کچھ عرصہ سے وطن عزیز میں سیاست کے نام پر خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے۔ روز نیا تماشا لگانے کا مقصد مفادات کا حصول اور ملک میں افراتفری پھیلانے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف جس طرح ایسے لوگوں کو ڈھیل دی جارہی ہے وہ بھی حیران کن ہے الیکشن میں جیتنے والے بھی آپس کی کھینچا تانی میں لگے ہوئے ہیں ۔ نہ کسی کو ملک کی فکر ہے نہ آنے والے حالات کا ادراک ۔اپنے اپنے مفادات کا حصول ہی ملکی مفادات پر مقدم سمجھنا کیسی سیاست ہے۔ ملک میں انارکی اور افراتفری پھیلانے کے لئے بعض لوگ آپس میں ایک ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ بات بڑی غلط فہمی ہے کہ ملک کے دفاع کے ذمہ دار ان حرکتوں اور کوششوں سے غافل ہیں لیکن محب وطن پاکستانی اس پر حیران ہیں کہ آخر کب تک ملکی مفادات سے کھیلنے والوں کو شتر بے مہار کی طرح کھلا چھوڑا جائے گا ایسا نہ ہو کہ اس دوران چڑیا سارا کھیت ہی چگ لیں۔روز روز نئے تماشے ہورہے ہیں۔ الیکشن میں جیتنے والے بھی بے یقینی کا شکار ہیں اور ہارنے والے بھی پریشان ہیں لیکن ایک جماعت ایسی ہے کہ وہ جہاں سے جیتے وہاں الیکشن میں دھاندلی کا کوئی الزام نہیں لگاتی۔ صرف ان جگہوں پر ا ن کو دھاندلی نظر آتی ہے جہاں سے ان کے امیدواروں کو شکست ہوئی ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ گویا پورے پاکستان کے ووٹرز ان ہی کے حامی تھے سب لوگوں نے اسی جماعت کو ووٹ دیئے ہیں لیکن بعض جگہوں پر زبردستی یا دھاندلی کے ذریعے اس جماعت کے امیدواروں کو ہرایا گیا۔ اگر ایسی ہی بات تھی تو پھر اس کو الیکشن کہا جائے یا ریفرنڈم کہا جائے ۔عجیب بات یہ ہے کہ جہاں اس جماعت کے امیدواروں کے مدمقابل دوسری جماعتوں کے امیدوار ہارے ہیں وہ جماعتیں بھی اس مخصوص جماعت سے مل کر احتجاج کرنے پر تیار ہیں۔ اب کوئی کیا سمجھے کہ سارے کھیل کا مقصد کیا ہے اور کون کون اس میں شامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ الیکشن سے کافی دن پہلے ہی ہم نےا پنے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ اگر کسی طرح الیکشن کرائے بھی جائیں گے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔ کیونکہ اس الیکشن کے بعد ایک منظم منصوبہ بندی کے ذریعے انتخابات کو متنازعہ بنایا جائے گا۔ آج وہی کچھ قوم اور حکومت کے سامنے ہے۔دو تین دن قبل ملکی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ قوم نے دیکھا جب کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے عجیب و غریب اعترافات کئے۔ واضح رہے کہ مذکورہ کمشنر نے بے موقع اور بے محل اعترافات الیکشن کے آٹھ دن بعد کئے۔ نہ صرف خود کو بلکہ راولپنڈی ڈویژن کے تمام آروز اور ڈی آروز کو بھی موردِالزام ٹھہرایا۔ کمشنر مذکورہ راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم وہاں ہونے والے میچ کے حوالے سے کئے گئے انتظامات پر اسپورٹس رپورٹرز سے اظہار خیال کرنے گئے تھے لیکن بجائے اس کے کمشنر نے الیکشن میں دھاندلی کرنے پر پوری اعترافی تقریر کرڈالی۔ دراصل کمشنر کی یہ گفتگو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نیا ڈرامہ تھا۔ اس گفتگو کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی جس پر ہم بعد میں بات کرتے ہیں۔ پہلے الیکشن کے دوران کمشنر کے اختیارات کو دیکھتے ہیں۔ الیکشن کے ضوابط کے مطابق انتخابی عمل کی ٹریننگ و انتظامات کے علاوہ انتخابی عمل اور نتائج سے کسی کمشنر کا کوئی واسطہ اور تعلق نہیں ہے نہ وہ انتخابی عمل میں مداخلت کا مجاز نہ وہ نتائج مرتب کرنے میں کسی قسم کی مداخلت پاردوبدل کا اختیار رکھتے ہیں ۔ ان قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے مذکورہ کمشنر کی تمام گفتگو، اعترافات و الزامات سراسر لغو اور بے معنی ہیں۔ دوسری بات ان کا چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر پر یہ الزام کہ ان دونوں نے نتائج تبدیل کرنے کے لئے دبائو ڈالا تھا بالکل جھوٹ بلکہ سفید جھوٹ ہے کیونکہ ان دونوں اعلیٰ عہدیداروں کا بھی الیکشن کے نتائج مرتب کرنے کے عمل سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ ایک ایسے شخص پر کیوں دبائو ڈالیں گے جس شخص کا خود نتائج مرتب کرنے سے کوئی واسطہ اور تعلق ہی نہیں ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر بالفرض دبائو کسی بھی طرف سے ڈالنے کی بات ہو تو پھر صرف کمشنر راولپنڈی پر (جوکہ نتائج سے غیر متعلقہ شخص ہے) ہی کیوں دبائو ڈالا گیا۔ کے پی کے، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے انتخابی نتائج کا جواب بھی کمشنر مذکورہ دیں کہ ان تین صوبوں میں کسی نے کیوں دبائو نہیں ڈالا۔ کیا راولپنڈی ڈویژن باقی پورے ملک سے زیادہ اہم ہے اور اگر اہم ہے تو کمشنر مذکورہ سے اس کی وجہ بھی پوچھنی چاہئے۔ کیا صرف یہ 13حلقے پورے ملک کے نتائج پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ کمشنر نے یہ صریح غلط بیانی کیوں کی۔ اور اس ڈویژن کے ڈی آر اوز اور آر اوز پر بھی ایک طرح سے الزام لگا کر شریک جرم بنانے کی قبیح کوشش کیوں کی۔ اس کا ایک ہی مختصر جواب کافی ہے کہ یہ سب ڈرامہ ایک مخصوص جماعت اور بعض لوگوں کی ایماپر رچایا گیا۔ کمشنر ویسے بھی دو ہفتے بعد ریٹائر ہونے والے تھے اور انہوں نے اس گفتگو کی کیا قیمت وصول کی یا مستقبل کی کوئی یقین دہانی کرائی گئی تھی یہ تو وہ ہی بتا سکتے ہیں لیکن مخصوص جماعت کے ساتھ مل کر کمشنر کے اس منصوبے کے ناقابل تردید ثبوت ہیں۔ اس جماعت کے بعض ذمہ داران نے ٹوئٹ کے ذریعے کیوں اپنے لوگوں کو آگاہ کیا کہ کمشنر کہاں اور کیا بات کرنے جارہے ہیں۔ اطلاع کمشنر کے کرکٹ اسٹیڈیم پہنچنے سے پہلے ہی کس طرح باقی لوگوں کو دی گئی۔ مزید ثبوت بھی ہیں اور اکٹھے بھی کئے جارہے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد الیکشن کو متنازعہ بنانا اور بے یقینی پھیلا کر ملک میں انارکی پیدا کرنے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ اگر راست اقدام میں تاخیر ہوتی جائے گی تو معلوم نہیں اس گلستان کا انجام کیا ہوگا۔

