8؍ فروری کو ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے عام انتخابات ہوئے ۔ مجموعی طور پر یہ انتخابات پر امن، پر سکون اور خوشگوار ماحول میں شفافیت کیساتھ منعقد ہوئے۔ بدقسمتی سے کچھ لوگوں نے حسب روایت و عادت ان انتخابات کو بھی متنازعہ بنانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق جہاں انکے حمایت یافتہ لوگوں جیتے ہیں وہاں انتخابات بغیر کسی دھاندلی کے اور انتہائی شفاف ہوئے ہیں لیکن جہاں انکے لوگ ہارے ہیں وہاں یقیناً دھاندلی ہوئی ہے۔ ان کے اس موقف سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گویا پورے ملک میں ہر ووٹر نے انکے حمایت یافتہ امیدواران کو ووٹ دینا تھا لیکن دھاندلی کی وجہ سے دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والےکچھ لوگ جیت گئے۔ ان کا موقف یہ بھی ہے جس کا انہوں نے برملا اظہار بھی کیا ہے کہ اگر وفاق، پنجاب اور کے پی میں ان کو حکومت نہیں دی گئی تو امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں رہے گی۔ واضح الفاظ میں یہ کھلی دھمکی ہے کہ نہ تو وہ امن قائم ہونے دینگے نہ ہی حکومت کو چلنے دینگے۔ مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی میں زیادہ نشستیں جیتنے کے باوجود حالت پتلی ہے اور وہ وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھنے کے لئے ہر قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ حتیٰ کے نواز شریف کی قربانی دے کر شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے بلکہ اس کے علاوہ آدھی مدت کے لئے یہ منصب حاصل کرنے پر بھی راضی ہے۔ سیاست اور اقتدار بھی کیا چیز ہے۔ بعض لوگ اس دنیا کی چند روزہ زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اور اس کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اس سارے قصے میں برا نواز شریف کے ساتھ ہوا۔ جن لوگوں نے ان کو وطن واپسی اور انتخابی مہم کی قیادت کرنے پر آمادہ کیا اس یقین دہانی کے ساتھ کہ وہ ہی بھاری اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم ہوں گے۔ یعنی بلا شرکت غیرے۔ وہ سب دعوے غلط ثابت ہوئے بلکہ معاملہ ہی الٹ گیا۔ اس جماعت کو انتخابی نتائج کی صورت میں کئی سرپرائز ملے جو ان کی توقعات سے بالکل مختلف ہیں ۔ دوسری طرف وہ لوگ بھی غلط ثابت ہوئے کہ نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ لائی ہے اور وہ ہی ان کو وزیر اعظم بنانا چاہتی ہے۔ شاید نواز شریف کے بعض قریبی لوگوں نے بھی ان کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی لیکن ان تمام باتوں کو ایک طرف رکھ کر یہ سوال موجود ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو وہ نتائج کیوں نہیں مل سکے جس کی ان کو توقع نہیں بلکہ یقین تھا۔

