الیکشن 2024کے نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی عددی اعتبار سے زیادہ نشستیں ہیں جن کی تعداد 93ہے۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کی 75جبکہ پیپلز پارٹی کی 54نشستیں ہیں۔حکومت سازی کیلئے سب سے پہلے عددی اکثریت کی بنا پر تحریک انصاف کو سامنے آنا چاہیے تھا مگر اس کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ وہ مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھے گی۔ دوسرے اعلان میں کہا گیا کہ وہ مرکز اور پنجاب دونوں جگہ حکومت بنائے گی۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان اعلان کر چکے ہیں کہ حکومت سازی کیلئے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے کوئی رابطہ کریں گے، نہ ہی ان کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔ پھر تحریک انصاف کے وزیر اعظم کے امیدوار عمر ایوب کی طرف سے کہا گیا کہ ہم مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے جا رہے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ نہ جانے کس بنیاد پر تھا کیونکہ اکیلے وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں جبکہ کسی اور پارٹی کو وہ قریب ہی نہیں آنے دینا چاہتے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین معاملات طے نہیں ہو رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ وہ مسلم لیگ ن کی حکومت سازی میں سپورٹ کرے گی لیکن خود حکومت کا حصہ نہیں بنے گی۔ مسلم لیگ ن اکیلے بوجھ اٹھانے کیلئے تیار نہیں تھی آخر کار حکومت سازی کا فارمولا طے پا گیا ہے۔ تاہم انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ کچھ لوگ تو الیکشن کالعدم کرانےکیلئے سپریم کورٹ بھی چلے گئے تھے۔ میں یہاں قارئین کو بتاتا چلوں کہ پاکستان میں 8فروری کے پارلیمانی عام انتخابات ملک کی سیاسی تاریخ کے سب سے متنازع الیکشن ثابت ہوئے ہیں، جن کی شفافیت پر مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ان سوالات نے پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ مرکز میں منقسم مینڈیٹ کی وجہ سے تینوں بڑی جماعتوں میں سے کوئی بھی تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بلاشبہ اس وقت پاکستان کو ایک نازک معاشی صورتحال کا سامنا ہے اور اس طرح کے چیلنجز کو حل کرنے کیلئے ایک مضبوط اور مقبول حکومت کی ضرورت ہے جو بڑے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، کیونکہ معاشی عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے میں سفارتی سطح پر بھی ملک کی تنہائی کو ختم کرنا اور اسے آگے لے کر جانا مشکل ہو گا۔ افغانستان، بھارت اور ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ اگر چہ پاکستان کے چین، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق ہیں لیکن یہ ممالک پاکستان کی اندرونی سیاسی غیر یقینی صورتحال سے پریشان ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے ان کی مستقبل کی پالیسیوں کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہو گا کہ انتخابات کے بعد حالات معمول پر آتے ہیں یا نہیں؟ اگر حالیہ گومگو کی کیفیت جلد ختم نہ ہوئی اور الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہا تو معاشی کے ساتھ ساتھ سیکورٹی کے محاذ پر بھی حالات تشویش ناک حد تک بگڑ سکتے ہیں۔ بلوچ باغی، ٹی ٹی پی اور داعش صورتحال سے فائدہ اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے۔ حالیہ بحرانی کیفیت سیاستدانوں اور گزشتہ 5برس کے دوران مسلط حکومتوں کی وجہ سے ہے، اگر اب بھی بے یقینی کے بادل چھائے رہے تو بہتری کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ ان حالات میں لازم ہے کہ دھاندلی کے الزامات کو سنجیدگی سے لیا جائے، ملک اور نظام کے مستقبل پر چھائے شکوک شہبات کے سائے دور کرنے کی خاطر فوری طور پر جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ اس الیکشن کو نہ ماننے کے لئے اس وقت جے یو آئی (ف)، جی ڈی اے، جماعت اسلامی، تحریک لبیک اور سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی نے دھرنے دینے اور احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر شکایات کا ازالہ نہ کیا گیا اور یہ عدم اعتماد اور عدم استحکام قائم رہا ہو تو خدانخواستہ 1977جیسی صورتحال پیدانہ ہوجائے جب انتخابی دھاندلی کے الزامات کے نتیجے میں ایک بڑی عوامی تحریک چلی اور انجام طویل مارشل لا کی صورت سامنے آیا۔ اس وقت لازم ہے کہ ایک جانب انتخابی دھاندلی کے الزامات کی عدالتی تحقیقات کا فوری اعلان کر دیا جائے، تو دوسری جانب یہ بھی لازم ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر لا کر سیاسی مکالمہ شروع کروایا جائے تاکہ سیاسی اتفاق رائے سے ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے عمل کا آغاز کیا جا سکے۔

