یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں ایک ’’ سیاسی‘‘ جماعت ایسی ہے کہ اس کی مرضی کے خلاف کوئی بھی کام جتنا بھی حقیقت پسندانہ اور غیر جانبدارانہ طریقہ سے کیا جائے وہ اس کام اور اس کے نتائج کو نہیں مانتی۔وہ سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹا پروپیگنڈہ اور من گھڑت الزامات سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بیرونی دنیا میں بھی ریاست کو بدنام کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔ اس کے لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اپنے چند مفادات کیلئے وہ اس ملک کو کتنا نقصان پہنچاتے ہیں جہاں وہ سیاست کرتے ہیں۔ ان کی خواہش اور مرضی کے برعکس ہونیوالے ہر اقدام کا ذمہ دار وہ اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہیں جو ایک خطرناک کھیل ہے اور یہ کھیل کچھ عرصہ سے جاری ہے۔اس کھیل کے جاری رہنے میں ایک حد تک اسٹیبلشمنٹ بھی ذمہ دار ہے اور وہ اس لئے کہ9مئی کے واقعات اور اس سے پہلے عسکری قیادت کے خلاف نازیبا بیانات پر وہ ایکشن نہیں لیا گیا جو لینا چاہیے تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کی اس نرمی سے اب بھی ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا ہے سوال یہ ہے کہ9مئی کے واقعات کے باوجود اب تک نہ صرف وہ جماعت برقرار ہے بلکہ ان واقعات میں ملوث افراد جو جیلوں میں ہیں بلکہ اشتہاری بھی ہیں ان کو الیکشن میں حصہ کیوں لینے دیا گیا ۔ آج وہی لوگ نہ صرف آنیوالی حکومت کو چلنے نہ دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں بلکہ ریاست کے خلاف سرگرم ہوکربیرونی دنیا میں پا کستان کو بدنام کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ نہ وہ کسی قانون وآئین، جو الیکشن سے متعلق ہیں ،پر عمل پیرا ہوتے ہیں نہ ان انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہیں جہاں سے ان کے امید وار ہار چکے ہیں۔ دوسری طرف وہ اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگاتے ہیں کہ جہاں سے ان کے امیدواروں کو شکست ہوئی ہے اس کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اگر کے پی کے میں ان کے امیدوار جیت گئے ہیں اور امیر حیدر ہوتی، سراج الحق، ایمل ولی خان اور مولانا فضل الرحمن، آفتاب احمد خان شیرپائو ، پرویز خٹک،غلام احمد بلور اور مولانا قاسم جیسے لوگ ہار گئے تو وہاں انتخابات نہایت شفاف ہوئے ہیں لیکن سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں دھاندلی ہوئی ہے اور مبینہ طور پر اس دھاندلی میں مذکورہ جماعت کے ملوث ہونے کے شکوک کا اظہار کیا جارہا ہے اس لئے کے پی کے میں مشکوک انتخابی عمل کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اسی طرح پنجاب میں خرم دستگیر خان، رانا ثنا اللہ خان اور خواجہ سعد رفیق کے علاوہ دیگر حلقوں کے نتائج اور ناکامی کی بھی تحقیقات ضروری ہیں۔ جہانگیر خان ترین کی شکست کے راز سے بھی پردہ اٹھا نا ضروری ہے اور اگر ان تمام حلقوں بشمول کے پی کے کے انتخابی حلقوں میں دھاندلی ثابت ہوتی ہے تو ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔

اب ایک نظر الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کے مبینہ کردار کی حقیقت کے حوالے سے بہت ضروری ہے۔ ریاست کو بدنام کرنے والے ٹھیکیدار اپنی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں کہ کچھ بھی ہو پاکستان میں نہ معاشی استحکام آئے نہ سیاسی استحکام ہو۔ ذرائع کے مطابق بعض ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا اور غیر ملکی الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا کے ذریعے ایک مذموم اور گمراہ کن بیانیے کی ترویج ہورہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ زمینی حقائق سے بالکل لا علم ہے یا آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ حالیہ انتخابی نتائج اس کی توثیق بھی کرتے ہیں۔ اس بیانیے سے دوطرح کے اثرات پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے پہلا یہ کہ اسٹیبلشمنٹ بالخصوص اس کی قیادت زمینی حقائق اور عوامی جذبات سے یا تو بے خبر ہے یا ان کو اہمیت نہیں دیتی۔ دوسرا یہ کہ اسٹیبلشمنٹ اور عوام ایک پیج پر نہیں ہیں اور انتخابی نتائج اسی کا اظہار ہیں۔ جبکہ حقائق یہ ہیں کہ اس الیکشن میں ٹرن آئوٹ 48فیصد رہا جبکہ 52فیصد ووٹرز نے حق رائے دہی کے استعمال سے اجتناب کیا۔ ان 48فیصد ووٹرز میں سے 30سے 35فیصد نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواران کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ 48فیصد ٹرن آوٹ 2018کے الیکشن سے کم تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس الیکشن میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو 30سے 35فیصد لوگوں نے ووٹ دے کر اس جماعت سے پسندیدگی کا اظہار کیا تو دوسری طرف یہ بھی اہم ہے کہ 52فیصد ووٹرز نے اپنا ووٹ نہ دے کر اس جماعت سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس تناظر میں اس تاثر کی کیا اہمیت رہ گئی ہے کہ 30سے 35فیصد لوگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہیں۔ حساب کتاب دیکھیں تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواران کو 17لاکھ جبکہ دیگر جماعتوں کو 40لاکھ ووٹ ملے ہیں۔ پھر اس کا تو مطلب ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر 40لاکھ جبکہ دوسری طرف صرف17لاکھ لوگ ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے جس کو تسلیم کرناچاہئے۔

انتخابی نتائج کو دیکھنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ الیکشن کے سارے عمل میں سوائے سیکورٹی فراہم کرنےکے اسٹیبلشمنٹ بالکل غیر جانبدار رہی ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل کی بات کی جائے تو پھر تو کے پی میں تو اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کا ساتھ دیا ہے جبکہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میںان کی حمایت نہیں کی۔ یہ کتنی غیر منطقی اور فضول بات ہے جس کو کوئی بھی ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے تسلیم نہیں کر سکتا۔ البتہ اسٹیبلشمنٹ نے یہ غلطی ضرور کی ہے کہ اس نے الیکشن سے قبل سوشل میڈیا پر چلنے والی گمراہ کن کمپین، جس میں پہلے سے ہی الیکشن کو متنازع بنانے کی سرتوڑ کوشش کی گئی، کا ادراک نہیں کیا۔ فارم 45کو جواز بنا کر الیکشن کو دھاندلی زدہ بنانے کی باریک واردات کا ادراک نہیں کیا۔ جس کا مقصد ہی اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کرنا اور ملک کو ایک اور المیے سے دوچار کرنا تھا۔ ایسے لوگوں کی سوچ جوبھی ہے اور جوبھی منصوبے ہیں اب ان سے کوئی بھی غافل نہیں ہے۔ ریاست کو بدنام کرنے اور ملک کو معاشی وسیاسی عدم استحکام سے دوچار کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کے اقدامات کریںاور عوام کے بھی سامنےلائیں۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف فحش فلموں کی اداکارہ کو زبان بند رکھنے کے لیے رقم دینے کا مقدمہ 25 مارچ سے شروع ہوگا۔

پاکستان کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات پر وائٹ ہاؤس نے پھر اظہار تشویش کیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ جب بانی پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں اجلاس ہوتے تھے تو صدارت خود مولانا فضل الرحمان کرتے تھے۔

پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس کے بارے میں بانی پی ٹی آئی کو بتایا تو بانی پی ٹی آئی کا رویہ خوشگوار ہوگیا۔

وزارت خزانہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 8 روپے 37 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔

8 فروری کا الیکشن جعلی اور دھاندلی زدہ ہیں، یہ عوامی مینڈیٹ نہیں، دونوں جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ الیکشن کو صاف شفاف نہیں کہا جاسکتا، حافظ حمداللّٰہ

