21 فروری کی شام اطلاع ملی کہ نذیر ناجی ہم سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو ناجی صاحب منوں مٹی تلے سپرد خاک ہو چکے ہوں گے۔ نذیر ناجی سے یادوں کا سلسلہ بہت دراز ہے، ان سے دوستی رہی، انکے بچوں سے بھی دوستی ہے۔ نذیر ناجی کی زندگی میں وہی نشیب و فراز رہے جو عام گھرانوں کے محنتی بچوں کو درپیش آتے ہیں۔ دنیا انہیں ایک کامیاب صحافی اور کالم نگار کے طور پر جانتی ہے مگر بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ نذیر ناجی غربت کی کوکھ میں پلنے والا وہ بچہ تھا جو تعلیم بھی پوری طرح حاصل نہ کر سکا۔ پاکستان میں نذیر ناجی کے بچپن کے دن جھنگ میں بسر ہوئے۔ غربت اتنی تھی کہ تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا دشوار ہو گیا، غربت مزید بڑھی تو اس ذہین ترین بچے کے ہاتھ میں قلم کی بجائے تھال آ گیا۔ ماں گھر سے سموسے تیار کر کے دیتی اور یہ بچہ ہاتھوں میں تھال اُٹھائے بسوں میں سموسے بیچ کر لوٹتا۔ شام ڈھلتی تو ادبی ذوق پالنے کیلئے جھنگ کی شعری محفلوں میں جا بیٹھتا۔ جھنگ ایک ادبی فضا کا حامل شہر تھا، نذیر ناجی کا ابتدائی تخلص’’نجی‘‘تھا۔ انکی ابتدائی زندگی سے واقفیت رکھنے والے لوگ انہیں نذیر نجی کے طور پر جانتے ہیں، بعد میں کوچہ صحافت میں آ کر وہ نذیر ناجی ہو گئے۔ غربت کے دراز ہوتے ہوئے قد کو کم کرنے کیلئے نذیر ناجی کو لڑکپن ہی میں جھنگ چھوڑنا پڑا، وہ لائل پور آ گئے۔ لائل پور جسے آج کل لوگ فیصل آباد کے نام سے جانتے ہیں۔ لائل پور میں بطور رپورٹر صحافتی زندگی کا آغاز کیا پھر لاہور چلے آئے، لاہور میں کچھ عرصہ کام کیا پھر کراچی چلے گئے۔ کراچی اس وقت پاکستان کا وفاقی دارالحکومت تھا اور جنگ جیسے بڑے اخبار کا ہیڈ آفس بھی کراچی میں تھا۔ نذیر ناجی سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ہفت روزہ اخبار جہاں کے بانی ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے اخبار جہاں کو مقبول عام بنانے کیلئے اپنے صحافتی جوہر دکھائے پھر ایک اور زمانہ آیا، 1970ء کے انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی کی خبریں کوئی اخبار نہیں چھاپتا تھا، ایک ہفت روزہ تھا جس میں بھٹو صاحب کی کوریج ہوتی تھی۔ نذیر ناجی اس ہفت روزہ کے ایڈیٹر تھے۔ 1970ء میں انتخابات جیت کر پیپلز پارٹی اقتدار میں آ گئی پھر نذیر ناجی پیپلز پارٹی کی ترجمانی کرنے والے اخبار کے ایڈیٹر بن گئے۔ نذیر ناجی کو قریب سے جاننے والےکو معلوم ہے کہ انہوں نے اپنی شادی کے موقع پر بھی خود کو بڑا آدمی ثابت کیا پھر ایک اور زمانہ آیا، ضیاء الحق نے مارشل لا لگا دیا، انہی برسوں میں نذیر ناجی نے اپنا ذاتی اخبار روزنامہ حیات کے نام سے شروع کیا۔ مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید اس اخبار میں اکاؤنٹنٹ تھے۔ واضح رہے کہ میاں نواز شریف سے پرویز رشید کو ملوانے والے نذیر ناجی ہی تھے۔ اپریل 1986ء میں بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد سے پہلے نذیر ناجی لندن گئے، بے نظیر بھٹو سے تین ملاقاتیں کیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مجھے اپنا وزن دوسرے پلڑے میں ڈالنا چاہئے، سو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ میاں نواز شریف کے بیانیے کو آگے بڑھائیں گے۔ وہ نواز شریف کے قریب تر ہوتے گئے حتیٰ کہ انکے تقریر نویس بن گئے۔ 1997ء میں انہیں اکادمی ادبیات کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ نذیر ناجی میرے محسن ہیں، میرے والدین اور بڑے بھائی کی ایک حادثے میں وفات ہو چکی تھی، ابھی شاید پانچواں یا چھٹا روز تھا کہ ناجی صاحب کے بیٹے کی شادی کا دن آ گیا۔ میں نے اپنے بھائی سے گزارش کی کہ جو لوگ تعزیت کیلئےآ رہے ہیں آپ انکے ساتھ فاتحہ خوانی کریں، میں چند گھنٹوں میں لاہور سے ہو کر آ رہا ہوں۔ میں شادی میں شریک ہونے کیلئے جونہی لاہور کے ایک بڑے ہوٹل کے ہال میں داخل ہوا تو ناجی صاحب نے مجھے دیکھتے ہی پنجابی میں کہا ’’دھن جگرا او تیرا‘‘۔ میں نے ان سے بس یہ عرض کیا کہ دوستوں کی خوشیوں میں شریک ہونا چاہئے۔ خیر اسکے بعد اسلام آباد میں ملاقات ہوئی، میں وہاں ایک روزنامے میں کام کرتا تھا، میرے مشکل ترین حالات میں ناجی صاحب کہنے لگے’’جتنی تم اخبار سے تنخواہ لیتے ہو اتنی تنخواہ تمہیں اکادمی ادبیات بھی دیا کرے گی، آج سے تم اکادمی ادبیات کے ماہانہ مجلے کے اعزازی مدیر ہو، ہم تمہیں یہ تنخواہ اعزازیہ کی صورت میں دیں گے‘‘۔ حالات چلتے رہے پھر 12 اکتوبر 1999ء آ گیا۔ سختیاں ہونے لگیں، کچھ دن حراست میں رہنے کے بعد ناجی صاحب رہا ہو کر لاہور آگئے۔ ان سے ملاقاتیں رہیں پھر جب 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو میں جب بھی لاہور آتا تو صحافیوں کی ایک محفل سجاتا، عام طور پر اس کی صدارت ناجی صاحب ہی کرتے، کبھی عباس اطہر بھی مہمان خصوصی ہوتے۔ سہیل وڑائچ، سعید قاضی، وجاہت مسعود اور طاہر سرور میر سمیت کئی صحافی سامعین کا روپ دھار لیتے۔ نذیر ناجی عظیم آدمی تھے، انکی عظمت کی کئی کہانیاں ہیں، عباس اطہر سمیت کئی صحافیوں کو انہوں نے کراچی بلوایا اور صحافتی گر سکھائے۔ نذیر ناجی طویل عرصے تک روزنامہ جنگ سے منسلک رہے۔ ناجی صاحب بہت زبردست شاعر تھے۔ آج انہی کا شعر آپ کی نذر کرتا ہوں

