عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے نئی حکومت کم از کم چھ ملین ڈالر قرض حاصل کرنا چاہتی ہے۔گزشتہ برس مختصر مدت کے بیل آؤٹ پیکیج کی بدولت ہم ڈیفالٹ سے نکل آئے تھے، اگلے ماہ وہی تلوار دوبارہ لٹکنے والی ہے۔ نئی حکومت کو 350 ارب ڈالر کی معیشت مستحکم رکھنےکیلئے پھر عالمی بینک کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونا ہے۔پھربینک کا کوئی کلرک مطالبات کی نئی فہرست ہمارے وزیز خزانہ کے ہاتھ میں پکڑا دے گا۔ابھی چھ ماہ پہلے ہم نے آئی ایم ایف کے کہنے پر سود کی شرحوں میں اضافہ کیا۔ پٹرول ،بجلی اور قدرتی گیس کی قیمتیں بڑھائیں۔ ابھی پھر نئے مطالبات تیار ہیں۔آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کمیونی کیشنز جولی کوزیک نے کہاہےکہ ہم پاکستان میں میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے کیلئے نئی حکومت کے ساتھ پالیسیوں پر کام کرنے کے منتظر ہیں۔ایوب خان کے دور سے اس وقت آئی ایم ایف نے جتنے مطالبات کیے ہیں انہیں جمع کیا جائے تو ایک پوری کتاب بن جائے گی ۔ایسا ایسا مطالبہ اس میں موجود ہے کہ کسی کو بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔اگرچہ دفتر خارجہ نے اس کی تردید کی ہے مگر امریکی اشاعتی ادارے 'دی انٹرسیپٹ کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے معاہدے کو محفوظ بنانے کیلئے امریکہ کے راستے سے یوکرین کو ہتھیار فراہم کیے ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے مہاجن کی ہر الٹی سیدھی بات ماننا پڑتی ہے ۔ ایک سو تیس ارب ڈالر کا معاملہ ہے، تسلیم کہ یہ ساری دولت ہماری اشرافیہ ڈکار گئی ہےمگر واپس توقوم کو کرنی ہے۔آج تک آئی ایم ایف کے جتنے مطالبات آئے ۔ان سے پاکستان کے غریب لوگ تکلیف میں گئے ہیں ۔امیروں پر زیادہ ٹیکس لگانے کا کوئی مطالبہ آئی ایم ایف کی فہرستوں میں کہیں موجود نہیں ۔پہلی بار عمران خان نےقوم کے نمائندے کے طور پر انہیں خط لکھا ہےکہ جس حکومت کو آپ فنڈ فراہم کر نے والے ہیں یہ عوام کی نمائندہ نہیں ۔سوکل کلاں اس کی واپسی مشکل ہوجائے گی ۔آپ اسے انتخابات کے آزادانہ آڈٹ سے مشروط کریں ۔اس خط پر نئی حکومت بہت سیخ پا ہے،وکیلوں سےپوچھتے پھرتے ہیں کہ اس خط لکھنے پر کیا عمران خان پرایک اور ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی۔

