انتخابات کا عمل مکمل ہو چکا اور حکومت سازی کے عمل کا آغاز ہو گیا ۔ جب انتخابی مہم جاری تھی تو یہ اندازہ قائم کیا جا رہا تھا کہ نتائج کیا بر آمد ہو سکتے ہیں۔ ان دنوں میرے ایک قریبی دوست نے مجھ سے کہا کہ سوشل میڈیا پر مہم زور و شور سے جاری ہے اور اس کا اصل ہدف صرف نواز شریف کی ذات کو بنایا جا رہا ہے مگر اس کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کی جانب سے سوشل میڈیا پر مہم اور جوابی کارروائی بہت کمزور ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟ میرا جواب تھا کہ اس وقت مسلم لیگ ن بطور سیاسی جماعت میڈیا کے تینوں محاذوں پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر کوئی حکمت عملی کامیابی سے اختیار نہیں کر سکی ہے اور صرف نواز شریف کی ذاتی مقبولیت ایسا واحد فیکٹر ہے جو ان انتخابات میں مسلم لیگ ن کو حاصل ہے ۔ اور ہوا بھی ایسا ہی، درحقیقت صرف نواز شریف کی شخصیت کی کشش نے مسلم لیگ ن کے ووٹران کو پولنگ اسٹیشن تک آنے پر مجبور کر دیا جبکہ بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ ن اس طرح فعال محسوس نہیں ہوئی جس طرح کی صلاحیت اس جماعت کو حاصل ہے ۔ مسلم لیگ ن کو پنجاب میں دو تہائی اکثریت سے زائد سے کامیاب ہونا چاہئے تھا اس جماعت کو صرف اس پر خوشی نہیں منانی چاہئے کہ وہ پنجاب میں سادہ اکثریت حاصل کر گئی ہے ۔ ایسا کیوں ہوگیا ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ میڈیا کے محاذ پر کارکردگی تسلی بخش تو کیا رہتی کچھ بھی نہیں رہی ورنہ پنجاب کے عوام کے سامنے دو حکومتی ادوار کی کارکردگی کا موازنہ تھا ۔ عثمان بزدار اور شہباز شریف ، عثمان بزدار کے دور پر کوئی ان کی جماعت کا ناقد تنقید کرے تو اس کو تعصب پر تصور کیا جا سکتا ہے مگر پرویز الٰہی بطور سپیکر پنجاب اسمبلی اس دور کے حوالے سے کیا میڈیا پر آ کر کہتے تھے۔ سب کو پتا ہے پھر پرویز الٰہی بطور وزیر اعلیٰ بھی اس حوالے سے انہی خیالات کا اظہار کرتے رہے اور اب تو وہ پی ٹی آئی کے صدر بھی ہیں مگر اس سب کے باوجود پی ٹی آئی سے منسلک ووٹر نے پنجاب میں عثمان بزدار کارکردگی کو ووٹ دے دیے ، انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم لیگ ن کے ووٹر کو نا اس طرح متحرک کیا جا سکا جس طرح کرنا چاہئے تھا اور نہ ہی پی ٹی آئی کے ووٹر کو یہ سمجھایا جا سکا کہ کارکردگی کو معیار قرار دے کر ووٹ کا حق استعمال کرے ۔ مسلم لیگ ن کی میڈیا ٹیم بہت اچھے اور قیادت سے مخلص افراد پر مشتمل ہے مگر اس کو تسلیم کرکے کہ وہ اس محاذ پر کوئی جوابی بیانیہ تشکیل نہیں دے سکی آگے نہیں بڑھا جا سکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف نواز شریف کی ذاتی مقبولیت ، شخصیت نے انتخاب لڑا ہے ۔