اب میں ہوں مری جاگتی راتیں ہیں

خدا ہے یا ٹوٹتے پتوں کے بکھرنے کی صدا ہے

رہنما پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ یہ حرکت پاکستان کے معاشی مستقبل سے کھلواڑ کے مترادف ہے، پی ٹی آئی کو پاکستان میں صرف انتشار، عدم استحکام اور افراتفری چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شان ٹیٹ کے ساتھ سیکھنے کا موقع مل رہا ہے، بیٹنگ اور بولنگ میں اچھی پرفارمنس جارہی ہے، کپتان کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا۔

ملاقات میں حکومت سازی کے حوالے سے اہم امور پر تبادلہ خیال متوقع ہے۔

حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ عالمی عدالت میں اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والے تمام ممالک کے بیانات کی قدر کرتے ہیں۔

آخری دو میچ تھوڑی مختلف پچز پر ہوئے، فلیٹ پچز پر میچز ہوتے تو بیٹرز زیادہ رنز بناتے۔مائیک ہیسمین

بلوم برگ کا کہنا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے توسیعی فنڈ کی سہولت پر بات چیت کرے گا۔

بڑا بھائی بھی ڈومیسٹک سطح پر کرکٹ کھیلا ہے لیکن زیادہ آگے نہ بڑھ سکا، فاسٹ بولر پشاور زلمی

