نواز شریف نے اپنی آخری سیاسی اننگ بغیر کھیلے ہی ختم کر دی۔ایک ایسا شخص جو چار دہائیوں تک وطن عزیز کی سیاست پر چھایا رہا۔انکی سیاست کا یوں اختتام کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔اگرچہ وہ آمریت کی نرسری میں پلےلیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک مزاحمتی سیاست دان کا روپ اختیار کیا جس کی وجہ سے انہوں نے بے مثال مقبولیت حاصل کی۔انہوں نے'' میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا ''کا نعرہ لگایا اور قوم کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ان کا سیاسی کیریئر ہر قسم کے اتار چڑھاؤ سے عبارت ہے۔انہوں نے ایٹمی دھماکے کر کے خود کو محسن پاکستان کے طور پر پیش کیا تو دوسری طرف اٹل بہاری واجپائی کو لاہور میں بلایا اور جب دوبارہ موقع ملا تو نریندر مودی کو اپنی گھریلو تقریبات میں مدعو کیا اور وہ بھی سفارتی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لاہور آئے اور شریف فیملی کے ساتھ وقت گزارا۔ان کی زندگی ایک طرح سے مختلف تضادات سے عبارت تھی۔وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہی اپنے اقتدار کو طول دیا۔عوامی طاقت اور مقتدرہ کی اشیرباد سے وہ جب بھی اقتدار میں آئے ان کے اقتدار کا خاتمہ غیر فطری انداز میں ہوا۔وہ اپنی نوعیت کے واحد حکمراں ہیں جو بذات خود اپنی کوئی بھی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان کے واحد حکمراں تھے جو وطن عزیز کے چاروں صوبوں میں یکساں مقبول تھے۔ انہوں نے اپنے عروج کے دنوں میں ملک کے تمام علاقوں میں بھرپور عوامی جلسے کیے۔ ہر صوبے کے سیاست دانوں کے ساتھ قریبی روابط رکھے۔انہوں نے پاکستان کی ترقی میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تشکیل دیے ہوئے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔آصف علی زرداری کے شروع کیے ہوئے سی پیک کو عملی شکل دی۔پاکستان میں انفراسٹرکچر کا جال بچھایا لیکن پانامہ کا ڈنگ لگنے کے بعد ان کے اقتدار کو وہ زوال آیا کہ جو عروج کی طرح بے مثال تھا۔جلاوطنی میاں نواز شریف کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔انہوں نے مشرف کے ساتھ معاہدہ کر کے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے رکھی تاہم 2018 کے بعد کی جلاوطنی اس لحاظ سے منفرد تھی کہ لندن میں قیام کے دوران عوام کا ہجوم انکے گھر کے باہر رہتا جسکے باعث وہ لندن میں بھی محصور ہی رہے۔اس دوران پاکستان کی سیاست میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا یہاں تک کہ ''رجیم چینج''کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کردی گئی۔ یہی وہ وقت تھا جب ایک طرف عمران خان کا عروج شروع ہوا اور میاں نواز شریف کا بتدریج زوال ۔پی ڈی ایم نے میاں شہباز شریف کی سربراہی میں جو حکومت قائم کی اس نے نہ صرف مسلم لیگ کو نقصان پہنچایا بلکہ میاں نواز شریف جیسے مدبر سیاستدان کی شہرت کو بھی داغدار کر دیا۔نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ وہ نواز شریف جو مقتدرہ سے لڑائی کر کے عوام کی آنکھوں کا تارا تھا،''ووٹ کو عزت دو'' کے نعرے نے کراچی سے لے کر خیبر تک بیداری کی ایک لہر پیدا کر دی تھی،ان کو اپنے اس نظریے سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر بھی خاموشی اختیار کرنا پڑی۔انہوں نے ایک طرف مقتدرہ سے ہاتھ ملایا تو دوسری طرف عوام نے بھی انہیں اپنے دل سے اتار دیا۔2024 کے انتخابات ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔اس میں تحریک انصاف کی مشکیں کسی گئیں۔عمران خان کو پابند سلاسل کیا گیا۔اس کی جماعت کا انتخابی نشان چھین لیا گیا اور مسلم لیگ کو کھلی چھٹی دی گئی۔میاں نواز شریف شاید نوشتہ دیوار پڑھ چکے تھے اس لیے انہوں نے ان انتخابات میں وہ روایتی سرگرمی نہ دکھائی جو ان کا خاصہ تھی اور جن جلسوں سے خطاب کیا وہ بھی بے رغبتی کے عالم میں تھا جس کے نتائج انہیں آٹھ فروری کو دیکھنا پڑے۔ لیکن اس سارے اہتمام کے باوجود عمران خان کا جادو ایک مرتبہ پھر نصف النہار پہنچ گیا۔اور اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک پر چار دہائیوں سے حکومت کرنے والا شخص ایک گھر میں بند ہے تو دوسری طرف قیدی نمبر 804پورے ملک پر حکومت کر رہا ہے۔کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ کے الزامات نے انتخابات کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں ملا دی ہے۔مسلم لیگ ن کو جس انداز میں فتح دلوائی گئی اور نشستیں جس طرح گھٹائی اور بڑھائی گئیں اسنے انتخابات کی شفافیت کو تو مشکوک بنایا ہی ہے میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی شناخت کو بھی گہری زک پہنچائی ہے۔

