ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان مخلوط حکومت بنانے کا معاہدہ طے پا گیا۔ معاہدےکے نکات کی تمام تفصیل ابھی تک تو سامنے نہیں لیکن یہ فیصلہ ہو گیا ہےکہ آصف علی زرداری صدر ہوں گے، میاں شہبازشریف وزیراعظم بنیں گے۔ سپیکر قومی اسمبلی ن لیگ کا ہو گا،چیئرمین سینٹ کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہو گا۔ دو گورنر ن لیگ اور دو گورنرز کا تعلق پی پی پی سے ہوگا۔ اطلاعات ہیں کہ پیپلزپارٹی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہو گی لیکن ن لیگ کی حکومت کی قومی اسمبلی میں حمایت جاری رکھے گی جس کا مقصد شہباز حکومت کی ناکامیوں کی صورت میں تمام ملبہ ن لیگ پر ڈالنا ہے۔ اب ن لیگ ایم کیو ایم کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے کہ حکومت میں شامل ہونے کی صورت میں متحدہ کو کیا کیا ملے گا۔ پہلے تو اس بات کا افسوس ہے کہ جس انداز میں گزشتہ رات پریس کانفرنس کی گئی اُس میں تاثر یہی سامنے آیا کہ جتنے دن دونوں سیاسی جماعتیں حکومت سازی کیلئے بات چیت کرتی رہیں اُس کا فوکس آپس میں اعلیٰ حکومتی عہدوں کی بندربانٹ پر ہی رہا۔ کتنا اچھا ہوتا اگر دونوں سیاسی جماعتیں یہ بتاتیں کہ پاکستان کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے اور بہتر انداز حکمرانی دینے کیلئے وہ کیا کچھ ایسا کریں گے جو ماضی سے مختلف ہو اور جس کی بنا پر ملک اور عوام کو درپیش مشکلات کا خاتمہ ہو۔ بہرحال یہ فیصلہ ہوگیا کہ ن لیگ کا وزیراعظم بنے گا۔ پنجاب میں بھی ن لیگ کی طرف سے مریم نواز وزیراعلیٰ بنیں گی۔ انتہائی متنازع الیکشن کے بعد جس انداز میں جو جو سیاسی جماعتیں حکومتیں بنانے جا رہی ہیں ان میں سب سے زیادہ سیاسی خطرات ن لیگ کیلئے ہیں۔ فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ حکومت میں ن لیگ کا یہ آخری چانس ہے۔ میری ذاتی رائے میں یہ ن لیگ کا بہت بڑا اور بہت مشکل امتحان ہے جس میں ناکامی کی صورت میں واقعی ن لیگ کا یہ آخری چانس ہو سکتا ہے۔ پہلے تو وزیراعظم کیلئے شہباز شریف اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے مریم نواز کے نام کا اعلان ن لیگ کیلئے اُس تنقید کی وجہ بنا جس کے مطابق وزارتِ عظمیٰ اور وزارتِ اعلیٰ کیلئے شریف فیملی سے باہر کسی کو قابل نہیں سمجھا جاتا۔ پہلے ایک بھائی وزیراعظم اور دوسرا بھائی وزیراعلیٰ بنتا رہا۔ نواز شریف کی نااہلی کی بنا پر شہباز شریف وزیراعظم بنے اور اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوا دیا۔ اب پھر چچا وزیراعظم اور بھتیجی وزیراعلیٰ بننے جا رہے ہیں اور یہ وہ چیز ہے جس کو عوام میں انتہائی ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے ۔ ن لیگ کے اندر بھی اس کے خلاف بات کی جاتی ہے لیکن کسی کی جرات نہیں کہ وہ شریف فیملی کے سامنے یہ بات کرے۔ بہرحال اب ن لیگ کے شہباز شریف وزیراعظم اور مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب بننے جا رہی ہیں۔ ان کے سامنے پہاڑ جیسے مسائل ہیں، ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، عوام کا مہنگائی سے بُرا حال ہے، حکومتی ادارے اور سرکاری افسران اپنے فرائض نبھانے سے عاری ہیں جس کی وجہ سے عوام دھکے کھانے پر مجبور ہیں، رشوت اور سفارش عام ہیں، خراب طرزحکمرانی کی وجہ سے حکومتی ادارے کھربوں کا نقصان سالانہ کرتے ہیں، ٹیکس کوئی دیتا نہیں، قرضے ہیں کہ خطرناک حد تک بڑھ چکےہیں۔ماضی میں جو طرز حکمرانی ن لیگ کا رہا (بے شک وہ دوسروں سے بہتر بھی ہو) ویسا ہی معاملہ اگر آگے چلا تو پھر پاکستان کا بڑا نقصان ہو گا اور ن لیگ سیاست کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔ اب ایسا نہیں ہو سکتا کہ بڑے فیصلے نہ کیے جائیں، عوام کو سنگ دل سرکاری اداروں اور افسران کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے، افسر شاہی کو سیاسی بنیادوں پر ہی چلایا جائے۔ بہترین طرز حکمرانی اور مشکل معاشی فیصلے ہی پاکستان کو مشکلات سے بچا سکتے ہیں۔ جہاں تک طرز حکمرانی کا تعلق ہے تو ن لیگ کو یہ سوچنا چاہیے کہ اُن کی بار بار حکومتوں کے باوجود کسی بھی سرکاری محکمہ کی کارکردگی کیوں بہتر نہیں ہوئی۔ صرف سڑکیں، موٹرویز، میٹروز بنانے سے نہیں بلکہ عوام کو بہترین سروس ڈیلوری اور سرکاری محکموں سے اپنا اپنا کام بغیر سفارش اور رشوت کے کروانے کانام گڈگورننس ہے، جو ماضی میں ن لیگ سمیت کسی سیاسی جماعت کی ترجیح نہیں رہی۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

