ملک میں سیاسی طور پر شعور کی موت ہوچکی ہے۔ نئی نوجوان نسل سے جب بات کرتا ہوں تو پریشان ہوجاتا ہوں، کبھی ہم جامعہ سندھ کے طالب علم تھے اور نوجوانی کا سحر ہم پر بھی طاری تھا، اکثر ہماری بحث کا موضوع سیاست ہوتی تھی، ہم علی امین گنڈاپور ( جو زبان و کلام سے غنڈہ پور کے شہری لگتے ہیں) کے بجائے مارکس اور اینگلز جیسی نامور شخصیات کے ساتھ ساتھ روسو اور فلسفہ سمیت معیشت، سیاست، سماجیات، نیشنلزم ، اشتراکیت وغیرہ پر نہ صرف بحث کرتے تھے بلکہ بائیں اور دائیں بازو کی سیاست کرتے ہوئے ایک نظریہ کے پیچھے اپنی زندگی گزارتے تھے، پھر ہم نے عجیب قسم کا نوجوان دیکھا جو کہتا ہے کہ کاش عمران خان میرے باپ ہوتے، یہ ہی نہیں کچھ خواتین تو یہ کہتی دکھائی دیں کہ میں عمران خان کے لیے اپنا شوہر چھوڑنے کوتیار ہوں، اور پھر ایسا ہی کچھ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کےدھرنے کے دوران دیکھنے کو ملا ، اس طرح کی گفتگو میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں سنی تھی۔ نوجوان جو عمران خان کے سحر میں مبتلا ہیں یہ نوجوان تعلیم، عقل اور اخلاقیات کو ایک ساتھ رکھ کر ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔مگر عمران خان کے ان ہمدردوں کے پاس تعلیم اور عقل ضرور ہے لیکن اخلاقیات کا جنازہ ان کے ہاں سے کئی سال پہلے نکل چکا ہے عمران کی ضد دیکھیں الیکشن کے بعد اپنی انا ،غرور میں کہاپی پی پی ،ن لیگ سے بات نہیں کرونگا اور اکیلے حکومت سازی کرونگا پھر اسکے لئے یہ مطالبہ بھی کہ میرے92ممبروں کو 180کر دیا جائے ۔آپ دیکھیں الیکشن کے بعد ان کی پی ٹی آئی نے پنجاب میں کافی حلقوں کے رزلٹ کو الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور اب تک جس بھی حلقے کا کیس سنا گیا اور کمیشن کے ممبر ،یا ہائی کورٹ کے جج نے دھاندلی کے ثبوت مانگے توان کے وکلا کے پاس کوئی ثبوت نہیں اور کہتےہیں کہ ہم نے ٹی وی میں رزلٹ سنے کہ ہم جیت رہے تھے اس پر جج صاحبان کا ایک ہی جواب تھا کہ جائو ٹی وی کے مالکان سے جاکے کامیابی کا نوٹیفکیشن نکلوائو -