اس ضمن میں باقی محرکات کے علاوہ دو چیزیں بہت اہم ہیں۔ پہلی یہ کہ پی ڈی ایم حکومت میں آصف علی زرداری نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوایا ان کو معلوم تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہر صورت اس کی شرائط کے مطابق اس سخت معاہدے کو بحال کرنا ہو گا جو سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے توڑا تھا۔ ان کو یہ بھی اندازہ تھا کہ نئی شرائط کے تحت بحال ہونے والے معاہدے سے مہنگائی کا ایک بڑا طوفان آئے گا اور چونکہ یہ حکومت عارضی ہے جس کے بعد انتخابات ہوں گے تو مہنگائی کی ذمہ داری مسلم لیگ (ن) پر آئے گی اور پیپلز پارٹی حکومت میں ہونے کے باوجود اس الزام سے بری الذمہ رہے گی جب کہ مسلم لیگ (ن) کے قائدین اس صورت حال کو سمجھنے کے باوجود اس لئے وزارت عظمیٰ لینے پر تیار ہوئے کہ وہ اپنے خلاف قائم مقدمات سےہر صورت نجات حاصل کرنا چاہتے تھے اور بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی کے فارمولے پر عمل پیرا ہو کر یہ منصب لینے پر تیار ہوئے۔ دوسری بات یہ کہ نواز شریف کو بعض لوگوں نے اتنا یقین دلایا تھا کہ انہوں نے عوامی رابطوں کا سلسلہ روک کر ڈرائنگ روم میں ٹکٹوں کی تقسیم پر سارا وقت ضائع کیا کہ جیتنا تو ویسے بھی ان ہی کو ہے۔ اس لئے انہوں نے صر ف چند شہروں میں جلسے کئے اور ان ہی کو کافی سمجھا گیا حالانکہ ان کی جماعت کے سرکردہ قائدین بشمول اور بالخصوص شہباز شریف اور مریم نواز یہ کہتے رہے کہ الیکشن مہم کی قیادت نواز شریف کریں گے لیکن ان کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر شہباز شریف اور مریم نواز نے زیادہ جلسے کیے علاوہ ازیں الیکشن سے دو تین دن قبل شہباز شریف کے اس بیان نے ماحول کو زیادہ خراب کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت ملنے کے بعد کچھ مزید سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ قوم جانتی تھی کہ اس کا مطلب مزید اور مزید مہنگائی ہے ۔ الغرض مسلم لیگ (ن) نے اس الیکشن میں وہ جان نہیں لڑائی جو وقت اور حالات کا تقاضا تھا ۔ نہ کوئی موثر بیانیہ نہ مستقبل کا مثبت خاکہ۔ بس ماضی یاد کرانے کو یہ بیانیہ بنا کر بھاری اکثریت سے کامیابی کا خواب دیکھتے رہے۔

جہاں تک آزاد امیدواروں کی اکثریت کا تعلق ہے یہ سب کے سب پی ٹی آئی والے نہیں ہیں ۔چند دنوں کی بات ہے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا لیکن پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ مستقبل میں بنیاد بنانے کا حربہ ہے اور اس کو بنیاد بنا کر وہ قائم حکومت کو چلنے نہیں دے گی ملک میں انتشار اور افراتفری کے ساتھ ساتھ دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے اور معیشت کو مزید کمزور کرنے کے لئے بطور فارمولا استعمال کیا جائے گا ۔ اس صورت حال میں نواز شریف کو اپنے ان لوگوں سے ضرور پوچھنا چاہیے جو ان کو یقین دہانیاں کروا کر لائے تھے۔ اگر کسی طرح کہیں کا اینٹ کہیں کا گارہ جوڑ کر مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی حکومت بنا بھی لیتی ہے تو یہ چند مہینے کی بات ہو گی۔ دوسری طرف اگر وفاق میں پی ٹی آئی کو حکومت دی جاتی ہے تو مارچ میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ اور جون تک قرضوں کی چند بھاری قسطوں کی واپسی ان کی زبردستی کی حکومت کے جلد ہی خاتمے کا باعث بنے گا البتہ مسلم لیگ (ن) کی طرح شاید ان کے بعض مقدمات ضرور ختم ہو سکتے ہیں۔ فائدے میں پیپلز پارٹی رہے گی اور شاید اس وجہ سے کسی کی وطن واپسی بھی ہو سکے۔

اس دن کے منائے جانے کا مقصد ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں خبروں اور معلومات کے حصول کیلئے ریڈیو کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق لاشیں شہر سے تقریباً 20 کلو میٹر کے فاصلے پر ملیں، لاشیں کچھ دن پرانی ہیں، تمام افراد کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم جمہوری عمل کا احترام بھی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس پارٹی کے پاس سب سے زیادہ ارکان ہوں اسے ہی حکومت بنانے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔

اجلاس میں انتخابی نتائج پر تحفظات اور حکومت یا اپوزیشن میں بیٹھنے سمیت دیگر آپشنز پر غور ہوگا۔