طلبہ کی جانب سے منشیات کے استعمال پر یونیورسٹی انتظامیہ نے تحقیقات کا آغاز کردیا۔

ٹوری اور ایس این پی اراکین نے ووٹنگ کی اجازت دینے کے اسپیکر کے فیصلے پر احتجاج کیا تھا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری آج کراچی میں پارٹی رہنماؤں سے الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔

امریکا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکومت بننے سے پہلے اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، کسی بھی ملک میں سیاسی اتحاد اس ملک کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔

کراچی ایئرپورٹ پر کسٹمز کی کارروائی، جعلی اماراتی درہم برآمد کرکے مسافر کو گرفتار کرلیا گیا۔

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ اتحادی حکومت کے 3 بڑے پارٹنر ہیں، مل کر سارے معاملات اچھے طریقے سے طے ہوں گے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما محسن شاہنواز رانجھا نے اپنی شکایات الیکشن ٹریبونل میں لے جانے کا اعلان کردیا۔

غزہ اور مقبوضہ فلسطین کے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس پر اسرائیل کے 57سالہ قبضہ کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں سماعت تیسرے دن بھی جاری رہی۔

ہندو مذہب کی توہین اور اس کے ماننے والوں کو دل آزاری کرنا میرا ارادہ نہیں تھا، وکرانت میسے

سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلیے الیکشن کمیشن سے رجوع کرلیا۔

کتنے فیصد پاکستانی اپنی مالی حالت سے پریشان ہیں؟ نیا سروے سامنے آگیا۔

شادی کے موقع پر دلہا دلہن عروسی جوڑے میں انتہائی دلکش دکھائی دیے، انکی شادی کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔

نگراں وفاقی کابینہ کا اجلاس کل طلب کرلیا گیا ہے۔ اسلام آباد سے ذرائع کے مطابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت کابینہ کا اجلاس دن 12 بجے اسلام آباد میں ہوگا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی تحقیقاتی کمیٹی نے سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ کے الزامات پر تحقیقات مکمل کرلی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نوٹس فراہمی کی وزارتِ دفاع کی رپورٹ سے آگاہ کیا۔ نوٹس درخواست گزار کی خاندان میں سے ایک خاتون نے وصول کیا، تحریری حکم نامہ

دفاعی چیمپئن لاہور قلندرز کی جانب سے دیا گیا 167 رنز کا ہدف ملتان سلطانز نے 19ویں اوور میں حاصل کرلیا۔

QOSHE - انصار عباسی - انصار عباسی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

انصار عباسی

34 0
22.02.2024

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان مخلوط حکومت بنانے کا معاہدہ طے پا گیا۔ معاہدےکے نکات کی تمام تفصیل ابھی تک تو سامنے نہیں لیکن یہ فیصلہ ہو گیا ہےکہ آصف علی زرداری صدر ہوں گے، میاں شہبازشریف وزیراعظم بنیں گے۔ سپیکر قومی اسمبلی ن لیگ کا ہو گا،چیئرمین سینٹ کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہو گا۔ دو گورنر ن لیگ اور دو گورنرز کا تعلق پی پی پی سے ہوگا۔ اطلاعات ہیں کہ پیپلزپارٹی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہو گی لیکن ن لیگ کی حکومت کی قومی اسمبلی میں حمایت جاری رکھے گی جس کا مقصد شہباز حکومت کی ناکامیوں کی صورت میں تمام ملبہ ن لیگ پر ڈالنا ہے۔ اب ن لیگ ایم کیو ایم کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے کہ حکومت میں شامل ہونے کی صورت میں متحدہ کو کیا کیا ملے گا۔ پہلے تو اس بات کا افسوس ہے کہ جس انداز میں گزشتہ رات پریس کانفرنس کی گئی اُس میں تاثر یہی سامنے آیا کہ جتنے دن دونوں سیاسی جماعتیں حکومت سازی کیلئے بات چیت کرتی رہیں اُس کا فوکس آپس میں اعلیٰ حکومتی عہدوں کی بندربانٹ پر ہی رہا۔ کتنا اچھا ہوتا اگر دونوں سیاسی جماعتیں یہ بتاتیں کہ پاکستان کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے اور بہتر انداز حکمرانی دینے کیلئے وہ کیا کچھ ایسا کریں گے جو ماضی سے مختلف ہو اور جس کی بنا پر ملک اور عوام کو درپیش مشکلات کا خاتمہ ہو۔ بہرحال یہ فیصلہ ہوگیا کہ ن لیگ کا وزیراعظم بنے گا۔ پنجاب میں بھی ن لیگ کی طرف سے مریم نواز وزیراعلیٰ بنیں گی۔ انتہائی متنازع الیکشن کے بعد جس انداز میں جو جو سیاسی جماعتیں حکومتیں بنانے جا رہی ہیں ان میں سب سے زیادہ سیاسی خطرات ن........

© Daily Jang


Get it on Google Play