دوسری طرف نوجوان پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مدبرانہ فیصلہ کرتے ہوئے ن لیگ کو ووٹ دینے کا اعلان کرکے ملک کو اس بحران سے نکالنے کے لئے قدم بڑھا یا ہے۔ اس سے پہلے بھی محترمہ بی بی کی شہادت پہ آصف علی زرداری نے ملک کو بحران سے نکالا تھا ۔ لیکن عمران خان اور اسکے یہ نوجوان عقل اور تعلیم کا ایسا استعمال کرکے دوسروں کے خلاف الزامات اور جھوٹا بیانیہ بناتے ہیں کہ عقل ششدر رہ جاتی ہے۔ ان نوجوانوں نے اپنے مخالفین کے خلاف جھوٹ اور الزام تراشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، نوجوان تو نوجوان عمران خان کے ہم عمر علی امین گنڈاپور کی تقریر سن لیں اور جس طرح وہ خواتین کو نشانہ بناتے ہیں، معزز معاشروں میں ایسا کرنے والے وزیر اعلیٰ ہائوس نہیں جیل جاتے ہیں۔ یقینی طور پر عمران خان کے پاس ایک بڑی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوان موجود ہیں جو ملک کو صحیح سمت میں لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اگر شیروں کے لشکر کی قیادت لومڑی کو دے دی جائے تو پھر شیر شیر نہیں رہتا اور یہ ہی حال پی ٹی آئی کے پڑھے لکھے نوجوانوں کا ہے جو عمران خان کو دیکھ کر اور ان کی پیروی کر کے اخلاقیات نامی چیز کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ عمران خان کے نوجوان یقینی طور پر پی ٹی آئی کی نمائندگی کرتے ہیں مگر پورے ملک کی نہیں، اب بھی دیہات کا رخ کریں تو وہاں بڑے چھوٹے کی تمیز نظر آتی ہے۔ آج بھی شہروں میں ایسے نوجوان ہیں جو بسوں، ویگنوں اور گاڑیوں میں بڑے بوڑھوں کا احترام کرتے نظر آتے ہیں، آج بھی پاکستان میں ایسے نوجوان ہیں جو سیاست میں خواتین کا احترام اپنے اوپر واجب سمجھتے ہیں، جو سیاست میں شائستگی اپناتے ہیں، میں نے بڑے شہروں میں ہوٹلوں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے نوجوانوں کو ایک دوسرے سے بحث کرتے دیکھا ہے جو تلخ بحث کے بعد بھی ایک ٹیبل پر چائے پی کر گلے ملتے دکھائی دیتے ہیں مگر یہ عمران خان کے متوالے اور چاہنے والے ہی ہیں جو گالی اور گولی سے بات کرتے ہیں، اوراپنے لیڈر کی پیروی کرتے کرتے اس کے بتائےراستے پہ چل پڑے ہیں ، جو گھڑی چور کو ایماندار جبکہ دیگر پورے ملک کو کرپٹ کہتے ہیں، ریاست کو سوچنے کی ضرورت ہےکہ یہ پڑھے لکھے نوجوان پر تشدد اور ذہنی مفلوج کیوں ہوگئے ہیں ؟ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ عمران خان کی 4 سالہ کارکردگی صفر رہی ہے۔ پھر بھی عمران خان کو مسیحا سمجھتے ہیں آخر کیوں؟ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ان نوجوانوں کی بڑی تعداد 18 سے 35 سال ہے، اور گزشتہ 20 سال سے جو میڈیا ہماری جمہوریت پسند جماعتوں کے ساتھ کرتا آیا ہے، اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے، اور اس کا فائدہ عمران خان کو ہوا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اسکول کی سطح سے ہی طلبہ و طالبات کو جہاں ہم دیگر مضمون پڑھاتے ہیں وہاں اخلاقیات اور سماجیات کے مضمون بھی پڑھائے جائیں تاکہ آنے والی نسل پھر کسی جھوٹے مسیحا کی مکاری کا شکار نہ ہو۔

برازیلی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ برازیل میں اسرائیلی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کریں گے۔

ڈی ایچ او ڈاکٹر حنیف میمن کا کہنا ہے کہ پورے ضلع میں خسرہ سے بچاؤ کی ویکسینیشن مہم جاری ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ بات چیت مثبت انداز میں جاری ہے، آج صبح دوبارہ نشست ہو گی۔

سپریم کورٹ نے سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا ڈکلیئریشن دے کر آئین بدلنے کی کوشش کی، تفصیلی فیصلہ

خاتون کرکٹر کائنات امتیاز نے کہا ہے کہ میں اگر پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں ہوتی تو ملتان ٹیم کا حصہ ہوتی۔

ڈیوٹی جج احمد ارشد جسرا نے ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی، جس میں شیر افضل مروت ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے۔

