عام انتخابات مکمل ہوتے ہی سیاسی جماعتوں نے ماضی کی طرح ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزام لگانا شروع کر دیئے ہیں۔ اس حوالے سے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے ہیں اور آنیوالے دنوں میں یہ احتجاج مزید بڑھنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ہم وہ بدقسمت ہیں جو آزادی کے76 برس بعد بھی حکومت سازی کے جمہوری اور شفاف طریقے اختیار کرنے کی بجائے ان نتائج کو متنازع بنارہے ہیں۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں آج تک کوئی ایسے الیکشن نہیں ہوئے جن میں ہارنے والے امیدواروں نےجیتنے والے امیدواروں پر دھاندلی کا الزام نہ لگایا ہو۔ ایک طرح سے یہ ہمارے ملک کا کلچر بن چکا ہے کہ اپنی شکست تسلیم کرنے کی بجائے اسکے جواز تراشے جائیں یا دھاندلی کا شور مچا کر انتشار کو ہوا دی جائے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن یا دیگر ریاستی اداروں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انکی یہ ذمہ داری ہے کہ انتخابی عمل کو متنازع ہونے سے بچانے کیلئے بروقت اقدامات کریں اور نتائج کے بروقت اجرا کو یقینی بنائیں۔ تاہم الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں اور انکے امیدواروں کو بھی چاہئے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اشتعال دلانے اور احتجاج کی آڑ میں ہنگامہ آرائی کو فروغ دینے کی بجائے متعلقہ قانونی فورمز سے رجوع کریں۔ اس طرح نہ صرف ملک میں جمہوری روایات کو فروغ ملے گا بلکہ دھاندلی کے مرتکب عناصر کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے گا۔

اس حوالے سے سیاسی قیادت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے اس لئے بھی کہ ملک پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی بحران کا شکار ہے۔ ایسے میں اگر سیاسی انتشار جاری رہا تو معیشت کو مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ علاوہ ازیں وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کیلئے رابطوں اور جوڑ توڑ میں مصروف سیاسی جماعتوں کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حصول اقتدار سے زیادہ معیشت کی بحالی کو اپنی ترجیح بنائیں۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت سازی کی متمنی سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے سے پہلے کم از کم معاشی ایجنڈے پر متفق ہوں تاکہ حکومت سازی کے بعد وہ پوری دلجمعی سے اس پر عمل درآمد کر سکیں۔ اس حوالے سے سابق وزیر اعظم شہباز شریف متعدد مرتبہ سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت کرنے کی پیشکش کر چکے ہیں بلکہ انہوں نے پہلی مرتبہ یہ پیشکش اس وقت کی تھی جب وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ اسی طرح سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی ملک کو درپیش معاشی مسائل کو حل کرنے کیلئے مشترکہ سیاسی حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت پر متعدد مرتبہ آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی قیادت نے بھی آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری سے قبل آئی ایم ایف حکام سے ملاقاتوں میں سیاسی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی تھی۔ علاوہ ازیں دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی بظاہر اس آئیڈیے سے کوئی بنیادی اختلاف سامنے نہیں آیا۔ اس لئے یہ بہترین وقت ہے کہ سیاسی قیادت حکومت سازی سے قبل میثاق معیشت پر دستخط کر کے قوم کو یہ اعتماد دلائے کہ مستقبل میں ملک کے معاشی معاملات کو سیاسی مفادات کی خاطر تختہ مشق نہیں بنایا جائے گا۔

