انتخابات میں خلاف توقع کسی ایک پارٹی کو سمپل میجارٹی حاصل نہیں ہوسکی ،تینوں صوبوں میں تینوں قیادتوں کو حصہ بقدر جثہ مل گیا ہے جس طرح سندھ میں پی پی کی حکومت بنے گی اسی طرح پنجاب میں ن لیگ کی اور کے پی میں بیرسٹر گوہر خاں کی نگرانی میں پی ٹی آئی کے آزادوں کی حکومت تشکیل پائے گی جبکہ بلوچستان میں وفاق کی طرح مخلوط حکومت بنے گی۔ یہ امر بھی واضح رہے کہ ن لیگ اگرچہ توقعات کے برعکس سمپل میجارٹی حاصل نہیں کرسکی لیکن نئی پارلیمنٹ میں وہ پاکستان کی سب سے بڑی پاپولر پارٹی کی حیثیت سے ضرور ابھری ہے۔ ایسے میں جہاں یہ امکان موجود ہے کہ ن لیگ پی پی کو ساتھ ملا کر مخلوط حکومت بنائے وہیں یہ گنجائش بھی نکالی جاسکتی ہے کہ پی پی، پی ٹی آئی کے ساتھ ایکا کرلے لیکن اس کا امکان کم ہے، زیادہ امکان یہی ہے کہ ن لیگ زیادہ سے زیادہ آزادلوگوں کو ساتھ ملا کر وفاق میں حکومت بنالے۔ اگر پی پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تو ظاہر ہے اس میں اگر نوازشریف وزیراعظم بنتے ہیں تو صدر، آصف زرداری کو بنانا ہوگا، اغلب امکان یہی ہے کہ نواز شریف اپنے روایتی اتحادیوں اور آزادوں کو ساتھ ملا کر وفاق اور پنجاب میں حکومتیں بنائیں گے۔ ‎درویش ان انتخابی نتائج کا ایک مثبت اور ایک منفی پہلو واضح کرنا چاہتا ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ ان انتخابی نتائج کے بعد کسی بھی پارٹی کے پاس یہ گنجائش نہیں رہی کہ وہ انتخابات کی شفافیت پر معترض ہو اور انہیں سبوتاژ کرنے کیلئے کسی احتجاجی تحریک کا ڈول ڈال سکے۔ اگرچہ عبوری سیٹ اپ یا الیکشن کمیشن پر اس نوع کے اعتراضات کیے جاسکتے ہیں کہ انہوں نے دن بھر غیر ضروری طور پر کیوں موبائل فونز اور انٹرنیٹ سروسز بند کیے رکھیں جس سے نہ صرف سیاسی لوگوں کو بلکہ عام ووٹروں کو بھی سخت مشکلات پیش آئیں اور ووٹوں کو دور دراز پھینکا گیا،انتخابی عملے کی مشکلات بھی واضح ہیں، یوں انتخابی نتائج بروقت پہنچانے میں الجھنیں درپیش رہیں۔البتہ انتخابی شفافیت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہے کہ ن لیگ کے گڑھ لاہور میں نہ صرف مخالف امیدواران کو اچھے خاصے ووٹ ملے بلکہ حافظ نعمان کے بالمقابل میاں اظہر اور سعد رفیق کے بالمقابل لطیف کھوسہ جیت گئے۔یہ بھی واضح رہے کہ جیتنے والے تمام آزاد، پی ٹی آئی والے نہیں،بہت سے دیگر بھی ہیں نیز مخصوص آزادوں پر بھی قانونی بندشیں تو نہیں، وہ نو تشکیل پاتی حکومت کا حصہ کیوں نہیں بن سکتے ؟ نوازشریف کو کہا تھا کہ اپنے بھائی، سمدھی اور داماد سے فاصلہ رکھیں مگر انہوں نے احتیاط نہ برتی بلکہ کھلاڑی کا جو کچراانہوں نے اٹھایا تھا میاں صاحب نے اسے اون کرلیا اور عوامی رابطہ مہم میں بھی کمی رہی۔ ‎2024ء کے انتخابی نتائج کا منفی پہلو یہ ہے کہ کسی بھی پارٹی کو سمپل میجارٹی نہ ملنے سے یہاں ایک مضبوط و توانا جمہوری حکومت تشکیل نہیں پاسکے گی جو اس وقت سیاسی عدم استحکام اور زبوں حال و بدحال ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ضروری تھی۔ ابھی عبوری سیٹ اپ سے پہلے سولہ ماہ جس ناتواں مخلوط حکومت کا تجربہ کیا گیا اسکی قیمت نہ صرف ن لیگ کو بلکہ خود اس ملک اور اس کی تباہ حال معیشت کو چکاناپڑی ہے۔ جب مضبوط و مستحکم سیاسی و جمہوری حکومت نہیں بنتی تو طاقت کا توازن غیر منتخب قوتوں کے پاس چلا جاتاہے۔ نتیجتاً قومی پالیسی سازی عوامی امنگوں کے مطابق نہیں طےہو پاتی، عوامی مفاد میں بڑے بڑے اقدامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں لیکن اگر یہ سب لوگ مل بیٹھ کر یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم نے قومی و عوامی مفاد کو ہرچیز پر فائق رکھنا ہے اور ایک دوسرے کو اعتماد میں لے کر اس طرح آگے بڑھنا ہے کہ آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر حرف نہ آئے تو ایک نوع کے چیک اینڈ بیلنس کے ساتھ جمہوریت کی گاڑی آگے بڑھ سکتی ہے آخر ویسٹ میں بھی تو ایسی مثالیں موجود ہیں کہ صرف ایک سیٹ کی میجارٹی کے ساتھ جمہوریتیں اپنا عرصہ خوش اسلوبی سے پورا کرلیتی ہیں۔ اصل چیز جس کی یہاں ضرورت ہے وہ آئین کی مطابقت میں نہ صرف شخصی بلکہ ایک دوسرے کے عوامی مینڈیٹ کا احترام ، رواداری و برداشت کا جذبہ ہے۔ ‎ان انتخابی نتائج نے یہ بھی سمجھایا ہے کہ اگر آپ سچی لگن سے کھڑے ہوں تو مقتدرہ بھی آپ کو آؤٹ نہیں کرسکتی نہ ہی اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھاسکتی ہے عوامی طاقت کےسامنے کسی کی اتھارٹی نہیں، کے پی میں پختون بھائیوں نے یہ جتلادیا ہے کہ دوستی اور وفا نبھانا کسے کہتے ہیں۔ ولی خاں صاحب کیا خوب کہا کرتے تھے کہ دوستی میں پختون کا ہاتھ کٹ سکتا ہے چھوٹ نہیں سکتا۔ البتہ سنٹرل پشاور سے نورعالم صاحب کی جیت پر سب سے زیادہ خوشی ہوئی ہے یہی وہ شخصیت ہے جس کی حق گوئی و بے باکی سے یہ سارا ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا تھا، دوسری بڑی خوشی راجہ سلمان کے با لمقابل عون چوہدری کی جیت پر ہے۔ خوش کن امر یہ بھی ہے کہ درویش کے تقریباً تمام دوست اور مہربان سرخرو ہوئے ہیں۔ احسن اقبال، رانا تنویر حسین، رانا احمد عتیق، سردار ایاز صادق، ملک برادران، خواجہ عمران نذیر، خواجہ سلمان رفیق، پیراشرف رسول، چوہدری حسان ریاض جیسے پیارے دوستوں کو مبارک ہو۔ ن لیگ والے پریشان نہ ہوں کے پی کی صورتحال پہلے ہی سامنے تھی البتہ پنجاب اور وفاق میں حکومت انہی کی بننے جارہی ہے تمام سیاسی جماعتوں اور قیادتوںپر لازم ہے کہ جمہوریت کے بدیہی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دل بڑا کریں، حوصلہ رکھیں ایک دوسرے کی جیت پر مبارکباد دیں اور عہد کریں کہ ہم نے محض نعرےبازی کی بجائے،محنت لگن اور خدمت سے عوام کا دل جیتنا ہے۔