برازیلی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ برازیل میں اسرائیلی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کریں گے۔

ڈی ایچ او ڈاکٹر حنیف میمن کا کہنا ہے کہ پورے ضلع میں خسرہ سے بچاؤ کی ویکسینیشن مہم جاری ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ بات چیت مثبت انداز میں جاری ہے، آج صبح دوبارہ نشست ہو گی۔

سپریم کورٹ نے سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا ڈکلیئریشن دے کر آئین بدلنے کی کوشش کی، تفصیلی فیصلہ

خاتون کرکٹر کائنات امتیاز نے کہا ہے کہ میں اگر پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں ہوتی تو ملتان ٹیم کا حصہ ہوتی۔

ڈیوٹی جج احمد ارشد جسرا نے ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی، جس میں شیر افضل مروت ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے۔

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 9 کے چوتھے میچ کوئٹہ گلیڈی کی طرف سے شاندار اننگز کھیلنے والے خواجہ نافع نے کہا ہے کہ فی الحال میرا فوکس پی ایس ایل ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق وزراء نے نامزد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور سے ملاقات کی ہے۔

مجھے جو پلان کپتان نے دیا تھا اس کے مطابق کھیلا، آل راؤنڈر لاہور قلندرز

افغانستان کے مشرقی علاقوں میں شدید برفباری اور بارش ہوئی ہے۔

ایک تازہ انٹرویو کے دوران وکرانت نے شوبز میں اپنے ابتدائی دور سے متعلق کھل کر گفتگو کی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں حکومت سازی، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بارے میں مشاورت ہوگی۔

ریاست آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والی اس بچی نے ناقابلِ تصور کارنامہ انجام دیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ تجاویز اور سفارشات کےلیے یکم مارچ 2024 کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے۔

سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ ہائیکورٹ نے مجھے راہداری ضمانت دی ہے، میرے خلاف جعلی مقدمات بنائے گئے، 9 مئی واقعات پر ہمارا موقف واضح ہے تحقیقات ہونی چاہیے۔

مخصوص نشستیں لینے کےلیے کسی سیاسی جماعت کی چھتری کے نیچے جانا پڑ رہا ہے، رہنما تحریک انصاف

QOSHE - ایس اے زاہد - ایس اے زاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایس اے زاہد

15 27
20.02.2024

کچھ عرصہ سے وطن عزیز میں سیاست کے نام پر خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے۔ روز نیا تماشا لگانے کا مقصد مفادات کا حصول اور ملک میں افراتفری پھیلانے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف جس طرح ایسے لوگوں کو ڈھیل دی جارہی ہے وہ بھی حیران کن ہے الیکشن میں جیتنے والے بھی آپس کی کھینچا تانی میں لگے ہوئے ہیں ۔ نہ کسی کو ملک کی فکر ہے نہ آنے والے حالات کا ادراک ۔اپنے اپنے مفادات کا حصول ہی ملکی مفادات پر مقدم سمجھنا کیسی سیاست ہے۔ ملک میں انارکی اور افراتفری پھیلانے کے لئے بعض لوگ آپس میں ایک ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ بات بڑی غلط فہمی ہے کہ ملک کے دفاع کے ذمہ دار ان حرکتوں اور کوششوں سے غافل ہیں لیکن محب وطن پاکستانی اس پر حیران ہیں کہ آخر کب تک ملکی مفادات سے کھیلنے والوں کو شتر بے مہار کی طرح کھلا چھوڑا جائے گا ایسا نہ ہو کہ اس دوران چڑیا سارا کھیت ہی چگ لیں۔روز روز نئے تماشے ہورہے ہیں۔ الیکشن میں جیتنے والے بھی بے یقینی کا شکار ہیں اور ہارنے والے بھی پریشان ہیں لیکن ایک جماعت ایسی ہے کہ وہ جہاں سے جیتے وہاں الیکشن میں دھاندلی کا کوئی الزام نہیں لگاتی۔ صرف ان جگہوں پر ا ن کو دھاندلی نظر آتی ہے جہاں سے ان کے امیدواروں کو شکست ہوئی ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ گویا پورے پاکستان کے ووٹرز ان ہی کے حامی تھے سب لوگوں نے اسی جماعت کو ووٹ دیئے ہیں لیکن بعض جگہوں پر زبردستی یا دھاندلی کے ذریعے اس جماعت کے امیدواروں کو ہرایا گیا۔ اگر ایسی ہی بات تھی تو پھر اس کو الیکشن کہا جائے یا ریفرنڈم کہا جائے ۔عجیب بات یہ ہے کہ جہاں اس جماعت کے امیدواروں کے مدمقابل دوسری جماعتوں کے امیدوار ہارے ہیں وہ جماعتیں بھی اس مخصوص جماعت سے مل کر احتجاج کرنے پر تیار ہیں۔ اب کوئی کیا سمجھے کہ سارے کھیل کا مقصد کیا ہے اور کون کون اس میں شامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ الیکشن سے کافی دن........

© Daily Jang


Get it on Google Play