تحریکِ انصاف میں اب فیصلے دور اندیشی کے ساتھ ہورہے ہیں جو پہلے اس میں عنقا تھی۔ پہلے فواد چوہدری کا پلڑ ا بھاری تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی نے ایک لیک آڈیو کال میں کہا تھا کہ یہ پہلے گرفتار ہو جاتا تو اسمبلیاں تو نہ ٹوٹتیں۔ دو مختلف تقاریب میں دو بڑے صحافیوں کو تھپڑ دے مارا۔ ٹی وی پروگرامز میں اینکر پر مسلسل طنزیہ فقرے کستے ۔

دوسری طرف شیخ رشید مخالفین پہ فقرے کس کر رہے ہوتے ۔ ان لوگوں نے عمران خان کو ایک بالکل ہی عجیب راستے پر لگا دیا تھا۔ ایک بار عمران خان نے مخالف خاتون سیاستدان کو کہا :میرا نام اتنا نہ لیا کرو ، تمہارا شوہر برا نہ مان جائے ۔ میراخیال ہے کہ یہ جملہ شیخ صاحب نے ان کے منہ میں ڈالا ۔ خود شیخ رشید بلاول کے بارے میں کس طرح کے جملے پاس کیا کرتے ۔ یہ انداز توتھڑوں پہ بیٹھنے والوں کو زیب دیتاہے ۔ ان دنوں ویسے بھی سیاست اس حد تک گر چکی ہے کہ ایک دوسرے کے نکاح چیک کیے جا رہے ہیں ۔

میں تحریکِ انصاف سے اس اقدام کی توقع نہیں کر رہا تھا کہ شکست خوردہ مولانا فضل الرحمٰن کو رام کر کے وہ اپنے مقصد کیلئے استعمال کر یں گے ۔یہ جملہ مولانا سے کہلوائیں گے کہ پی ڈی ایم کو کوئی اور کنٹرول کر رہا تھا۔ نہ ہی میں یہ توقع کر رہا تھا کہ پرویز خٹک کے ساتھ تعلقات ٹھیک کیے جائیں گے ۔عمران خان تو شیخ رشید سے ناراض ہوئے تو انہیں الیکشن میں مدد فراہم نہیں کی ۔

مشکلات میں ڈوبی ہوئی تحریکِ انصاف کے لئے کسی رجسٹرڈ سیاسی پارٹی سے اتحا دکرنا لازم تھا۔ مجلس وحدت المسلمین سے اتحاد کیاتو احتجاج کی آواز اٹھی ۔ پھر سنی اتحاد کونسل کو شامل کر لیا گیا تاکہ بیلنس ہو جائے ۔پارٹی کو خواتین اور اقلیتوں کی خصوصی نشستیں ہر قیمت پر چاہئیں ۔لگتا ایسا ہے کہ گوہر علی خان کے پارٹی چیئرمین بننے کے بعد تحریکِ انصاف کے رویے میں بہت تبدیلی آئی ہے ۔

تحریکِ انصاف کو ان مشکلات میں ڈالنے والوں میں سب سے بڑی شخصیت ان کی تھی، جنہوں نے بلّے کا نشان چھینا۔ اب تلملا رہے ہیں کہ تنقید کیوں ہو رہی ہے ۔شعیب بن عزیز کا ایک شعر ان کی خدمت میں عرض ہے۔

اب اداس پھرتے ہوئے سردیوں کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

منصوبہ سازوں کا خیال یہ تھا کہ تحریکِ انصاف سے بڑے لیڈر چھین لیے جائیں یا گھر بٹھا دیے جائیں ۔ بلے کا نشان چھین لیاجائے، جلسے نہ کرنے دیے جائیں ۔ باقی پولنگ کے دن کی دھاندلی کے بعد تحریکِ انصاف کے ہاتھ صرف آدھ کلو مونگ پھلی ہی رہ جائے گی ۔ صورتِ حال اب یہ ہے کہ تحریکِ انصاف بدستور ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے ۔ عمران خان آزاد ہوتے اور اگر جلسے کرنے کی آزادی ہوتی تو دو تہائی اکثریت سے انہوں نے جیتنا تھا ۔ اس وقت جو بے یقینی ملک میں نظر آرہی ہے ، وہ نہ ہوتی ۔

