ملک کے سیاسی اور معاشی حالات گزشتہ کچھ عرصے میں جس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ اس سے ہر طبقہ فکر میں پریشانی پائی جاتی ہے کیونکہ عام انتخابات سے پہلے ملک جس سیاسی خلفشار کا شکار تھا وہ ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آ رہا ۔ ان حالات میں اگر ملک کے حالات بہتر بنانے ہیں اور ملک کو ترقی یافتہ و خوشحال بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا ہے تو اس کیلئے علاقائی تجارت اور تعلقات کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے ایک طرف جہاں لوگوں میں پائی جانے والی مایوسی کا خاتمہ ہو گا وہیں پاکستان کے اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں بہتری آئے گی اور بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کا مثبت امیج اجاگر ہو گا۔

اس حوالے سے پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع، موجودہ بنیادی ڈھانچے اور اقتصادی مواقع کی وجہ سے وسطی ایشیا اور بھارت کے علاوہ دیگر ہمسایہ ممالک کے مابین تجارت کا اہم ذریعہ بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بننے والے انفراسٹرکچر کی وجہ سے بھی خطے میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں تاریخی طور پر بھی پاکستان میں شامل علاقے ماضی میں وسطی ایشیا کو برصغیر پاک و ہند سے ملانے والے قدرتی راستے کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کا محل وقوع ایران یا چین سے گزرنے والے تجارتی راستوں کے مقابلے میں مختصر فاصلے والا کم خرچ تجارتی راستہ فراہم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں چین پاکستان اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ کی ترقی نے وسطی ایشیا اور بھارت کے ساتھ پاکستان کے رابطوں کے مواقع کو بڑھایا ہے۔ گوادر بندرگاہ، جو بحیرہ عرب پر واقع ہے، بین الاقوامی منڈیوں بشمول وسطی ایشیا اور بھارت کے ساتھ براہ راست سمندری رابطہ فراہم کر سکتی ہے۔

پاکستان گزشتہ کئی سال سے سڑکوں، ریلوے اور بندرگاہوں سمیت اپنے ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ یہ پیشرفت چین کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا اور ہندوستان کے درمیان سامان کی آسانی سے نقل و حرکت میں بھی سہولت فراہم کرسکتی ہے۔ اس سے جہاں خطے میں نقل و حمل کے اخراجات اور سفر میں ضائع ہونے والے وقت میں کمی آئے گی وہیں اقتصادی راہداری کے طور پر وصول ہونے والے محصولات اور ان سے منسلک دیگر کاروباری مواقع بھی بڑھیں گے اور اقتصادی طور پر پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر فروغ دیا جا سکے گا۔ اس سلسلے میں چین اور دیگر دوست ممالک کو اعتماد میں لے کر وسطی ایشیا اور بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدے اور اقتصادی تعاون کے فریم ورک کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

وسطی ایشیا اور بھارت کے ساتھ تجارت کو وسعت دینا پاکستان کے لیے اپنے تجارتی پورٹ فولیو کو متنوع بنانے اور روایتی تجارتی شراکت داروں پر انحصار کم کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ تنوع چند منڈیوں پر حد سے زیادہ انحصار سے وابستہ خطرات کو کم کرنے میں بھی مدد فراہم کر سکتا ہے۔ تاہم اس کیلئے سیاسی استحکام اور سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے بھی ضروری ہے تاکہ حکومتوں کی تبدیلی یا سیاسی حالات میں تبدیلی سے یہ عمل کسی تعطل کا شکار نہ ہو۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات وسط ایشیائی ممالک کے اضافی توانائی کے وسائل کے مطابق ہیں۔ توانائی کے شعبے میں تعاون، جیسے توانائی کی راہداری کے معاہدوں یا قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں مشترکہ منصوبوں کے ذریعے وسط ایشیائی ممالک سے اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔

اس وقت پاکستان میں توانائی، انفراسٹرکچر، مینوفیکچرنگ اور زراعت سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ وسطی ایشیا اور بھارت کے درمیان تجارت میں اضافہ ان شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس سلسلے میں سرحد پار تجارت کو آسان بنانے، کسٹم کے طریقہ کار کو ہموار کرنے اور تجارتی رکاوٹوں کو کم کرنےکیلئےپالیسی اصلاحات کا نفاذ علاقائی تجارتی انضمام کیلئے زیادہ سازگار ماحول پیدا کر سکتا ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ وسطی ایشیا اور بھارت کے درمیان تجارت بڑھانے کی پاکستان کی صلاحیت اس کے اسٹرٹیجک محل وقوع، بہتر انفراسٹرکچر، سفارتی مصروفیات اور اقتصادی تعاون کے مواقع میں مضمر ہے۔ ان فوائد سے فائدہ اٹھا کر پاکستان علاقائی تجارت اور اقتصادی انضمام کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرکے خطے کا اہم اقتصادی کھلاڑی بن سکتا ہے۔