اس حالیہ فتح سے تو بہتر تھا کہ میاں نواز شریف لندن میں ہی قیام پذیر رہتے کم از کم ان کا بھرم ہی برقرار رہتا۔میری دانست میں میاں نواز شریف اس خطے کے سب سے تجربہ کار رہنما ہیں۔اپنی سیاست کا اس انداز میں اختتام کرنے کے بجائے خواجہ سعد رفیق کی طرح دل بڑا کرکے اپنی شکست تسلیم کرنی چاہیے اور جنہیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے انکا حق تسلیم کرنا چاہیے۔ انہیں چپ کا روزہ توڑ کر تحمل اور بردباری سے فیصلے کرنے چاہئیں ۔انتقام کی سیاست کو دفن کر کے سیاست اور اقتدار سے بالاتر ہوکر ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔ ہماری قوم کو بھی اپنے رہنماؤں کو باعزت طریقے سے رخصت کرنے کی روایت ڈالنی چاہیے۔جس انداز میں نواز شریف کو خدا حافظ کہا جا رہا ہے وہ ہرگز مناسب نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

برازیلی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ برازیل میں اسرائیلی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کریں گے۔

ڈی ایچ او ڈاکٹر حنیف میمن کا کہنا ہے کہ پورے ضلع میں خسرہ سے بچاؤ کی ویکسینیشن مہم جاری ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ بات چیت مثبت انداز میں جاری ہے، آج صبح دوبارہ نشست ہو گی۔

سپریم کورٹ نے سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا ڈکلیئریشن دے کر آئین بدلنے کی کوشش کی، تفصیلی فیصلہ

خاتون کرکٹر کائنات امتیاز نے کہا ہے کہ میں اگر پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں ہوتی تو ملتان ٹیم کا حصہ ہوتی۔

ڈیوٹی جج احمد ارشد جسرا نے ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی، جس میں شیر افضل مروت ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے۔

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 9 کے چوتھے میچ کوئٹہ گلیڈی کی طرف سے شاندار اننگز کھیلنے والے خواجہ نافع نے کہا ہے کہ فی الحال میرا فوکس پی ایس ایل ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق وزراء نے نامزد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور سے ملاقات کی ہے۔

مجھے جو پلان کپتان نے دیا تھا اس کے مطابق کھیلا، آل راؤنڈر لاہور قلندرز

افغانستان کے مشرقی علاقوں میں شدید برفباری اور بارش ہوئی ہے۔

ایک تازہ انٹرویو کے دوران وکرانت نے شوبز میں اپنے ابتدائی دور سے متعلق کھل کر گفتگو کی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں حکومت سازی، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بارے میں مشاورت ہوگی۔

ریاست آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والی اس بچی نے ناقابلِ تصور کارنامہ انجام دیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ تجاویز اور سفارشات کےلیے یکم مارچ 2024 کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے۔

سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ ہائیکورٹ نے مجھے راہداری ضمانت دی ہے، میرے خلاف جعلی مقدمات بنائے گئے، 9 مئی واقعات پر ہمارا موقف واضح ہے تحقیقات ہونی چاہیے۔

مخصوص نشستیں لینے کےلیے کسی سیاسی جماعت کی چھتری کے نیچے جانا پڑ رہا ہے، رہنما تحریک انصاف

QOSHE - پیر فاروق بہاو الحق شاہ - پیر فاروق بہاو الحق شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پیر فاروق بہاو الحق شاہ

18 1
20.02.2024

نواز شریف نے اپنی آخری سیاسی اننگ بغیر کھیلے ہی ختم کر دی۔ایک ایسا شخص جو چار دہائیوں تک وطن عزیز کی سیاست پر چھایا رہا۔انکی سیاست کا یوں اختتام کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔اگرچہ وہ آمریت کی نرسری میں پلےلیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک مزاحمتی سیاست دان کا روپ اختیار کیا جس کی وجہ سے انہوں نے بے مثال مقبولیت حاصل کی۔انہوں نے'' میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا ''کا نعرہ لگایا اور قوم کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ان کا سیاسی کیریئر ہر قسم کے اتار چڑھاؤ سے عبارت ہے۔انہوں نے ایٹمی دھماکے کر کے خود کو محسن پاکستان کے طور پر پیش کیا تو دوسری طرف اٹل بہاری واجپائی کو لاہور میں بلایا اور جب دوبارہ موقع ملا تو نریندر مودی کو اپنی گھریلو تقریبات میں مدعو کیا اور وہ بھی سفارتی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لاہور آئے اور شریف فیملی کے ساتھ وقت گزارا۔ان کی زندگی ایک طرح سے مختلف تضادات سے عبارت تھی۔وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہی اپنے اقتدار کو طول دیا۔عوامی طاقت اور مقتدرہ کی اشیرباد سے وہ جب بھی اقتدار میں آئے ان کے اقتدار کا خاتمہ غیر فطری انداز میں ہوا۔وہ اپنی نوعیت کے واحد حکمراں ہیں جو بذات خود اپنی کوئی بھی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان کے واحد حکمراں تھے جو وطن عزیز کے چاروں صوبوں میں یکساں مقبول تھے۔ انہوں نے اپنے عروج کے دنوں میں ملک کے تمام علاقوں میں بھرپور عوامی جلسے کیے۔ ہر صوبے کے سیاست دانوں کے ساتھ قریبی روابط رکھے۔انہوں نے پاکستان کی ترقی میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تشکیل دیے ہوئے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔آصف علی زرداری کے شروع کیے ہوئے سی........

© Daily Jang


Get it on Google Play