پاکستان میں 8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کو حکومت بنانےکیلئے سادہ اکثریت نہیں ملی۔ پاکستان تحریک انصاف سے انتخابی نشان ’بلا‘ واپس لئے جانے کےبعد ان کے امیدواروں نے مختلف انتخابی نشانات پر آزاد حیثیت سے حصہ لیا۔ انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف سمیت کئی سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں۔ کئی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے انتخابی نتائج تبدیل کرنے کے الزامات لگا کر الیکشن کمیشن کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ماضی میں ہونے والے انتخابات کو عوام کی بڑی تعداد نے شفاف قرار دیا یا اس وقت بھی دھاندلی اور غیر منصفانہ انتخابات کے الزامات لگائے گئے۔

پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے الیکشن مارچ 1951میں پنجاب اسمبلی کی 197نشستوں کیلئے ہوئے جس میں 7جماعتوں نے حصہ لیا۔ ووٹر لسٹ میں صرف 10لاکھ ووٹرز تھے۔ ان انتخابات پر بھی عوام کی طرف سے کئی طرح کے اعتراضات سامنے آئے۔ ان انتخابات کے بعد 1954 میں پاکستان نے دوسری مجلسِ قانون ساز تشکیل دی۔ جس نے وَن یونٹ نظام کے تحت 1956میں پاکستان کا پہلا آئین بنایا۔ تاہم صدر میجر جنرل اسکندر مرزا نے جنرل ایوب خان کی مدد سے 1958 میں مارشل لا لگا دیا، 20روز بعد جنرل ایوب خان نے جنرل اسکندر مرزا کو اتار کر خود صدارت سنبھال لی۔ جنرل ایوب خان نے بہت سے سیاستدانوں اور اسمبلی کے اراکین کو سات برس کیلئے انتخابات کیلئے نااہل قرار دے دیا، اس کے بعد ایک آئینی کمیشن بنایا گیا جس نے 1962 میں صدارتی آئین بنایا۔ 1962کے آئین کے تحت 156 اراکین نے قومی اسمبلی کو منتخب کیا۔ اس انتخاب کیلئے عوام نے ووٹ نہیں ڈالے بلکہ صدر ایوب کے بنیادی جمہوری نظام کے تحت عوام کے ووٹ سے بننے والے 80ہزار بیسک ڈیموکریٹس (بی ڈی ممبرز) نےووٹ ڈالے۔ بیسک ڈیموکریٹس نے جنوری 1965 کو صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو صدر منتخب کیا۔ حقیقت میں پاکستان میں پہلے عام انتخابات 1970کو ہوئے۔ جس کے نتائج کے پاکستان کےمستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں بھاری اکثریت حاصل کی۔ دوسری طرف مغربی پاکستان میں پی پی نے اکثریت حاصل کی۔ لیکن اس کے بعد ایسے نا خوشگوار واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے 1971میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ مغربی پاکستان میں ان انتخابات کے بعد بھٹو نے اپنی حکومت بنا لی۔

پاکستان کے دوسرے عام انتخابات مارچ 1977ء میں ہوئے جن میں پی پی نے 155نشستیں حاصل کیں، پاکستان قومی اتحاد کو 36جبکہ پاکستان مسلم لیگ قیوم کو ایک نشست ملی۔ پاکستان قومی اتحادکی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں نے حکمران پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) پر انتخابی دھاندلی کا الزام لگا دیا۔ اسکے بعد اپوزیشن جماعتوں نے مل کر حکمران پارٹی کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر دی، ملک میں سیاسی افراتفری پھیل گئی۔ اس صورتحال کو دیکھ کر جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ اس کے نتیجے میں دوسرے عام انتخابات منسوخ کر دیے گئے اور جمہوری حکومت معطل کر دی گئی۔ پاکستان کے تیسرے عام انتخابات 16 نومبر، 1988ء کو منعقد کیے گئے، ان انتخابات میں بینظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی، بینظیر بھٹو کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی خاتون حکمران بننے کا موقع ملا۔

