حکومت سازی کیلئے نمائشی تعطل ختم ہوا۔ ہمارے زور آوروں نے جو کچھ چاہا، الحمد للہ وہ سب ہو گیا مگر اس میں کوئی چیز بھی انوکھی یانرالی نہیں۔ 9فروری کے روز ہی سب کچھ واضح تھا کہ سولہ ماہ والی سوغاتیں پھر مسلط ہونے جارہی ہیں ،بلند پرواز ہمارا وزیراعظم ہوگا اورسب پر بھاری اگلا صدر۔ تضادستان کی تو تقدیر میں ہی یہ لکھا ہے کہ اقتدار کے حریص چاہے بزرگ ہوں یا نوجوان جب اپنی آئی پر آجاتے ہیں یا عوام میں جگہ بنا لیتے ہیں تو کوئی ان کا رستہ نہیں روک سکتا وہ ملک کو توڑ کر بھی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہونے سے نہیں کتراتے، صلاحیت ہو نہ ہو عہدہ انہیں بڑا چاہیے آؤٹ پٹ یا ڈیلیوری جیسی بھی ہو ان کی بلا سے۔ یہی وہ لچھن ہیں جن کے کارن ہمارے نوجوان یورپ پہنچنے کی خاطر کشتیاں الٹنے سے ڈوب کر مررہے ہیں۔ مہنگائی، غربت، بھوک اور بے روزگاری نے ہمارے عوام کا کچومر نکال دیا ہے لیکن قیادتوں کے دعوے قابلِ ملاحظہ ہیں کہ انہوں نے کشمیر اور فلسطین کی جنگیں لڑنی ہیں۔‎لوگ کہتے ہیں کہ یہاں سیاسی بحران ہے بندہ عرض گزار ہے کہ سیاسی نہیںاخلاقی بحران ہے ،عقلی و شعوری بحران ہے، رواداری و برداشت کا بحران ہے، معاشی و سماجی بحران بھی انہی کا حصہ ہیں۔ اگررواداری سے کام لیا جائے تو ن لیگ اور پی پی میں کیا فرق ہے؟ کیا دونوں کی اعلیٰ قیادتوں نے برسوں قبل چارٹر آف ڈیموکریسی سائن کرتے ہوئے یہ طے نہیںکیا تھا کہ وہ آمریت کے بالمقابل آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئےایکتا کا مظاہرہ کرینگی، اگر یہ قومی سوچ یااپروچ حاوی ہو تو پھر چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر یہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف منافرت کیوں پھیلاتے ہیں بالخصوص ایک نوجوان نے ن لیگ کی قیادت کے خلاف لاہو رکے جلسوں میں کھڑے ہوکر جس نوع کی غیر ذمہ دارانہ زبان اپنائے رکھی کیا وہ مناسب تھی ۔ ان دنوں بھی بظاہر وہ لاکھ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے عہدے نہیں لینےمگر جن کی خدمت و خوشنودی کیلئے آپ میں ایک نوع کا دنگل برپا رہتا ہے ان کے اشارۂ ابرو پر آپ نےکڑوی گولیاں بھی کھالینی ہیں۔