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 9 کے چوتھے میچ کوئٹہ گلیڈی کی طرف سے شاندار اننگز کھیلنے والے خواجہ نافع نے کہا ہے کہ فی الحال میرا فوکس پی ایس ایل ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق وزراء نے نامزد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور سے ملاقات کی ہے۔

مجھے جو پلان کپتان نے دیا تھا اس کے مطابق کھیلا، آل راؤنڈر لاہور قلندرز

افغانستان کے مشرقی علاقوں میں شدید برفباری اور بارش ہوئی ہے۔

ایک تازہ انٹرویو کے دوران وکرانت نے شوبز میں اپنے ابتدائی دور سے متعلق کھل کر گفتگو کی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں حکومت سازی، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بارے میں مشاورت ہوگی۔

ریاست آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والی اس بچی نے ناقابلِ تصور کارنامہ انجام دیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ تجاویز اور سفارشات کےلیے یکم مارچ 2024 کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے۔

سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ ہائیکورٹ نے مجھے راہداری ضمانت دی ہے، میرے خلاف جعلی مقدمات بنائے گئے، 9 مئی واقعات پر ہمارا موقف واضح ہے تحقیقات ہونی چاہیے۔

مخصوص نشستیں لینے کےلیے کسی سیاسی جماعت کی چھتری کے نیچے جانا پڑ رہا ہے، رہنما تحریک انصاف

QOSHE - محمد خان ابڑو - محمد خان ابڑو
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد خان ابڑو

15 23
20.02.2024

ملک میں سیاسی طور پر شعور کی موت ہوچکی ہے۔ نئی نوجوان نسل سے جب بات کرتا ہوں تو پریشان ہوجاتا ہوں، کبھی ہم جامعہ سندھ کے طالب علم تھے اور نوجوانی کا سحر ہم پر بھی طاری تھا، اکثر ہماری بحث کا موضوع سیاست ہوتی تھی، ہم علی امین گنڈاپور ( جو زبان و کلام سے غنڈہ پور کے شہری لگتے ہیں) کے بجائے مارکس اور اینگلز جیسی نامور شخصیات کے ساتھ ساتھ روسو اور فلسفہ سمیت معیشت، سیاست، سماجیات، نیشنلزم ، اشتراکیت وغیرہ پر نہ صرف بحث کرتے تھے بلکہ بائیں اور دائیں بازو کی سیاست کرتے ہوئے ایک نظریہ کے پیچھے اپنی زندگی گزارتے تھے، پھر ہم نے عجیب قسم کا نوجوان دیکھا جو کہتا ہے کہ کاش عمران خان میرے باپ ہوتے، یہ ہی نہیں کچھ خواتین تو یہ کہتی دکھائی دیں کہ میں عمران خان کے لیے اپنا شوہر چھوڑنے کوتیار ہوں، اور پھر ایسا ہی کچھ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کےدھرنے کے دوران دیکھنے کو ملا ، اس طرح کی گفتگو میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں سنی تھی۔ نوجوان جو عمران خان کے سحر میں مبتلا ہیں یہ نوجوان تعلیم، عقل اور اخلاقیات کو ایک ساتھ رکھ کر ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔مگر عمران خان کے ان ہمدردوں کے پاس تعلیم اور عقل ضرور ہے لیکن اخلاقیات کا جنازہ ان کے ہاں سے کئی سال پہلے نکل چکا ہے عمران کی ضد دیکھیں الیکشن کے بعد اپنی انا ،غرور میں کہاپی پی پی ،ن لیگ سے بات نہیں کرونگا اور اکیلے حکومت سازی کرونگا پھر اسکے لئے یہ مطالبہ بھی کہ میرے92ممبروں کو 180کر دیا جائے ۔آپ دیکھیں الیکشن کے بعد ان کی پی ٹی آئی نے پنجاب میں کافی حلقوں کے رزلٹ کو الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور اب تک جس بھی حلقے کا کیس سنا گیا اور کمیشن کے ممبر ،یا ہائی........

© Daily Jang


Get it on Google Play