پاکستان کے چوتھے عام انتخابات 24اکتوبر، 1990ء کو منعقد کیے گئے۔ ان انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کو اکثریت ملی۔ آئی جے آئی کی طرف سے میاں محمد نواز شریف ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ اپریل 1993میں نواز شریف کو اس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان نے وزیراعظم کے عہدے سے اپنے اختیارات استعمال کر کے ہٹا دیا۔

پاکستن کے پانچویں عام انتخابات 6 اکتوبر، 1993ء کو منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں بینظیر بھٹو ایک بار پھر اکثریت لے کر وزیراعظم بن گئیں۔ اگلے انتخابات 3 فروری، 1997ء کو منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ ن کو بڑی اکثریت حاصل ہوئی اورنواز شریف دوسری بار وزیراعظم بنے۔ اس کے بعد 1999میں نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی اور سپہ سالار پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔

پاکستان کے ساتویں عام انتخابات 10اکتوبر، 2002ء کو منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں اپوزیشن کی بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں کو شرکت کی اجازت نہ ملی۔ ان انتخابات میں صدر پرویز مشرف کی حمایت یافتہ مسلم لیگ ق (قائد اعظم) کو حکومت ملی۔ مسلم لیگ ق کی طرف سے میر ظفراللہ خان جمالی کو وزیر اعظم بنایا گیا لیکن ان کو جلد ہی تبدیل کر کے ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنادیا گیا۔ آٹھویں انتخابات 18 فروری 2008میں ہوئے۔ ان انتخابات سے قبل 27دسمبر کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو کو جلسہ کرنے کے بعد دہشت گردی کے واقعہ میں قتل کر دیا گیا۔ ان انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔

2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو 166نشستیں ملیں۔ نواز شریف نےآزاد اراکین کو اپنے ساتھ شامل کر کے واضح اکثریت حاصل کر لی جس کے بعد نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ نواز شریف کی حکومت تقریباً ساڑھے تین سال قائم رہی جس کے بعد انکے خلاف پانامہ کیس سامنے آ گیا۔ نواز شریف کو اس کیس میں نااہل قرار دے دیا گیا اور ان کی جگہ مسلم لیگ ن کے ہی رہنما شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔

25جولائی 2018کو پاکستان میں عام انتخابات ہوئے اور پندرہویں قومی اسمبلی کا انعقاد کیا گیا۔ ان انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں (پی ٹی آئی) عمران کی پارٹی کو ملی۔ پی ٹی آئی نے مجموعی طور پر 149نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ ن نے 82 جبکہ پیپلز پارٹی نے 54 نشستیں حاصل کیں۔ عمران خان کو آزاد آراکین اور اتحادی جماعتوں کے ووٹ بھی مل گئے اور وہ وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ عمران خان کی حکومت تقریباً پونے 4 سال قائم رہی جسکے بعد انکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہو گئی اور شہباز شریف نئے وزیر اعظم بن گئے۔

میئر لندن صادق خان نے لی اینڈرسن کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ٹوری ایم پی کا بیان جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔

پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے مشترکہ طور پر سابق صدر آصف علی زرداری کو صدر کا امیدوار نام زد کیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ چاہتی ہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی کا انتخاب بلامقابلہ ہو۔

انجن بند ہونے سے طیارہ حادثہ کا شکار ہوگیا، 99 مسافروں سمیت 101 افراد جاں بحق ہوئےتھے، 2 مسافر خوش قسمتی سے بچ گئے تھے۔

عامر ڈوگر نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے نامزد امیدوار میاں اسلم اقبال کو ہاؤس میں بلانا چاہیے تھا، میاں اسلم اقبال ہاؤس میں نہ آسکے تو نیا نام فائنل کرنا پڑا۔

خلاف ورزی کرنیوالے تارکین وطن کو 6 ماہ جیل کی سزا ہوگی، سعوی حکام

پولیس کا کہنا ہے کہ مشکوک افراد پنجاب اسمبلی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

نامزد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ پولیس گردی کا رویہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

