پارلیمانی سیاست میں اقتدار کے حصول کو ہی حتمی کامیابی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اقتدار کس قیمت پر مل رہا ہے، یہ بات سب سے اہم ہوا کرتی ہے۔ باوقار انداز میں حکومت بنانے کی کوشش کرنے اور اقتدار کی ہوس میں دیوانہ پن دکھانے میں بہت فرق ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو بات شہباز شریف نے منگل کے روز پریس کانفرنس میں کہی، وہی بات نواز شریف کی نام نہاد وکٹری اسپیچ میں کیوں نہ کہی گئی؟ تحریک انصاف کے بانی فرماتے ہیں، تین جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے کسی صورت اتحاد نہیں ہو سکتا۔ قومی اسمبلی میں اکثریت انہی تین جماعتوں کے پاس ہے۔ قومی اسمبلی کے 265حلقوں میں سے تقریباً 150 نشستوں پر انہی بڑی جماعتوں کے امیدوار کامیاب قرار پائے ہیں۔ اگر آزاد ارکان اسمبلی اور دیگر اتحادی جماعتوں کو بھی شمار کر لیا جائے تو یہ تعداد 170تک چلی جاتی ہے جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 93نشستوں پر کامیابی حاصل کی جن میں سے بمشکل 90نومنتخب ارکان پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ حکومت سازی کیلئے 133ارکان قومی اسمبلی کی حمایت درکار ہو گی۔ سوشل میڈیا پر جو مرضی جعلسازی کریں مگر تحریک انصاف ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی پنجاب اور وفاق میں حکومت نہیں بنا سکتی۔ یہ بات ہم سب کو بہت اچھی طرح سے معلوم ہے۔ موجودہ حالات میں کوئی ذمہ دار سیاسی جماعت اپنی مقبولیت اور سیاسی مستقبل دائو پر لگا کر ایک ایسی کمزور حکومت بنانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی جو مسائل حل نہ کر پائے اور عوام کے غیظ و غضب کا نشانہ بن جائے۔ تحریک انصاف کا معاملہ قدرے مختلف ہے، انہوں نے کارکردگی کے بجائے بیانیے کی بنیاد پر ووٹ لینا ہوتا ہے۔ ان کے ہاں ’’نک دا کوکا‘‘ اور ’’پروغرام تو وڑ گیا‘‘جیسے نعروں کے ذریعے بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد بھی ’’لوگوں کا شعور‘‘ بیدار کرنا ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں جس طرح کی ترقی گزشتہ دس برس میں ہوئی، اُمید ہے علی امین گنڈا پور اس کی رفتار میں مزید اضافے کا سبب بنیں گے اور بہت جلد صوبائی حکومت دیوالیہ ہو جائے گی۔


بہر حال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس قدر عجلت اور بیتابی و بے قراری کا اظہار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ میاں نواز شریف اپنی تقریر میں کہتے، ہمیں حکومت کا لالچ نہیں، نہ ہی وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کی خواہش ہے۔ اگر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار حکومت بنا سکتے ہیں تو جی بسم اللہ، ہم اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ یعنی جو بات شہباز شریف نے 13فروری کو کہی، وہی بات نواز شریف 9فروری کو کہہ دیتے تو کیا حرج تھا؟ اقتدار تو خود چل کر آپ کے پاس آنا ہی تھا مگر جہاں بانی و حکمرانی کا شوق انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ سننے میں آ رہا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے مریم نواز کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مرکز میں شہباز شریف وزیراعظم ہوں گے۔ کیا شریف خاندان کے علاوہ کسی رُکن پارلیمنٹ میں یہ اہلیت و قابلیت نہیں کہ صوبے یا پھر مرکز میں نئے چہرے سامنے لائے جا سکیں؟ ملک کو جس قدر مشکل حالات کا سامنا ہے، بہتر تو یہ ہوتا کہ ایک مضبوط اور مستحکم حکومت بنتی اور نواز شریف وزیر اعظم ہوتے لیکن یہ نہیں ہو پایا تو کیا گھر میں ہی اقتدار کی بندر بانٹ کر لی جائے؟ بالعموم جب موروثی سیاست کی بات ہوتی ہے تو مسلم لیگ (ن) کی طرح پیپلز پارٹی پر بھی تنقید ہوتی ہے اور بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ کیا قیادت کا جوہر صرف شریف اور بھٹو خاندان کی میراث ہے؟ لیکن سچ پوچھئے تو پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن)کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے۔ وہاں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے رہنما وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ سندھ میں قائم علی شاہ اور مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں، اب ناصر حسین شاہ کا نام زیر غور ہے۔ خورشید شاہ جیسے رہنما اپوزیشن لیڈر بنائے جا سکتے ہیں۔ مگر مسلم لیگ (ن) میں اتنا ظرف نہیں کہ شریف خاندان کے علاوہ کسی اور کو آگے لا سکے۔ گزشتہ انتخابات کے بعد صاف دکھائی دے رہا تھا کہ کامیابی کا کوئی امکان نہیں مگر وفاق میں شہباز شریف اور پنجاب میں ان کے فرزند حمزہ شہباز شریف کو نامزد کر دیا گیا۔ اب پھر وہی غلطی دہرائی جا رہی ہے شاید مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ایک ہی بات سیکھی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھنا۔