آئی ایم ایف اگراس مطالبے کو اپنے مطالبات میں شامل کرتی ہےتو پہلی بار وہ پاکستانی عوام کے حق کی کوئی بات کرے گی اوراگر نئی حکومت آئی ایم ایف کا مطالبہ نہیں مانتی اور ملک کو ڈیفالٹ کرا دیتی ہے توپھر قصور وار نئی حکومت ہوگی ،عوام یا اس کا اکلوتا نمائندہ نہیں ۔سچ تو یہ ہے مہنگائی پہلے ہی اتنی بڑھ چکی ہے کہ غریب عوام کیلئے ملک کا ڈیفالٹ ہونا نہ ہونا ایک برابر ہو گیا ہے ۔ سن 1980 کے بعد سے اب تک غریب عوام کو دی جانے والی زیادہ ترسبسڈیز ختم کر دی گئی ہیں ۔ آئی ایم ایف کا قرضہ جو 70 کی دہائی میں 10 ارب ڈالرز بھی نہیں تھا وہ130 ارب ڈالرز کیسے ہوااور یہ اتنی بڑی رقم کہاں گئی ، اس وقت صورتحال یہ ہے قرضوں کی ادائیگی، خسارے میں چلنے والے قومی ادارے اور انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو پیسوں کی ادائیگی کے بعدقومی خزانے کی تجوری تقریباً خالی ہوجاتی ہے،ہمیں انہیں پورا کرنےکیلئے اپنے دفاعی بجٹ کو بھی کم کرنا پڑا ہے جو موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں خود کشی کے مترادف ہے ۔ 1980 ء کی دہائی میں جب عالمی مالیاتی اداروں کے کہنے پر نیو لبرل معاشی پالیسی شروع کی گئی تھی، تو کہا گیا تھا کہ سرکاری اداروں کو بیچ کر قرض ادا کیا جائے گا اور ان اداروں پر خرچ ہونے والے پیسے کو عوامی فلاح پر لگایا جائے گا۔ لیکن آج 80 فیصد کے قریب لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، ڈھائی کروڑ کے قریب بچے اسکول سے باہر ہیں، 44 فیصد بچوں کے مناسب خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے قد نہیں بڑھیں گے اور چھ کروڑ سے زیادہ افراد غربت کی سطح سے نیچےزندگی بسر کر رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں اس ظلم کی ذمہ دار آئی ایم ایف نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرض کی اس رقم کا استعمال کیا۔2002 کی بات ہے برازیل نے اپنے قرضوں کی وجہ سے ڈیفالٹ ہونے سے قبل آئی ایم ایف کا قرض حاصل کیااورمعیشت کو کامیابی کے ساتھ بحال کرلیا ۔یقین کیجئے اس نے دو سال قبل ہی اپنا تمام قرضہ ادا کر دیاتھا۔پاکستان میں ہر حکومت نے جتنا ممکن تھاقرضہ لیا مگر کہاں خرچ کیااس کا کوئی بائیو ڈیٹا کہیں موجود نہیں ۔بس اتنا پتہ ہے کہ ہمارے اخراجات تقریباً 15 ٹریلین روپے ہیں ۔حکومت کی آمدنی دس ٹریلین روپے ہے۔ہر نئی حکومت کو ہر سال تقریباً پانچ ٹریلین پاکستانی روپے کی کمی کا مداوا کرنا ہوتا ہے سو قرضہ در قرضہ لیناہماری مجبوری بنتا چلا جارہا ہے ۔

عمران خان کے خط کے حوالے سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر آئی ایم ایف نے یہ شرط عائد کی تو نئی حکومت ملک کو دیوالیہ کرا دے گی مگر یہ شرط نہیں مانے گی ،کیونکہ اس شرط کے ماننے سے حکومت کے اپنے گر جانے کا خدشہ ہے ،یعنی انہیں پتہ ہے کہ عوام نے ہمیں حکومت کرنے کا حق نہیں دیا۔ہم نے یہ حق کہیں اورسے حاصل کیا ہے ۔اس لئے انہیں عمران خان کا یہ خط سنساتی ہوئی گولی کی طرح دکھائی دے رہا ہے جو انہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔

میئر لندن صادق خان نے لی اینڈرسن کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ٹوری ایم پی کا بیان جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔

پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے مشترکہ طور پر سابق صدر آصف علی زرداری کو صدر کا امیدوار نام زد کیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ چاہتی ہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی کا انتخاب بلامقابلہ ہو۔

انجن بند ہونے سے طیارہ حادثہ کا شکار ہوگیا، 99 مسافروں سمیت 101 افراد جاں بحق ہوئےتھے، 2 مسافر خوش قسمتی سے بچ گئے تھے۔

عامر ڈوگر نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے نامزد امیدوار میاں اسلم اقبال کو ہاؤس میں بلانا چاہیے تھا، میاں اسلم اقبال ہاؤس میں نہ آسکے تو نیا نام فائنل کرنا پڑا۔

خلاف ورزی کرنیوالے تارکین وطن کو 6 ماہ جیل کی سزا ہوگی، سعوی حکام

پولیس کا کہنا ہے کہ مشکوک افراد پنجاب اسمبلی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