پہلے سے بحرانوں کے شکار پاکستان میں انتخابات ایک امید کی حیثیت رکھتے تھے کہ اس کے بعد حالات درست ہو سکتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ سیاسی مفادات کی وجہ سے دستیاب مینڈیٹ کے اندر رہ کر بھی اتحادیوں کیلئے حکومت بنانا مشکل ہو گیا ہے۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان جاری حکومت سازی کیلئے مذاکرات صرف اس لئے نتیجہ خیز نہیں ہو رہے تھے کہ دونوں پارٹیاں اپنے اپنے مفاد سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھیں حیرت انگیز صورتحال یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں میں جہاں دیدہ سیاستدان موجود ہیں اور وہ بخوبی آگاہ تھے کہ تاخیر کا مطلب کیا ہو گا، خیر دیر آید درست آید حکومت سازی کا معاملہ طے پا گیا ہے لیکن یہ سوچنا چاہئے کہ یہ تاخیر آئی ایم ایف پروگرام کیلئے خطرے کی گھنٹی بنتی جا رہی تھی جس کے نتیجے میں ملکی معیشت ایک بار پھر دیوالیہ ہونے کی راہ پر چل پڑی تھی۔ جبکہ دوسری جانب آئی ایم ایف نے سالانہ ترقیاتی منصوبوں کی شفافیت پر بھی اعتراض اٹھا دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق ایس ڈی پی کے تحت ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی مکمل معلومات دستیاب نہیں، آئی ایم ایف نے تجویز پیش کی ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کا دستاویزی عمل موثر بنایا جائے۔

میئر لندن صادق خان نے لی اینڈرسن کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ٹوری ایم پی کا بیان جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔

پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے مشترکہ طور پر سابق صدر آصف علی زرداری کو صدر کا امیدوار نام زد کیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ چاہتی ہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی کا انتخاب بلامقابلہ ہو۔

انجن بند ہونے سے طیارہ حادثہ کا شکار ہوگیا، 99 مسافروں سمیت 101 افراد جاں بحق ہوئےتھے، 2 مسافر خوش قسمتی سے بچ گئے تھے۔

عامر ڈوگر نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے نامزد امیدوار میاں اسلم اقبال کو ہاؤس میں بلانا چاہیے تھا، میاں اسلم اقبال ہاؤس میں نہ آسکے تو نیا نام فائنل کرنا پڑا۔

خلاف ورزی کرنیوالے تارکین وطن کو 6 ماہ جیل کی سزا ہوگی، سعوی حکام

پولیس کا کہنا ہے کہ مشکوک افراد پنجاب اسمبلی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

نامزد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ پولیس گردی کا رویہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

83 کامیاب امیدواروں کا ذریعہ آمدنی کاروبار، جبکہ 20 نے صرف سیاست کرنے کا بتایا۔

پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت بیرسٹر گوہر علی خان کے پاس پہنچ گئے اور ان کے ساتھ ویڈیو پیغام جاری کیا۔

بالی ووڈ اسٹار اداکار عامر خان نے طلاق کے بعد کرن راؤ سے پوچھا تھا’ بطور شوہر مجھ میں کیا کمی تھی؟‘

جس طرح آغاز ہوا ہے کوششش کروں گا کہ پورا ٹورنامنٹ ایسا رہے، آل راؤنڈر اسلام آباد یونائیٹڈ

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ ہم اپنی 90 فیصد نشستوں پر بڑی لیڈ سے کامیاب ہوئے ہیں۔

لاہور قلندرز کی جانب سے دیا گیا 176 رنز کا ہدف کراچی کنگز نے 8 وکٹوں کے نقصان پر آخری گیند پر حاصل کیا۔

ایک روز قبل بھارتی شہر گوا میں رکول پریت سنگھ اور جیکی بھنگانی کی شادی ہوئی۔

سنی اتحاد کونسل کے احمد خان بھچر کا کہنا ہے کہ ان کے ارکان کو اسمبلی آنے سے روکا جا رہا ہے، میاں اسلم اقبال محفوظ مقام پر ہیں۔

QOSHE - خلیل احمد نینی تا ل والا - خلیل احمد نینی تا ل والا
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

خلیل احمد نینی تا ل والا

9 16
25.02.2024

الیکشن 2024کے نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی عددی اعتبار سے زیادہ نشستیں ہیں جن کی تعداد 93ہے۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کی 75جبکہ پیپلز پارٹی کی 54نشستیں ہیں۔حکومت سازی کیلئے سب سے پہلے عددی اکثریت کی بنا پر تحریک انصاف کو سامنے آنا چاہیے تھا مگر اس کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ وہ مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھے گی۔ دوسرے اعلان میں کہا گیا کہ وہ مرکز اور پنجاب دونوں جگہ حکومت بنائے گی۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان اعلان کر چکے ہیں کہ حکومت سازی کیلئے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے کوئی رابطہ کریں گے، نہ ہی ان کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔ پھر تحریک انصاف کے وزیر اعظم کے امیدوار عمر ایوب کی طرف سے کہا گیا کہ ہم مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے جا رہے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ نہ جانے کس بنیاد پر تھا کیونکہ اکیلے وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں جبکہ کسی اور پارٹی کو وہ قریب ہی نہیں آنے دینا چاہتے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین معاملات طے نہیں ہو رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ وہ مسلم لیگ ن کی حکومت سازی میں سپورٹ کرے گی لیکن خود حکومت کا حصہ نہیں بنے گی۔ مسلم لیگ ن اکیلے بوجھ اٹھانے کیلئے تیار نہیں تھی آخر کار حکومت سازی کا فارمولا طے پا گیا ہے۔ تاہم انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ کچھ لوگ تو الیکشن کالعدم کرانےکیلئے سپریم کورٹ بھی چلے گئے تھے۔ میں یہاں قارئین کو بتاتا چلوں کہ پاکستان میں 8فروری کے پارلیمانی عام انتخابات ملک کی سیاسی تاریخ کے سب سے متنازع الیکشن ثابت ہوئے ہیں، جن کی شفافیت پر مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ان سوالات نے پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ مرکز میں منقسم مینڈیٹ کی وجہ سے تینوں بڑی جماعتوں میں سے کوئی بھی تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔........

© Daily Jang


Get it on Google Play