ایک تصور یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت میں مہنگائی نے بہت نقصان پہنچا یا ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نقصان پی پی پی کو کیوں نہیں پہنچا وہ بھی تو پی ڈی ایم حکومت کا حصہ تھی پھر پی ٹی آئی نے خیبر پختون خوا کو دیوالیہ کے قریب پہنچا دیا مگر وہاں کوئی اثر کیوں نہیں پڑا صرف مہنگائی کو مسلم لیگ ن نے ہی کیوں بھگتا؟ ایک مسئلہ اور بھی پی ایم ایل این کے امید واروں کو درپیش رہا کہ مسلم لیگ ن نے اپنا انتخابی منشور بہت دیر سے جاری کیا اور اس کی وجہ سے امیدواروں کے پاس مستقبل کے منصوبوں کا کوئی خاکہ ہی نہیں تھا کہ وہ اس کو رائے دہندگان کے سامنے پیش کرتے ۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے شہری حلقوں میں برس ہا برس سے کچھ طے شدہ امیدوار ہیں جن کو ہی ٹکٹ دیا جاتا ہے اس کی وجہ سے دیگر متحرک افراد یہ تصور کر بیٹھے ہیں کہ ان کو کبھی بھی پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جائے گا اور یہ تصور پارٹی کیلئے محنت کرنے کی خواہش کو کمزور کر دیتا ہے جو کہ ان انتخابات میں بھی نقصان کا باعث بنا۔ جب ایک سابق گورنر کے انتخابات کے اگلے دن کے بیانات یہ لوگ سنتے ہیں تو سوال کرتے ہیں کہ ان لوگوں کو عہدوں پر فائز کرکے پارٹی کو کیا حاصل ہوا ۔ ایک وزیر خزانہ جب وزارت سے علیحدہ ہوئے تو سب سے بڑے ناقد بن گئے ۔ ان جیسے لوگ اچھے وقتوں میں پارٹی میں آئے ، اقتدار میں پہنچے اور جب دور ہوئے تو مخالفت کرنے میں ایک دن نہیں لگایا ۔ اب انتخابات تو گزر گئے ، حکومت سازی بھی ہو جائےگی مگر اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن اپنی تنظیم سازی کی جانب فوری طور پر توجہ دے ۔ ماضی میں مسلم لیگ ن کے اہم عہدے دار ہر صوبہ سے ہوا کرتے تھے ۔ اقبال ظفر جھگڑا تو مشرف دور میں آمریت کے خلاف بہت توانا آواز تھی اور ان کا تعلق کے پی کے سے ہے ۔ اب بھی تمام صوبوں کی مرکزی عہدوں میں نمائندگی ہونی چاہئے تا کہ قومی جماعت کا تصور مضبوط ہو سکے ، میڈیا کی تنظیم نو ہو ضمنی انتخابات اور سینیٹ کے آئندہ ماہ کے امید واروں کا چناؤ بہت اہمیت رکھتا ہے کہ اب میڈیا پر مسلم لیگ ن کا کیس ان ہی کو لڑنا ہے ۔ حکومت سازی کے بعد عوام کو براہ راست ریلیف فراہم کیا جائے ۔ میں نے انتخابات سے قبل محترم نواز شریف کو ذاتی طور پر یہ تجویز پیش کی تھی کہ حکومت میں آنے کے بعد کچھ روز مرہ کی ضروری اشیا کی قیمتوں کو منجمد کر دیا جائے کہ ان کی قیمت کسی طور نہ بڑھے ۔ محترم نواز شریف خود بھی اس بات پر بہت فکر مند نظر آئے تھے ۔اس لئے ایسے ہی براہ راست ریلیف عوام کو پہنچانا چاہئے تا کہ ان کو آئندہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

اس دن کے منائے جانے کا مقصد ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں خبروں اور معلومات کے حصول کیلئے ریڈیو کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق لاشیں شہر سے تقریباً 20 کلو میٹر کے فاصلے پر ملیں، لاشیں کچھ دن پرانی ہیں، تمام افراد کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم جمہوری عمل کا احترام بھی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس پارٹی کے پاس سب سے زیادہ ارکان ہوں اسے ہی حکومت بنانے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔

اجلاس میں انتخابی نتائج پر تحفظات اور حکومت یا اپوزیشن میں بیٹھنے سمیت دیگر آپشنز پر غور ہوگا۔

پیپلز پارٹی تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے لیے رابطہ کمیٹی بنائے گی جس کے ناموں کا اعلان آج کردیا جائے گا۔شیری رحمان

مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ مرکز میں ن لیگ سابقہ اتحادی جماعتوں سے مل کر مخلوط حکومت بنائے گی۔

قومی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر احسان اللّٰہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن 9 سے باہر ہوگئے۔

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ جب ملک مستحکم ہوجائے گا تو حکومت دوسری جماعت کو دینا دانش مندفیصلہ نہیں ہوگا،

پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے کہا ہے کہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں چاروں صوبوں کے مسائل پر بات چیت ہوئی ہے۔

سوشل میڈیا صارفین نے اس گیند پر دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے اسے ’صدی کی بہترین گیند‘ قرار دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب درخواست پر سماعت کریں گے۔

پولیس کے مطابق زیرحراست شخص نشے میں ہے اور متوفیہ کو اپنی بیوی بتاتا ہے۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے الیکشن 2024 میں آر اوز کی جانب سے انتخابی قوانین پر عدم عملدرآمد کا جائزہ جاری کر دیا۔

این اے251 ژوب سے جے یو آئی (ف) کے مولانا سمیع اللہ کامیاب ہوگئے۔ غیر حتمی و غیر سرکاری نتیجے کے مطابق ژوب کے قومی اسمبلی کے حلقہ251 سے جے یو آئی (ف) کے امیدوار کےووٹوں میں 1447ووٹ کا اضافہ ہوا ہے۔

QOSHE - محمد مہدی - محمد مہدی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد مہدی

10 11
13.02.2024

انتخابات کا عمل مکمل ہو چکا اور حکومت سازی کے عمل کا آغاز ہو گیا ۔ جب انتخابی مہم جاری تھی تو یہ اندازہ قائم کیا جا رہا تھا کہ نتائج کیا بر آمد ہو سکتے ہیں۔ ان دنوں میرے ایک قریبی دوست نے مجھ سے کہا کہ سوشل میڈیا پر مہم زور و شور سے جاری ہے اور اس کا اصل ہدف صرف نواز شریف کی ذات کو بنایا جا رہا ہے مگر اس کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کی جانب سے سوشل میڈیا پر مہم اور جوابی کارروائی بہت کمزور ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟ میرا جواب تھا کہ اس وقت مسلم لیگ ن بطور سیاسی جماعت میڈیا کے تینوں محاذوں پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر کوئی حکمت عملی کامیابی سے اختیار نہیں کر سکی ہے اور صرف نواز شریف کی ذاتی مقبولیت ایسا واحد فیکٹر ہے جو ان انتخابات میں مسلم لیگ ن کو حاصل ہے ۔ اور ہوا بھی ایسا ہی، درحقیقت صرف نواز شریف کی شخصیت کی کشش نے مسلم لیگ ن کے ووٹران کو پولنگ اسٹیشن تک آنے پر مجبور کر دیا جبکہ بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ ن اس طرح فعال محسوس نہیں ہوئی جس طرح کی صلاحیت اس جماعت کو حاصل ہے ۔ مسلم لیگ ن کو پنجاب میں دو تہائی اکثریت سے زائد سے کامیاب ہونا چاہئے تھا اس جماعت کو صرف اس پر خوشی نہیں منانی چاہئے کہ وہ پنجاب میں سادہ اکثریت حاصل کر گئی ہے ۔ ایسا کیوں ہوگیا ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ میڈیا کے محاذ پر کارکردگی تسلی بخش تو کیا رہتی کچھ بھی نہیں رہی ورنہ پنجاب کے عوام کے سامنے دو حکومتی ادوار کی کارکردگی کا موازنہ تھا ۔ عثمان بزدار اور شہباز شریف ، عثمان بزدار کے دور پر کوئی ان کی جماعت کا ناقد تنقید کرے تو اس کو تعصب پر تصور کیا جا سکتا ہے مگر پرویز الٰہی بطور سپیکر پنجاب اسمبلی اس دور کے حوالے سے کیا میڈیا پر آ کر کہتے تھے۔ سب کو پتا ہے پھر پرویز الٰہی بطور وزیر اعلیٰ بھی اس حوالے سے انہی خیالات کا........

© Daily Jang


Get it on Google Play