‏ایک اندازے کے مطابق اگر صرف ہندوستان کو وسطی ایشیا اور وسطی ایشیا کو ہندوستان تک زمینی راستے کے ذریعے رسائی دے دی جائے اور گوادر پورٹ کو مکمل طور پر فعال کرکے چین اور مشرق وسطی کو لنک کیا جائےتو پاکستان کو راہداری کی مد میں ہی سالانہ اربوں ڈالر کی آمدنی حاصل ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں ہندوستان سے تجارت کے ذریعے دونوں ممالک کی زراعت اور کسانوں کو بھی خاطر خواہ فائدہ ہو گا۔ اگرچہ اس وقت یہ تجاویز دیوانے کا خواب محسوس ہوتی ہیں کیونکہ دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین طویل عرصے سے جاری سیاسی تناؤ، غیر حل شدہ علاقائی تنازعات اور سلامتی کے خدشات اقتصادی تعاون میں رکاوٹ ہیں۔ تاہم ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ اعتماد سازی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دیئے بغیر ان مسائل کا حل نکلنا ناممکن ہے۔ اس لئے اگر نئی حکومت ملک کی ترقی اور خوشحالی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی کوئی پالیسی ترتیب دیگی تو تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس میں اپنا مثبت کردار ضرور ادا کرنا چاہیے کیونکہ اقتصادی تعاون میں اضافہ اقتصادی ترقی اور علاقائی استحکام کیلئے بے پناہ امکانات رکھتا ہے۔

میئر لندن صادق خان نے لی اینڈرسن کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ٹوری ایم پی کا بیان جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔

پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے مشترکہ طور پر سابق صدر آصف علی زرداری کو صدر کا امیدوار نام زد کیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ چاہتی ہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی کا انتخاب بلامقابلہ ہو۔

انجن بند ہونے سے طیارہ حادثہ کا شکار ہوگیا، 99 مسافروں سمیت 101 افراد جاں بحق ہوئےتھے، 2 مسافر خوش قسمتی سے بچ گئے تھے۔

عامر ڈوگر نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے نامزد امیدوار میاں اسلم اقبال کو ہاؤس میں بلانا چاہیے تھا، میاں اسلم اقبال ہاؤس میں نہ آسکے تو نیا نام فائنل کرنا پڑا۔

خلاف ورزی کرنیوالے تارکین وطن کو 6 ماہ جیل کی سزا ہوگی، سعوی حکام

پولیس کا کہنا ہے کہ مشکوک افراد پنجاب اسمبلی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

نامزد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ پولیس گردی کا رویہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

83 کامیاب امیدواروں کا ذریعہ آمدنی کاروبار، جبکہ 20 نے صرف سیاست کرنے کا بتایا۔

پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت بیرسٹر گوہر علی خان کے پاس پہنچ گئے اور ان کے ساتھ ویڈیو پیغام جاری کیا۔

بالی ووڈ اسٹار اداکار عامر خان نے طلاق کے بعد کرن راؤ سے پوچھا تھا’ بطور شوہر مجھ میں کیا کمی تھی؟‘

جس طرح آغاز ہوا ہے کوششش کروں گا کہ پورا ٹورنامنٹ ایسا رہے، آل راؤنڈر اسلام آباد یونائیٹڈ

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ ہم اپنی 90 فیصد نشستوں پر بڑی لیڈ سے کامیاب ہوئے ہیں۔

لاہور قلندرز کی جانب سے دیا گیا 176 رنز کا ہدف کراچی کنگز نے 8 وکٹوں کے نقصان پر آخری گیند پر حاصل کیا۔

ایک روز قبل بھارتی شہر گوا میں رکول پریت سنگھ اور جیکی بھنگانی کی شادی ہوئی۔

سنی اتحاد کونسل کے احمد خان بھچر کا کہنا ہے کہ ان کے ارکان کو اسمبلی آنے سے روکا جا رہا ہے، میاں اسلم اقبال محفوظ مقام پر ہیں۔

QOSHE - کاشف اشفاق - کاشف اشفاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کاشف اشفاق

23 1
25.02.2024

ملک کے سیاسی اور معاشی حالات گزشتہ کچھ عرصے میں جس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ اس سے ہر طبقہ فکر میں پریشانی پائی جاتی ہے کیونکہ عام انتخابات سے پہلے ملک جس سیاسی خلفشار کا شکار تھا وہ ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آ رہا ۔ ان حالات میں اگر ملک کے حالات بہتر بنانے ہیں اور ملک کو ترقی یافتہ و خوشحال بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا ہے تو اس کیلئے علاقائی تجارت اور تعلقات کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے ایک طرف جہاں لوگوں میں پائی جانے والی مایوسی کا خاتمہ ہو گا وہیں پاکستان کے اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں بہتری آئے گی اور بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کا مثبت امیج اجاگر ہو گا۔

اس حوالے سے پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع، موجودہ بنیادی ڈھانچے اور اقتصادی مواقع کی وجہ سے وسطی ایشیا اور بھارت کے علاوہ دیگر ہمسایہ ممالک کے مابین تجارت کا اہم ذریعہ بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بننے والے انفراسٹرکچر کی وجہ سے بھی خطے میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں تاریخی طور پر بھی پاکستان میں شامل علاقے ماضی میں وسطی ایشیا کو برصغیر پاک و ہند سے ملانے والے قدرتی راستے کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کا محل وقوع ایران یا چین سے گزرنے والے تجارتی راستوں کے مقابلے میں مختصر فاصلے والا کم خرچ تجارتی راستہ فراہم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں چین پاکستان اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ کی ترقی نے وسطی ایشیا اور بھارت کے ساتھ پاکستان کے رابطوں کے مواقع کو بڑھایا ہے۔ گوادر بندرگاہ، جو بحیرہ عرب پر واقع ہے، بین الاقوامی منڈیوں بشمول وسطی ایشیا اور بھارت کے ساتھ براہ راست سمندری رابطہ فراہم کر سکتی ہے۔

پاکستان گزشتہ کئی سال سے سڑکوں، ریلوے اور بندرگاہوں سمیت اپنے........

© Daily Jang


Get it on Google Play