83 کامیاب امیدواروں کا ذریعہ آمدنی کاروبار، جبکہ 20 نے صرف سیاست کرنے کا بتایا۔

پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت بیرسٹر گوہر علی خان کے پاس پہنچ گئے اور ان کے ساتھ ویڈیو پیغام جاری کیا۔

بالی ووڈ اسٹار اداکار عامر خان نے طلاق کے بعد کرن راؤ سے پوچھا تھا’ بطور شوہر مجھ میں کیا کمی تھی؟‘

جس طرح آغاز ہوا ہے کوششش کروں گا کہ پورا ٹورنامنٹ ایسا رہے، آل راؤنڈر اسلام آباد یونائیٹڈ

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ ہم اپنی 90 فیصد نشستوں پر بڑی لیڈ سے کامیاب ہوئے ہیں۔

لاہور قلندرز کی جانب سے دیا گیا 176 رنز کا ہدف کراچی کنگز نے 8 وکٹوں کے نقصان پر آخری گیند پر حاصل کیا۔

ایک روز قبل بھارتی شہر گوا میں رکول پریت سنگھ اور جیکی بھنگانی کی شادی ہوئی۔

سنی اتحاد کونسل کے احمد خان بھچر کا کہنا ہے کہ ان کے ارکان کو اسمبلی آنے سے روکا جا رہا ہے، میاں اسلم اقبال محفوظ مقام پر ہیں۔

QOSHE - جنت اعجاز - جنت اعجاز
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

جنت اعجاز

9 1
25.02.2024

پاکستان میں 8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کو حکومت بنانےکیلئے سادہ اکثریت نہیں ملی۔ پاکستان تحریک انصاف سے انتخابی نشان ’بلا‘ واپس لئے جانے کےبعد ان کے امیدواروں نے مختلف انتخابی نشانات پر آزاد حیثیت سے حصہ لیا۔ انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف سمیت کئی سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں۔ کئی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے انتخابی نتائج تبدیل کرنے کے الزامات لگا کر الیکشن کمیشن کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ماضی میں ہونے والے انتخابات کو عوام کی بڑی تعداد نے شفاف قرار دیا یا اس وقت بھی دھاندلی اور غیر منصفانہ انتخابات کے الزامات لگائے گئے۔

پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے الیکشن مارچ 1951میں پنجاب اسمبلی کی 197نشستوں کیلئے ہوئے جس میں 7جماعتوں نے حصہ لیا۔ ووٹر لسٹ میں صرف 10لاکھ ووٹرز تھے۔ ان انتخابات پر بھی عوام کی طرف سے کئی طرح کے اعتراضات سامنے آئے۔ ان انتخابات کے بعد 1954 میں پاکستان نے دوسری مجلسِ قانون ساز تشکیل دی۔ جس نے وَن یونٹ نظام کے تحت 1956میں پاکستان کا پہلا آئین بنایا۔ تاہم صدر میجر جنرل اسکندر مرزا نے جنرل ایوب خان کی مدد سے 1958 میں مارشل لا لگا دیا، 20روز بعد جنرل ایوب خان نے جنرل اسکندر مرزا کو اتار کر خود صدارت سنبھال لی۔ جنرل ایوب خان نے بہت سے سیاستدانوں اور اسمبلی کے اراکین کو سات برس کیلئے انتخابات کیلئے نااہل قرار دے دیا، اس کے بعد ایک آئینی کمیشن بنایا گیا جس نے 1962 میں صدارتی آئین بنایا۔ 1962کے آئین کے تحت 156 اراکین نے قومی اسمبلی کو منتخب کیا۔ اس انتخاب کیلئے عوام نے ووٹ نہیں ڈالے بلکہ صدر ایوب کے بنیادی جمہوری نظام کے تحت عوام کے ووٹ سے بننے والے 80ہزار بیسک ڈیموکریٹس (بی ڈی ممبرز) نےووٹ ڈالے۔ بیسک ڈیموکریٹس نے جنوری 1965 کو صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو صدر منتخب کیا۔ حقیقت........

© Daily Jang


Get it on Google Play