شراکت اقتدار کے حوالے سے میڈیا میں جو باتیں زیر گردش ہیں میری معلومات کے مطابق ان میں قطعاً کوئی حقیقت نہیں۔ پہلے تین سال مسلم لیگ (ن) کا وزیر اعظم ہو اور پھر دو سال کیلئے پیپلز پارٹی کا وزیر اعظم، ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ ایک لمحے کیلئے تصور کیجئے کہ اگر تین سال میں کسی حکومت نے کوئی کام کیا ہو گا تو وہ کیوں چاہے گی کہ اس کا کریڈٹ آنے والی حکومت لے اُڑے یا بصورت دیگر اگر تین سال میں مسائل حل نہ کرنے کے باعث حکومت نے رسوائی اور بدنامی سمیٹی ہو گی تو کوئی کیوں یہ چاہے گا کہ اس میں حصہ دار بنے؟ آصف زرداری بہت جہاندیدہ اور دور اندیش سیاستدان ہیں، انہیں معلوم ہے کہ موجودہ حالات میں مسلم لیگ (ن)حکومت لیکر اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے لگی ہے۔ پیپلز پارٹی شراکت اقتدار کے تحت بلوچستان میں حکومت بنائے گی، صدر مملکت، چیئر مین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی جیسے منصب حاصل کرنے کی کوشش کرے گی، اگر حکومت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ ہو گا تو ساتھ دے گی مگر مخلوط حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ نہیں کرے گی۔ اگر مقتدر حلقوں کے دبائو پر حکومت میں شامل ہونا بھی پڑا تو تین سال بعد کوئی بہانہ کر کے الگ ہو جائے گی۔ اس دوران خورشید شاہ اور بلاول بھٹو زرداری اصولی موقف اپناتے ہوئے حکومت پر تنقید بھی کرتے رہیں گے، مہنگائی کے خلاف آواز اُٹھائی جائے گی، تحریک انصاف کا مینڈیٹ تسلیم کرنے کی باتیں ہوں گی، آئندہ انتخابات آتے آتے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) دونوں غیر مقبول ہو چکی ہوں گی تو پیپلز پارٹی ہی متبادل آپشن کے طور پر سامنے آئے گی اور بلاول بھٹو زرداری اگلے وزیر اعظم ہوں گے۔ مجھے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہی پیپلز پارٹی کی حکمت عملی ہے۔ سانپ سیڑھی کے اس کھیل میں مسلم لیگ (ن) خسارے میں رہے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کو ابھی یہ باتیں شاید تلخ محسوس ہوں اور ناگوار گزریں مگر جب چڑیاں کھیت چگ جائیں گی تو انہیں یہ باتیں بہت یاد آئیں گی۔

سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے پاکستانی حکام سے موجودہ صورتِحال پر تبادلۂ خیال کیا۔

بلوچستان میں پشتون خوا میپ، بی این پی، نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی اپیل پر مختلف شہروں میں ہڑتال کی گئی، دکانیں اور کاروبار بند رہے۔

مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی محمد خان کا کہنا ہے کہ ملکی مسائل کےحل کے لیے تمام جماعتوں سے بات کرسکتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے جمہوریت کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کیے، سیکریٹری اطلاعات پیپلز پارٹی