سابق وزیراعظم نے الیکشن کمیشن میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا کہ مانسہرہ کے کئی علاقوں میں برف باری کے باعث رابطوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔

خواہش ہے جس پارٹی کو مینڈیٹ ملا اُسے حکومت بنانے دی جائے، رؤف حسن

سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اپنے بیٹوں سمیت پنجاب سے قومی اسمبلی کی 3 اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ 30 گھنٹے بعد پتہ چلا جس سیٹ پر میں جیت رہا تھا وہاں پیپلز پارٹی کا امیدوار جیت گیا۔

کراچی کے حلقہ این اے 241 کراچی جنوبی 3 سے غیر حتمی غیر سرکاری نتیجے کے مطابق پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ جیت گئے۔

استحکام پاکستان پارٹی کی رہنما فردوس عاشق اعوان نے ایک پولیس اہلکار کو تھپڑ مار دیا، ان کے اس تھپڑ کی ویڈیو بھی سامنے آ گئی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پاکستانی انتخابات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں لاکھوں پاکستانیوں نے اپنا فیصلہ سنایا۔

دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں حکومت سازی پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے خواہاں ہیں۔

بھارتی فلموں اور ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ مونا سنگھ نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے اپنے مشہور ڈرامے جسی جیسی کوئی نہیں (جو کہ 2003 سے 2006 تک آن ایئر رہا) کے بارے میں بتایا کہ وہ اس شو سے ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے کمایا کرتی تھیں۔

سری لنکا کے اوپننگ بیٹر پاتھم نسانکا ایک روزہ کرکٹ میں ڈبل سنچری اسکور کرنے والے 12 ویں بیٹر بن گئے، یہ کسی بھی سری لنکن بیٹر کی پہلی ڈبل سنچری ہے۔

آئیں مل کر اس جاگیردارانہ وڈیرانہ نظام کو چیلنج کریں: خالد مقبول صدیقی

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے قلعہ سیف اللہ میں خفیہ اطلاع پر آپریشن کیا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سینٹرل کنٹریکٹ یافتہ کھلاڑیوں کا سوشل میڈیا پر سوالات و جوابات کے سیشن میں شرکت کا بورڈ نے نوٹس لے لیا۔

عام انتخابات کیلئے پولنگ مکمل ہونے کے بعد غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے جہاں کراچی کے نتائج بھی سامنے آگئے۔

QOSHE - افضال ریحان - افضال ریحان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

افضال ریحان

12 27
10.02.2024

الیکشن 2024ء کے پرامن اور منصفانہ انعقاد پر پاکستان الیکشن کمیشن اور ملک کے تمام جمہوریت نواز طبقات کو مبارک ہو ،بلاشبہ ان انتخابات میں خلاف توقع کسی ایک پارٹی کو سمپل میجارٹی حاصل نہیں ہوسکی ،تینوں صوبوں میں تینوں قیادتوں کو حصہ بقدر جثہ مل گیا ہے جس طرح سندھ میں پی پی کی حکومت بنے گی اسی طرح پنجاب میں ن لیگ کی اور کے پی میں بیرسٹر گوہر خاں کی نگرانی میں پی ٹی آئی کے آزادوں کی حکومت تشکیل پائے گی جبکہ بلوچستان میں وفاق کی طرح مخلوط حکومت بنے گی۔ یہ امر بھی واضح رہے کہ ن لیگ اگرچہ توقعات کے برعکس سمپل میجارٹی حاصل نہیں کرسکی لیکن نئی پارلیمنٹ میں وہ پاکستان کی سب سے بڑی پاپولر پارٹی کی حیثیت سے ضرور ابھری ہے۔ ایسے میں جہاں یہ امکان موجود ہے کہ ن لیگ پی پی کو ساتھ ملا کر مخلوط حکومت بنائے وہیں یہ گنجائش بھی نکالی جاسکتی ہے کہ پی پی، پی ٹی آئی کے ساتھ ایکا کرلے لیکن اس کا امکان کم ہے، زیادہ امکان یہی ہے کہ ن لیگ زیادہ سے زیادہ آزادلوگوں کو ساتھ ملا کر وفاق میں حکومت بنالے۔ اگر پی پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تو ظاہر ہے اس میں اگر نوازشریف وزیراعظم بنتے ہیں تو صدر، آصف زرداری کو بنانا ہوگا، اغلب امکان یہی ہے کہ نواز شریف اپنے روایتی اتحادیوں اور آزادوں کو ساتھ ملا کر وفاق اور پنجاب میں حکومتیں بنائیں گے۔ ‎درویش ان انتخابی نتائج کا ایک مثبت اور ایک منفی پہلو واضح کرنا چاہتا ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ ان انتخابی نتائج کے بعد کسی بھی پارٹی کے پاس یہ گنجائش نہیں رہی کہ وہ انتخابات کی شفافیت پر معترض ہو اور انہیں سبوتاژ کرنے کیلئے کسی احتجاجی تحریک کا ڈول ڈال سکے۔ اگرچہ عبوری سیٹ اپ یا الیکشن کمیشن پر اس نوع کے اعتراضات کیے جاسکتے ہیں کہ انہوں نے دن بھر غیر ضروری طور پر کیوں موبائل فونز اور انٹرنیٹ سروسز بند کیے رکھیں جس سے نہ صرف سیاسی لوگوں کو بلکہ عام ووٹروں کو بھی سخت مشکلات پیش آئیں اور ووٹوں کو دور دراز........

© Daily Jang


Get it on Google Play