پیپلز پارٹی تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے لیے رابطہ کمیٹی بنائے گی جس کے ناموں کا اعلان آج کردیا جائے گا۔شیری رحمان

مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ مرکز میں ن لیگ سابقہ اتحادی جماعتوں سے مل کر مخلوط حکومت بنائے گی۔

قومی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر احسان اللّٰہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن 9 سے باہر ہوگئے۔

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ جب ملک مستحکم ہوجائے گا تو حکومت دوسری جماعت کو دینا دانش مندفیصلہ نہیں ہوگا،

پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے کہا ہے کہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں چاروں صوبوں کے مسائل پر بات چیت ہوئی ہے۔

سوشل میڈیا صارفین نے اس گیند پر دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے اسے ’صدی کی بہترین گیند‘ قرار دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب درخواست پر سماعت کریں گے۔

پولیس کے مطابق زیرحراست شخص نشے میں ہے اور متوفیہ کو اپنی بیوی بتاتا ہے۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے الیکشن 2024 میں آر اوز کی جانب سے انتخابی قوانین پر عدم عملدرآمد کا جائزہ جاری کر دیا۔

این اے251 ژوب سے جے یو آئی (ف) کے مولانا سمیع اللہ کامیاب ہوگئے۔ غیر حتمی و غیر سرکاری نتیجے کے مطابق ژوب کے قومی اسمبلی کے حلقہ251 سے جے یو آئی (ف) کے امیدوار کےووٹوں میں 1447ووٹ کا اضافہ ہوا ہے۔

QOSHE - ایس اے زاہد - ایس اے زاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایس اے زاہد

11 5
13.02.2024

8؍ فروری کو ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے عام انتخابات ہوئے ۔ مجموعی طور پر یہ انتخابات پر امن، پر سکون اور خوشگوار ماحول میں شفافیت کیساتھ منعقد ہوئے۔ بدقسمتی سے کچھ لوگوں نے حسب روایت و عادت ان انتخابات کو بھی متنازعہ بنانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق جہاں انکے حمایت یافتہ لوگوں جیتے ہیں وہاں انتخابات بغیر کسی دھاندلی کے اور انتہائی شفاف ہوئے ہیں لیکن جہاں انکے لوگ ہارے ہیں وہاں یقیناً دھاندلی ہوئی ہے۔ ان کے اس موقف سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گویا پورے ملک میں ہر ووٹر نے انکے حمایت یافتہ امیدواران کو ووٹ دینا تھا لیکن دھاندلی کی وجہ سے دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والےکچھ لوگ جیت گئے۔ ان کا موقف یہ بھی ہے جس کا انہوں نے برملا اظہار بھی کیا ہے کہ اگر وفاق، پنجاب اور کے پی میں ان کو حکومت نہیں دی گئی تو امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں رہے گی۔ واضح الفاظ میں یہ کھلی دھمکی ہے کہ نہ تو وہ امن قائم ہونے دینگے نہ ہی حکومت کو چلنے دینگے۔ مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی میں زیادہ نشستیں جیتنے کے باوجود حالت پتلی ہے اور وہ وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھنے کے لئے ہر قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ حتیٰ کے نواز شریف کی قربانی دے کر شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے بلکہ اس کے علاوہ آدھی مدت کے لئے یہ منصب حاصل کرنے پر بھی راضی ہے۔ سیاست اور اقتدار بھی کیا چیز ہے۔ بعض لوگ اس دنیا کی چند روزہ زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اور اس کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اس سارے قصے میں برا نواز شریف کے ساتھ ہوا۔ جن لوگوں نے ان کو وطن واپسی اور انتخابی مہم کی قیادت کرنے پر آمادہ کیا اس یقین دہانی کے ساتھ کہ وہ ہی بھاری اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم ہوں گے۔ یعنی بلا شرکت غیرے۔ وہ سب دعوے غلط ثابت ہوئے بلکہ معاملہ ہی الٹ گیا۔ اس جماعت کو انتخابی نتائج کی صورت میں کئی سرپرائز ملے جو........

© Daily Jang


Get it on Google Play