‎ کچھ ایسے بھی ملتے ہیں جو اپنی خوش گمانی اس طرح بیان کرتے ہیں کہ گویا آمریت کے بالمقابل جمہوریت یا سویلین اتھارٹی منوانے کا ایشو کھڑا ہوگیا ہے بندہ ان کی خدمت میں عرض گزارتا ہے کہ ان کا کھلاڑی تو وہ ہے جو طاقتوروں کو تاحیات سرپرست بنانےکو تیار ہے بشرطیکہ اُسے وزارتِ عظمیٰ کے سنگھاسن پر بٹھائے رکھو، چاہے سارے اختیارات تم لوگ خود ہی استعمال کرو، ہم بزدار کو بٹھائیں یا گوگی کو بس ہمارا شغل میلہ لگے رہنا چاہیے، یہ ہے ہماری فکری تنزلی کی حالت، یہی غیر سیاسی جنونی سوچ ہے کہ اتنی سیٹیں جیت کر بھی خلیل خان جیل میں فاختہ اڑا رہا ہے باقی’ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘۔اس وقت اصل خسارے میں ہمارے مولانا صاحب ہیں جو اچانک ہار کی فرسٹریشن میں وہ لائن لے بیٹھےجس میں سوائے خسارے کے کچھ نہیں ان کی اچھی بھلی بات بنی ہوئی تھی اب کے بھی کم از کم اتنی تو بنی رہ سکتی تھی جتنی ایم کیو ایم والوں کی مگر پریشانی و بدگمانی میں وہ اپنا ہی نقصان کر بیٹھے” سنی اتحاد کونسل ‘‘والے اپنا کچھ بھلا کرنے کے قابل نہیں ہیں انکی بھلائی وہ کیا کرسکتے ہیں اور پھر کے پی میں مولانا کا میچ جب بھی پڑنا ہے انہی شہد والوں سے پڑنا ہے جنکے ساتھ انہوں نےناسمجھی میں محبت کی پینگیں بڑھاناشروع کیں مگر حاصل حصول زیرو جمع زیرو رہا۔ اب دھاندلی دھاندلی کے کھیل پر ایکا ہے مگر کب تک؟ دھاندلی ایک ایسا رولا یا واویلا ہے جو سوائے ستر والے الیکشن کے ہر انتخابی معرکے کے بعد خوب اچھالا گیا اس کے وزن سے انکار نہیں لیکن اس کا حاصل حصول دو صورتوں میں ہی ہوسکتا ہے یا تو ایسے الزامات کو عدالتوں میں ثابت کیاجائے یا پھر بھرپور عوامی احتجاجی تحریک کے ذریعے اپنی سچائی منوائی جائے اگر آپ یہ دونوں کام نہیں کرسکتے تھے تو پھر پروپیگنڈا ٹول کے طور پر رولا ڈالتے رہیں لیکن سسٹم کے ساتھ چلتے ہوئے جمہوری تقاضے پورے کریں تاوقتیکہ عہدوں پر براجمان ہونے والے اپنی عوام دشمن پالیسیوں سے عوامی نظروں میں از خود راندۂ درگاہ ہوجائیں۔ن لیگ کے قائد نے موجودہ حالات میں خود وزیراعظم نہ بن کر جتنا اچھا فیصلہ کیا ہےلیکن اپنے بھائی کو اس عہدے پر بٹھا کر انہوں نے اتنا ہی بُرا کیا ہے’ آزمودہ را آزمو دن جہل است ‘کا یہی مطلب ہے۔ کیا آپ نے سولہ ماہ کے تجربے سے یہی سبق سیکھا ہے؟ آج آپ کے بالمقابل کوئی کھلاڑی یا پاپولر نہیں بلکہ آپ کی مقبولیت یا ساکھ کو جو نقصان سولہ ماہ کی حکمرانی نے پہنچایا ہےآج آپ نے دوبارہ اس کا اہتمام کردیا ہے، جس کی قیمت حسبِ سابق آپ کو اور آپ کی مقبولیت کو چکانی پڑے گی۔ عرض کی تھی کہ تین افراد سے سیاسی طور پر ایک فاصلہ رکھیے ،بہتر ہوتا کہ آپ پنجاب پر توجہ دیتے ہوئے وفاق میں اپنی حلیف پارٹی کو خوش کردیتے یا کم از کم اپنا گھوڑا ہی بدل لیتے آپ کے اصطبل میں اس حوالے سے کون سی کمی ہے اور آپ طاقتوروں کو قائل کرنے کی پوزیشن میں بھی ہیں۔