نامزد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ پولیس گردی کا رویہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

83 کامیاب امیدواروں کا ذریعہ آمدنی کاروبار، جبکہ 20 نے صرف سیاست کرنے کا بتایا۔

پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت بیرسٹر گوہر علی خان کے پاس پہنچ گئے اور ان کے ساتھ ویڈیو پیغام جاری کیا۔

بالی ووڈ اسٹار اداکار عامر خان نے طلاق کے بعد کرن راؤ سے پوچھا تھا’ بطور شوہر مجھ میں کیا کمی تھی؟‘

جس طرح آغاز ہوا ہے کوششش کروں گا کہ پورا ٹورنامنٹ ایسا رہے، آل راؤنڈر اسلام آباد یونائیٹڈ

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ ہم اپنی 90 فیصد نشستوں پر بڑی لیڈ سے کامیاب ہوئے ہیں۔

لاہور قلندرز کی جانب سے دیا گیا 176 رنز کا ہدف کراچی کنگز نے 8 وکٹوں کے نقصان پر آخری گیند پر حاصل کیا۔

ایک روز قبل بھارتی شہر گوا میں رکول پریت سنگھ اور جیکی بھنگانی کی شادی ہوئی۔

سنی اتحاد کونسل کے احمد خان بھچر کا کہنا ہے کہ ان کے ارکان کو اسمبلی آنے سے روکا جا رہا ہے، میاں اسلم اقبال محفوظ مقام پر ہیں۔

QOSHE - منصور آفاق - منصور آفاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

منصور آفاق

8 24
25.02.2024

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے نئی حکومت کم از کم چھ ملین ڈالر قرض حاصل کرنا چاہتی ہے۔گزشتہ برس مختصر مدت کے بیل آؤٹ پیکیج کی بدولت ہم ڈیفالٹ سے نکل آئے تھے، اگلے ماہ وہی تلوار دوبارہ لٹکنے والی ہے۔ نئی حکومت کو 350 ارب ڈالر کی معیشت مستحکم رکھنےکیلئے پھر عالمی بینک کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونا ہے۔پھربینک کا کوئی کلرک مطالبات کی نئی فہرست ہمارے وزیز خزانہ کے ہاتھ میں پکڑا دے گا۔ابھی چھ ماہ پہلے ہم نے آئی ایم ایف کے کہنے پر سود کی شرحوں میں اضافہ کیا۔ پٹرول ،بجلی اور قدرتی گیس کی قیمتیں بڑھائیں۔ ابھی پھر نئے مطالبات تیار ہیں۔آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کمیونی کیشنز جولی کوزیک نے کہاہےکہ ہم پاکستان میں میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے کیلئے نئی حکومت کے ساتھ پالیسیوں پر کام کرنے کے منتظر ہیں۔ایوب خان کے دور سے اس وقت آئی ایم ایف نے جتنے مطالبات کیے ہیں انہیں جمع کیا جائے تو ایک پوری کتاب بن جائے گی ۔ایسا ایسا مطالبہ اس میں موجود ہے کہ کسی کو بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔اگرچہ دفتر خارجہ نے اس کی تردید کی ہے مگر امریکی اشاعتی ادارے 'دی انٹرسیپٹ کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے معاہدے کو محفوظ بنانے کیلئے امریکہ کے راستے سے یوکرین کو ہتھیار فراہم کیے ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے مہاجن کی ہر الٹی سیدھی بات ماننا پڑتی ہے ۔ ایک سو تیس ارب ڈالر کا معاملہ ہے، تسلیم کہ یہ ساری دولت ہماری اشرافیہ ڈکار گئی ہےمگر واپس توقوم کو کرنی ہے۔آج تک آئی ایم ایف کے جتنے مطالبات آئے ۔ان سے پاکستان کے غریب لوگ تکلیف میں گئے ہیں ۔امیروں پر زیادہ ٹیکس لگانے کا کوئی مطالبہ آئی ایم ایف کی فہرستوں میں کہیں موجود........

© Daily Jang


Get it on Google Play