انتخابات میں دھاندلی نہیں دھاندلا ہوا ہے، مینڈیٹ کی چوری ملک سے غداری ہے، رہنما تحریک انصاف

درخواست گزار نے پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے اتحاد یا انضمام معاہدے کی دستاویزات مانگ لیں۔

الیکشن کمیشن نے این اے 47 سے آزاد امیدوار شعیب شاہین کی درخواست مسترد کر دی،

شاہراہ قراقرم 2 روز بعد عارضی طور پر یکطرفہ کھول دی گئی ہے۔ دیامر میں پولیس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ لینڈ سلائیڈنگ کے باعث شاہراہ قراقرم بھاشا اور تھور مینار کے مقامات پر بند تھی۔

ترجمان نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 223 تھری کے تحت کسی بھی اسمبلی کی نشست لینے سے قبل باقی تمام نشستوں سے استعفیٰ دینا ہوگا۔

میں اپنے انتخابی حلقے میں دھاندلی کے الزامات کو غیرسنجیدہ نہیں لے سکتا، چیئرمین پی پی پی

عدالت نے چیف کمشنر اسلام آباد کی جانب سے جواب داخل کروانے کیلئے مہلت کی استدعا پر سماعت 2 ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی۔

انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں امتحانی نتائج میں ہیرا پھیری کے قصور وار افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی سفارش کردی۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کی جانب سے دیا گیا 139 رنز کا ہدف کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم 19ویں اوور میں حاصل کرلیا۔

QOSHE - مظہر برلاس - مظہر برلاس
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مظہر برلاس

21 14
23.02.2024

21 فروری کی شام اطلاع ملی کہ نذیر ناجی ہم سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو ناجی صاحب منوں مٹی تلے سپرد خاک ہو چکے ہوں گے۔ نذیر ناجی سے یادوں کا سلسلہ بہت دراز ہے، ان سے دوستی رہی، انکے بچوں سے بھی دوستی ہے۔ نذیر ناجی کی زندگی میں وہی نشیب و فراز رہے جو عام گھرانوں کے محنتی بچوں کو درپیش آتے ہیں۔ دنیا انہیں ایک کامیاب صحافی اور کالم نگار کے طور پر جانتی ہے مگر بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ نذیر ناجی غربت کی کوکھ میں پلنے والا وہ بچہ تھا جو تعلیم بھی پوری طرح حاصل نہ کر سکا۔ پاکستان میں نذیر ناجی کے بچپن کے دن جھنگ میں بسر ہوئے۔ غربت اتنی تھی کہ تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا دشوار ہو گیا، غربت مزید بڑھی تو اس ذہین ترین بچے کے ہاتھ میں قلم کی بجائے تھال آ گیا۔ ماں گھر سے سموسے تیار کر کے دیتی اور یہ بچہ ہاتھوں میں تھال اُٹھائے بسوں میں سموسے بیچ کر لوٹتا۔ شام ڈھلتی تو ادبی ذوق پالنے کیلئے جھنگ کی شعری محفلوں میں جا بیٹھتا۔ جھنگ ایک ادبی فضا کا حامل شہر تھا، نذیر ناجی کا ابتدائی تخلص’’نجی‘‘تھا۔ انکی ابتدائی زندگی سے واقفیت رکھنے والے لوگ انہیں نذیر نجی کے طور پر جانتے ہیں، بعد میں کوچہ صحافت میں آ کر وہ نذیر ناجی ہو گئے۔ غربت کے دراز ہوتے ہوئے قد کو کم کرنے کیلئے نذیر ناجی کو لڑکپن ہی میں جھنگ چھوڑنا پڑا، وہ لائل پور آ گئے۔ لائل پور جسے آج کل لوگ فیصل آباد کے نام سے جانتے ہیں۔ لائل پور میں بطور رپورٹر صحافتی زندگی کا آغاز کیا پھر لاہور چلے آئے، لاہور میں کچھ عرصہ کام کیا پھر کراچی چلے گئے۔ کراچی اس وقت پاکستان کا وفاقی دارالحکومت تھا اور جنگ جیسے بڑے اخبار کا ہیڈ آفس بھی کراچی میں تھا۔ نذیر ناجی سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ہفت روزہ اخبار جہاں کے بانی ایڈیٹر........

© Daily Jang


Get it on Google Play