اس سلسلے میں ایوان ہائے صنعت و تجارت اور تمام بڑی کاروباری ایسوسی ایشنز کے نمائندوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو بھی اپنی آواز بلند کرنی چاہئے تاکہ سیاسی جماعتوں کی باہمی کشمکش اور اقتدار کے حصول کی دوڑ میں ملک کی معیشت متاثر نہ ہو۔ علاوہ ازیں ایوان ہائے صنعت و تجارت اور تمام بڑی کاروباری ایسوسی ایشنز اس حوالے سے اپنی تجاویز یا روڈ میپ بھی تشکیل دے سکتی ہیں تاکہ سیاسی جماعتیں اپنے منشور کے مطابق معاشی اہداف اور ان کے حصول کا طریقہ کار طے کر سکیں۔ اس طرح ایک ایسی متفقہ قومی دستاویز تیار کی جا سکتی ہے جسے نئی قومی اسمبلی کے ذریعے تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے اٹھارویں ترمیم کی طرح آئین کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا تاریخی اقدام ہو گا جس پر ہماری آنے والی نسلیں بھی ہمیں یاد رکھیں گی اور موجودہ سیاسی قیادت کا نام بھی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر ہو جائے گا کہ انہوں نے قومی تقاضوں کا ادراک کرتے ہوئے مستقبل کیلئے ایک ایسا لائحہ عمل یا طریقہ کار طے کر دیا، جس پر چل کر پاکستان کے معاشی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل ملک میں نئے سیاسی کلچر کے پنپنے کا آغاز ثابت ہو گا اور امید کی جا سکتی ہے کہ اس کی بدولت ہماری سیاسی جماعتوں میں وہ برداشت اور رواداری فروغ پائے گی جو جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کیلئے ضروری ہے۔

ملکی ترقی اور معاشی استحکام کو یقینی بنانےکیلئے میثاق معیشت پر سیاسی اتفاق رائے اس لئے بھی ضروری ہے کہ سیاسی اور معاشی غیر یقینی کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ارباب اقتدار اور صاحب الرائے طبقات مستقبل کے معاشی روڈ میپ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور سیاسی جماعتوں کو بھی یہ باور کروائیں کہ میثاق معیشت کے بغیر پاکستان کا آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں کاروباری برادری اور مختلف سیکٹرز کی صنعتی تنظیموں کے عہدیداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور جن جن سیاسی جماعتوں سے ان کی ورکنگ ریلیشن شپ موجود ہے انہیں اس بات کا احساس دلایا جانا چاہئے کہ ملک کی بقا کیلئے متفقہ معاشی ایجنڈا تیار کرنا ضروری ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ خدا کرے ن لیگ فیصلہ کر لے کہ جس کو اکثریت دلائی گئی اسی کو حکومت بنانے کا موقع دیا جائے۔

ایچ بی ایل پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل) 9 کا آغاز آج ہوگا۔

اپنی درخواست میں محسن داوڑ نے کہا کہ این اے 40 کے انتخابات کالعدم قرار دیے جائیں، این اے 40 سے کامیابی کا نوٹیفیکشن روکا جائے۔

سندھ ہائیکورٹ میں عباسی شہید اسپتال کے ہاؤس جاب ڈاکٹرز کا وظیفہ بڑھنے کی درخواست پر میئر کراچی و دیگر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا گیا۔

ایک تحقیق کے مطابق صرف چہل قدمی کرنے سے ڈپریشن پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق ہلکی پھلکی ورزش مثلاً یوگا، وزن اٹھانا، چہل قدمی اور جاگنگ سے ڈپریشن (ذہنی دبائو) کو کم کیا جاسکتا ہے۔

ترجمان وزارت خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے افغان عبوری نائب وزیر خارجہ کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان سرحد کی قانونی حیثیت پر من گھڑت دعوے حقائق تبدیل نہیں کرسکتے۔

ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 کا نفاذ ہے، اسلام آباد میں کسی بھی احتجاج یا ریلی کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔

نگراں حکومت نے بجلی کمپنیوں میں تبادلوں اور تقرریوں پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاور ڈویژن نے تمام بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو تبادلوں اور تقرریوں سے روک دیا۔

ملک احمد خان نے کہا کہ آج ہماری اپنی قیادت کے ساتھ ملاقات ہوئی، پارٹی رہنماؤں نے 16 ماہ کی اتحادی حکومت کے ساتھ معاملات پر اپنی رائے دی۔