ہم ایک ایسے عہد میں زندہ ہیں ، جہاں زندے دہائیاں دے رہے اور مردوں کو انصا ف فراہم کیاجا رہا ہے ۔ منصوبہ ساز بیٹھ کر کیا منصوبے بناتے ہیں اور کون سا پیاز چھیلنے کیلئے میڈیا اور عوام کے سامنے رکھ دیتے ہیں ، ہم نہیں جانتے ۔ تاریخی دھاندلی کا اعتراف کرنے والے کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے جب یہ کہا کہ فوج نے بالکل ٹھیک الیکشن کرائے توآدھا معاملہ اسی وقت واضح ہو گیا۔

پھر لاہور کے ایک پریس پر صحافیوں نے چھاپا مارا ۔ نواز شریف والے حلقے کے بیلٹ پیپر وہاں ابھی چھاپے جا رہے ہیں ۔ ایک لمحے کیلئے مجھے شک ہوا کہ انتخابات میں اپنی تاریخی شکست کے بعد منصوبہ سازوں کامنصوبہ شاید یہ ہے کہ اب ساری عوامی تنقید کا ہدف میاں محمد نواز شریف کو بنا دیا جائے ۔ مرضی کے نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے تو الیکشن نتائج کو متنازع کر دیا جائے ۔ اشارہ بھی دیاگیا تھا کہ ایک قومی حکومت بنانے کا وہ سوچ رہے ہیں ۔ مسئلہ اب یہ ہے کہ قومی حکومت کا تجربہ پی ڈی ایم کی صورت میں پہلے ہی ناکام ہو چکا۔ تحریکِ انصاف ایسی کسی حکومت میں شامل نہ ہو گی ۔ پی ٹی آئی کے بغیر کسی پی ڈی ایم نما قومی حکومت کی کوئی قبولیت نہ ہو گی ۔

عمران خان کے بارے میں منصوبہ سازوں کے منصوبے کامیاب نہ ہو سکے ۔ انہوں نے اس کے اسکینڈل اچھالے ، آڈیوز ریکار ڈکیں ، بیوی کے سابق شوہر کو میدان میں اتارا۔ انتخابات میں تحریکِ انصاف کو تحلیل کرنے کی کوشش کی ، نہ کر سکے ۔

صورتِ حال اب یہ ہے کہ اکثریت کسی کے پاس نہیں ۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ میں مذاکرات کے پانچ دور ہو چکے ہیں ،نہ سیاسی پارٹیوں کو کچھ سمجھ آرہا ہے اور نہ پشت پناہوں کو۔

تدبیر کندبندہ ، تقدیر زند خندہ

اس کی نسبت کتنا اچھا ہوتا کہ عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے دیے جاتے، پھرغیر جانبدار الیکشن ہو جاتے ۔ تنقید سے بھی بچ جاتے اور دردسری سے بھی۔

اورآخر میں نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے ریٹرننگ افسران کی ٹرولنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے ۔گزارش یہ ہے :

رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو

تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو

واشنگٹن میں مقامی تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ امریکا جنوبی ایشیا کی سلامتی کے حوالے سے بھی توجہ مرکوز کرے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ ایم کیو ایم نے کسی بھی صوبائی اسمبلی کی نشست میں 5 ہزار ووٹ تک نہیں لیے۔

ذرائع کے مطابق گورنر پنجاب جیالا ہوگا، ن لیگ سندھ اور بلوچستان کے گورنر نامزد کرے گی۔

پاکستان میں انتخابات میں مداخلت یا فراڈ کے دعوؤں کی مکمل اور شفاف تحقیقات ہونی چاہیئے۔ میتھیو ملر

ملتان سلطان کے بیٹر ریزا ہینڈریکس کا کہنا ہے کہ کیچز ڈراپ ہوئے جو میچ کا حصہ ہے، فیلڈنگ میں امپروومنٹ کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کے کوچ مائیک ہیسن کا کہنا ہے کہ کنڈیشن ٹف تھی شروع میں بیٹرز کو پریشانی ہوئی، ہم گیم کو آخری بال تک لے گئے بدقسمتی سے جیت نہیں سکے۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حکومت سازی کےلیے ہماری نمبر پورے ہوچکے ہیں۔