حنیف پتافی نے کہا کہ ملکی معیشت کی حالت نازک ہے، میں اپنی تنخواہ نہیں لوں گا۔

کئی الفاظ ایسے تھے جو میں سمجھ نہیں سکا، لیکن میں یہ کر رہا تھا، نوازالدین صدیقی

جے یو آئی نے عام انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے ملک گیر تحریک چلانے کا فیصلہ کرلیا۔

افتتاحی تقریب کے بعد ایونٹ کے پہلے میچ میں دفاعی چیمپئن لاہور قلندرز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے درمیان مقابلہ ہوگا۔

گلوکار غلام عباس نمونیا کے باعث سی ایم ایچ میں زیر علاج ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمارا احتجاج ایک روز کا نہیں ہوگا، مسلسل احتجاج کا ارادہ ہے۔

کویت کے امیر شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح نے پارلیمان کو تحلیل کر دیا۔

بانی پی ٹی آئی کے خلاف سائفر کیس کا فیصلہ 30 جنوری، توشہ خانہ نیب کیس کا فیصلہ31 جنوری کو سنایا گیا تھا۔

محکمہ ٹرانسپورٹ پنجاب اورماس ٹرانزٹ نے اورنج لائن اور میٹرو بس کے کرائے میں اضافہ کر دیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق گھریلو صارفین کیلئے گیس 66.66 فیصد تک مہنگی کر دی گئی۔

QOSHE - ایس اے زاہد - ایس اے زاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایس اے زاہد

18 0
16.02.2024

یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں ایک ’’ سیاسی‘‘ جماعت ایسی ہے کہ اس کی مرضی کے خلاف کوئی بھی کام جتنا بھی حقیقت پسندانہ اور غیر جانبدارانہ طریقہ سے کیا جائے وہ اس کام اور اس کے نتائج کو نہیں مانتی۔وہ سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹا پروپیگنڈہ اور من گھڑت الزامات سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بیرونی دنیا میں بھی ریاست کو بدنام کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔ اس کے لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اپنے چند مفادات کیلئے وہ اس ملک کو کتنا نقصان پہنچاتے ہیں جہاں وہ سیاست کرتے ہیں۔ ان کی خواہش اور مرضی کے برعکس ہونیوالے ہر اقدام کا ذمہ دار وہ اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہیں جو ایک خطرناک کھیل ہے اور یہ کھیل کچھ عرصہ سے جاری ہے۔اس کھیل کے جاری رہنے میں ایک حد تک اسٹیبلشمنٹ بھی ذمہ دار ہے اور وہ اس لئے کہ9مئی کے واقعات اور اس سے پہلے عسکری قیادت کے خلاف نازیبا بیانات پر وہ ایکشن نہیں لیا گیا جو لینا چاہیے تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کی اس نرمی سے اب بھی ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا ہے سوال یہ ہے کہ9مئی کے واقعات کے باوجود اب تک نہ صرف وہ جماعت برقرار ہے بلکہ ان واقعات میں ملوث افراد جو جیلوں میں ہیں بلکہ اشتہاری بھی ہیں ان کو الیکشن میں حصہ کیوں لینے دیا گیا ۔ آج وہی لوگ نہ صرف آنیوالی حکومت کو چلنے نہ دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں بلکہ ریاست کے خلاف سرگرم ہوکربیرونی دنیا میں پا کستان کو بدنام کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ نہ وہ کسی قانون وآئین، جو الیکشن سے متعلق ہیں ،پر عمل پیرا ہوتے ہیں نہ ان انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہیں جہاں سے ان کے امید وار ہار چکے ہیں۔ دوسری طرف وہ اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگاتے ہیں کہ جہاں سے ان کے امیدواروں کو شکست ہوئی ہے اس کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اگر کے پی کے میں ان کے امیدوار جیت گئے ہیں اور امیر حیدر ہوتی، سراج الحق، ایمل ولی خان اور مولانا فضل الرحمن، آفتاب احمد خان شیرپائو ، پرویز خٹک،غلام احمد بلور اور........

© Daily Jang


Get it on Google Play