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے منقسم مینڈیٹ آیا ہے، شہباز شریف کو اتحادیوں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اینٹی کرپشن سرکل نے پاسپورٹ اور نادرا افسران کیخلاف کارروائی کی ہے۔

شراکت اقتدار کے لیے ہاتھ ملانے والی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لیتی رہی ہیں۔

سحرش علی، مہوش علی اور ماہ نور علی سیمی فائنل میں پہنچ گئیں، سیمی فائنلز کل کھیلے جائیں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ شہباز شریف نے سیاسی رہنماؤں کو بتایا کہ پارٹی نے انہیں وزارتِ عظمی کا امیدوار نامزد کیا ہے۔

ترجمان اسلام آباد کیپیٹل پولیس نے کہا ہے کہ سیکٹر ای الیون میں ڈولفن اہلکاروں پر فائرنگ سے اہلکار زخمی ہوا ہے۔

221 رنز کے تعاقب میں آسٹریلیا کی ٹیم 5 وکٹ پر 183 رنز بناسکی۔

جس کورٹ پر آج زینب کو میچ کھیلنا تھا وہ ان کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، صدر پی ٹی ایف اعصام الحق

خیبرپختونخوا کے نامزد وزیراعلیٰ علی امین گنڈا سخت گوئی کےلیے شہرت رکھتے ہیں،وہ ماضی میں سیاسی مخالفین کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے آئے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے وزیراعظم کےلیے شہباز شریف کو نامزد کردیا ہے۔

QOSHE - محمد بلال غوری - محمد بلال غوری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد بلال غوری

11 11
14.02.2024

پارلیمانی سیاست میں اقتدار کے حصول کو ہی حتمی کامیابی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اقتدار کس قیمت پر مل رہا ہے، یہ بات سب سے اہم ہوا کرتی ہے۔ باوقار انداز میں حکومت بنانے کی کوشش کرنے اور اقتدار کی ہوس میں دیوانہ پن دکھانے میں بہت فرق ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو بات شہباز شریف نے منگل کے روز پریس کانفرنس میں کہی، وہی بات نواز شریف کی نام نہاد وکٹری اسپیچ میں کیوں نہ کہی گئی؟ تحریک انصاف کے بانی فرماتے ہیں، تین جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے کسی صورت اتحاد نہیں ہو سکتا۔ قومی اسمبلی میں اکثریت انہی تین جماعتوں کے پاس ہے۔ قومی اسمبلی کے 265حلقوں میں سے تقریباً 150 نشستوں پر انہی بڑی جماعتوں کے امیدوار کامیاب قرار پائے ہیں۔ اگر آزاد ارکان اسمبلی اور دیگر اتحادی جماعتوں کو بھی شمار کر لیا جائے تو یہ تعداد 170تک چلی جاتی ہے جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 93نشستوں پر کامیابی حاصل کی جن میں سے بمشکل 90نومنتخب ارکان پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ حکومت سازی کیلئے 133ارکان قومی اسمبلی کی حمایت درکار ہو گی۔ سوشل میڈیا پر جو مرضی جعلسازی کریں مگر تحریک انصاف ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی پنجاب اور وفاق میں حکومت نہیں بنا سکتی۔ یہ بات ہم سب کو بہت اچھی طرح سے معلوم ہے۔ موجودہ حالات میں کوئی ذمہ دار سیاسی جماعت اپنی مقبولیت اور سیاسی مستقبل دائو پر لگا کر ایک ایسی کمزور حکومت بنانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی جو مسائل حل نہ کر پائے اور عوام کے غیظ و غضب کا نشانہ بن جائے۔ تحریک انصاف کا معاملہ قدرے مختلف ہے، انہوں نے کارکردگی کے بجائے بیانیے کی بنیاد پر ووٹ لینا ہوتا ہے۔ ان کے ہاں ’’نک دا کوکا‘‘ اور ’’پروغرام تو وڑ گیا‘‘جیسے نعروں کے ذریعے بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد بھی ’’لوگوں کا شعور‘‘ بیدار کرنا ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں جس طرح کی ترقی گزشتہ دس برس میں ہوئی، اُمید ہے علی امین گنڈا پور اس کی رفتار میں مزید اضافے کا سبب بنیں گے اور بہت جلد........

© Daily Jang


Get it on Google Play