وفاق میں حکومت سازی کے معاملے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی معاملات طے پاگئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ ہم اگلے الیکشن میں بلاول بھٹو کووزیراعظم بنوائیں گے۔

امریکہ نے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد ایک بار پھر ویٹو کر دی، امریکہ نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں الجزائر کی پیش کی گئی قرارداد کو ویٹو کیا۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ یہ شرائط منوانے یا مسلط کرنے کا وقت نہیں ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ ہماری خواہش تھی کہ پیپلز پارٹی کابینہ کا حصہ بنے۔

برطانیہ نے اسکولوں میں طلبا کے موبائل فون کے استعمال پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔

دنیا کے طویل القامت مرد اور پست ترین خاتون کی جوڑی چھ برس بعد ایک بار پھر گزشتہ روز کیلی فورنیا میں ملاقات ہوئی جہاں دونوں نے ایک ساتھ ناشتہ کیا۔

جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے ایل ایف او منظور کرواکر مشرف کی سہولت کاری کی، سیکریٹری اطلاعات پی پی

اسلام آباد یونائیٹڈ کی جانب سے دیا گیا 145 رنز کا ہدف ہوم ٹیم نے آخری اوور میں حاصل کیا۔

QOSHE - بلال الرشید - بلال الرشید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

بلال الرشید

18 0
21.02.2024

تحریکِ انصاف میں اب فیصلے دور اندیشی کے ساتھ ہورہے ہیں جو پہلے اس میں عنقا تھی۔ پہلے فواد چوہدری کا پلڑ ا بھاری تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی نے ایک لیک آڈیو کال میں کہا تھا کہ یہ پہلے گرفتار ہو جاتا تو اسمبلیاں تو نہ ٹوٹتیں۔ دو مختلف تقاریب میں دو بڑے صحافیوں کو تھپڑ دے مارا۔ ٹی وی پروگرامز میں اینکر پر مسلسل طنزیہ فقرے کستے ۔

دوسری طرف شیخ رشید مخالفین پہ فقرے کس کر رہے ہوتے ۔ ان لوگوں نے عمران خان کو ایک بالکل ہی عجیب راستے پر لگا دیا تھا۔ ایک بار عمران خان نے مخالف خاتون سیاستدان کو کہا :میرا نام اتنا نہ لیا کرو ، تمہارا شوہر برا نہ مان جائے ۔ میراخیال ہے کہ یہ جملہ شیخ صاحب نے ان کے منہ میں ڈالا ۔ خود شیخ رشید بلاول کے بارے میں کس طرح کے جملے پاس کیا کرتے ۔ یہ انداز توتھڑوں پہ بیٹھنے والوں کو زیب دیتاہے ۔ ان دنوں ویسے بھی سیاست اس حد تک گر چکی ہے کہ ایک دوسرے کے نکاح چیک کیے جا رہے ہیں ۔

میں تحریکِ انصاف سے اس اقدام کی توقع نہیں کر رہا تھا کہ شکست خوردہ مولانا فضل الرحمٰن کو رام کر کے وہ اپنے مقصد کیلئے استعمال کر یں گے ۔یہ جملہ مولانا سے کہلوائیں گے کہ پی ڈی ایم کو کوئی اور کنٹرول کر رہا تھا۔ نہ ہی میں یہ توقع کر رہا تھا کہ پرویز خٹک کے ساتھ تعلقات ٹھیک کیے جائیں گے ۔عمران خان تو شیخ رشید سے ناراض ہوئے تو انہیں الیکشن میں مدد فراہم نہیں کی ۔

مشکلات میں ڈوبی ہوئی تحریکِ انصاف کے لئے کسی رجسٹرڈ سیاسی پارٹی سے اتحا دکرنا لازم تھا۔ مجلس وحدت المسلمین سے اتحاد کیاتو احتجاج کی آواز اٹھی ۔ پھر سنی اتحاد کونسل کو شامل کر لیا گیا تاکہ بیلنس ہو جائے ۔پارٹی کو خواتین اور اقلیتوں کی خصوصی نشستیں ہر قیمت پر چاہئیں ۔لگتا ایسا ہے کہ گوہر........

© Daily Jang


Get it on Google Play