طلبہ کی جانب سے منشیات کے استعمال پر یونیورسٹی انتظامیہ نے تحقیقات کا آغاز کردیا۔

ٹوری اور ایس این پی اراکین نے ووٹنگ کی اجازت دینے کے اسپیکر کے فیصلے پر احتجاج کیا تھا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری آج کراچی میں پارٹی رہنماؤں سے الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔

امریکا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکومت بننے سے پہلے اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، کسی بھی ملک میں سیاسی اتحاد اس ملک کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔

کراچی ایئرپورٹ پر کسٹمز کی کارروائی، جعلی اماراتی درہم برآمد کرکے مسافر کو گرفتار کرلیا گیا۔

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ اتحادی حکومت کے 3 بڑے پارٹنر ہیں، مل کر سارے معاملات اچھے طریقے سے طے ہوں گے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما محسن شاہنواز رانجھا نے اپنی شکایات الیکشن ٹریبونل میں لے جانے کا اعلان کردیا۔

غزہ اور مقبوضہ فلسطین کے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس پر اسرائیل کے 57سالہ قبضہ کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں سماعت تیسرے دن بھی جاری رہی۔

ہندو مذہب کی توہین اور اس کے ماننے والوں کو دل آزاری کرنا میرا ارادہ نہیں تھا، وکرانت میسے

سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلیے الیکشن کمیشن سے رجوع کرلیا۔

کتنے فیصد پاکستانی اپنی مالی حالت سے پریشان ہیں؟ نیا سروے سامنے آگیا۔

شادی کے موقع پر دلہا دلہن عروسی جوڑے میں انتہائی دلکش دکھائی دیے، انکی شادی کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔

نگراں وفاقی کابینہ کا اجلاس کل طلب کرلیا گیا ہے۔ اسلام آباد سے ذرائع کے مطابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت کابینہ کا اجلاس دن 12 بجے اسلام آباد میں ہوگا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی تحقیقاتی کمیٹی نے سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ کے الزامات پر تحقیقات مکمل کرلی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نوٹس فراہمی کی وزارتِ دفاع کی رپورٹ سے آگاہ کیا۔ نوٹس درخواست گزار کی خاندان میں سے ایک خاتون نے وصول کیا، تحریری حکم نامہ

دفاعی چیمپئن لاہور قلندرز کی جانب سے دیا گیا 167 رنز کا ہدف ملتان سلطانز نے 19ویں اوور میں حاصل کرلیا۔

QOSHE - افضال ریحان - افضال ریحان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

افضال ریحان

11 0
22.02.2024

حکومت سازی کیلئے نمائشی تعطل ختم ہوا۔ ہمارے زور آوروں نے جو کچھ چاہا، الحمد للہ وہ سب ہو گیا مگر اس میں کوئی چیز بھی انوکھی یانرالی نہیں۔ 9فروری کے روز ہی سب کچھ واضح تھا کہ سولہ ماہ والی سوغاتیں پھر مسلط ہونے جارہی ہیں ،بلند پرواز ہمارا وزیراعظم ہوگا اورسب پر بھاری اگلا صدر۔ تضادستان کی تو تقدیر میں ہی یہ لکھا ہے کہ اقتدار کے حریص چاہے بزرگ ہوں یا نوجوان جب اپنی آئی پر آجاتے ہیں یا عوام میں جگہ بنا لیتے ہیں تو کوئی ان کا رستہ نہیں روک سکتا وہ ملک کو توڑ کر بھی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہونے سے نہیں کتراتے، صلاحیت ہو نہ ہو عہدہ انہیں بڑا چاہیے آؤٹ پٹ یا ڈیلیوری جیسی بھی ہو ان کی بلا سے۔ یہی وہ لچھن ہیں جن کے کارن ہمارے نوجوان یورپ پہنچنے کی خاطر کشتیاں الٹنے سے ڈوب کر مررہے ہیں۔ مہنگائی، غربت، بھوک اور بے روزگاری نے ہمارے عوام کا کچومر نکال دیا ہے لیکن قیادتوں کے دعوے قابلِ ملاحظہ ہیں کہ انہوں نے کشمیر اور فلسطین کی جنگیں لڑنی ہیں۔‎لوگ کہتے ہیں کہ یہاں سیاسی بحران ہے بندہ عرض گزار ہے کہ سیاسی نہیںاخلاقی بحران ہے ،عقلی و شعوری بحران ہے، رواداری و برداشت کا بحران ہے، معاشی و سماجی بحران بھی انہی کا حصہ ہیں۔ اگررواداری سے کام لیا جائے تو ن لیگ اور پی پی میں کیا فرق ہے؟ کیا دونوں کی اعلیٰ قیادتوں نے برسوں قبل چارٹر آف ڈیموکریسی سائن کرتے ہوئے یہ طے نہیںکیا تھا کہ وہ آمریت کے بالمقابل آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئےایکتا کا مظاہرہ کرینگی، اگر یہ قومی سوچ یااپروچ حاوی ہو تو پھر چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر یہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف منافرت کیوں پھیلاتے ہیں بالخصوص ایک نوجوان نے ن لیگ کی قیادت کے خلاف لاہو رکے جلسوں میں کھڑے ہوکر جس نوع کی غیر ذمہ........

© Daily Jang


Get it on Google Play