بالی ووڈ کے اسٹار اداکار رنبیر کپور نے معروف بھارتی بزنس مین مکیش امبانی سے ملی نصیحت بتادی۔

علی محمد خان نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا ملک و قوم کو آگے لیکر جائیں گے، ملک کو آگے لے جانے کیلئے سچ، معافی اور درگزر کی طرف جانا ہوگا۔

پولیس نے مزید بتایا کہ گرفتار ملزم سے مزید تحقیقات جاری ہے۔

مولانا فضل الرحمان کو بانی پی ٹی آئی نہ صرف ان کو تضحیک کا نشانہ بناتے رہے، بلکہ انہیں ڈیزل کے نام سے یاد کرتے تھے۔

امریکی گلوکارہ و گیت نگار ٹیلر سوئفٹ نے کنساس سٹی چیفس سپر بائول وکٹری پریڈ کے دوران فائرنگ سے ہلاک ہونے والی 43 سالہ خاتون ریڈیو ڈی جے، لیزا لوپیز گلوان کے خاندان کے لیے ایک لاکھ ڈالر کا عطیہ دیا ہے۔

مریم نواز نے مزید کہا کہ پاکستان کو بچانے کے لیے ایک لاکھ بار بھی سیاسی مفاد قربان کرنا پڑا تو کریں گے۔

حافظ نعیم الرحمان نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ اس الیکشن کے نتائج کالعدم قرار دے، ہمیں چپ کروانے کیلئے ایک ارینجمینٹ کیا گیا تھا۔

QOSHE - چوہدری سلامت علی - چوہدری سلامت علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

چوہدری سلامت علی

9 9
17.02.2024

عام انتخابات مکمل ہوتے ہی سیاسی جماعتوں نے ماضی کی طرح ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزام لگانا شروع کر دیئے ہیں۔ اس حوالے سے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے ہیں اور آنیوالے دنوں میں یہ احتجاج مزید بڑھنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ہم وہ بدقسمت ہیں جو آزادی کے76 برس بعد بھی حکومت سازی کے جمہوری اور شفاف طریقے اختیار کرنے کی بجائے ان نتائج کو متنازع بنارہے ہیں۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں آج تک کوئی ایسے الیکشن نہیں ہوئے جن میں ہارنے والے امیدواروں نےجیتنے والے امیدواروں پر دھاندلی کا الزام نہ لگایا ہو۔ ایک طرح سے یہ ہمارے ملک کا کلچر بن چکا ہے کہ اپنی شکست تسلیم کرنے کی بجائے اسکے جواز تراشے جائیں یا دھاندلی کا شور مچا کر انتشار کو ہوا دی جائے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن یا دیگر ریاستی اداروں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انکی یہ ذمہ داری ہے کہ انتخابی عمل کو متنازع ہونے سے بچانے کیلئے بروقت اقدامات کریں اور نتائج کے بروقت اجرا کو یقینی بنائیں۔ تاہم الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں اور انکے امیدواروں کو بھی چاہئے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اشتعال دلانے اور احتجاج کی آڑ میں ہنگامہ آرائی کو فروغ دینے کی بجائے متعلقہ قانونی فورمز سے رجوع کریں۔ اس طرح نہ صرف ملک میں جمہوری روایات کو فروغ ملے گا بلکہ دھاندلی کے مرتکب عناصر کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے گا۔

اس حوالے سے سیاسی قیادت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے اس لئے بھی کہ ملک پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی بحران کا شکار ہے۔ ایسے میں اگر سیاسی انتشار جاری رہا تو معیشت کو مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ علاوہ ازیں وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کیلئے رابطوں اور جوڑ توڑ میں مصروف سیاسی جماعتوں کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حصول اقتدار سے زیادہ معیشت کی بحالی کو اپنی ترجیح بنائیں۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت سازی کی متمنی سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے سے پہلے کم........

© Daily Jang


Get it on Google Play