اب جبکہ مریم نواز شریف وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھانے والی ہیں تو ضروری ہے کہ منطقی انداز میں ان کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیا جائے۔یہ دیکھا جائے کہ ماضی میں ان کی سیاست اور شخصیت کن کن مراحل سے گزری اور وہ مستقبل میں کن خوبیوں کی بنا پر آگےبڑھ سکتی ہیں اور کن خامیوں کی وجہ سے انہیں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔

مریم نواز شریف کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کے طور پر نامزدگی اس بات کا باضابطہ اعلان ہے کہ شریف خاندان نے انہیں اپنے جانشین اور سیاسی چہرے کے طور پر آگے بڑھایا ہے۔ شریف خاندان میں میاں محمد شریف کی وفات کے بعد سے میاں نواز شریف کو باضابطہ طور پر خاندان کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ اس لئے خاندان کے سیاسی اور بیشتر سماجی فیصلے اور اندرونی تنازعات و اختلافات کوبھی وہی حتمی شکل دیتے ہیں۔ شریف خاندان ان کے فیصلوں پر ،اختلاف ہو تب بھی، سرتسلیم خم کرتا ہے۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز میں سے وزیر اعلیٰ چننے کا فیصلہ نواز شریف نے کیا ہے اور اس پر شہباز شریف اور حمزہ نے صادکہا ہے۔ اب حمزہ پنجاب اسمبلی کی بجائے قومی اسمبلی کا حلف اٹھائیں گے اور وہاں شہباز شریف کی معاونت کریں گے۔

مریم نواز شریف اپنے والد کے بعد اپنے خاندان کی واحد کرشماتی شخصیت ہیں۔ وہ کرائوڈ پُلر ہیں، جارحانہ اور جذباتی سیاست کرتی ہیں، والد نے مقتدرہ کے خلاف مزاحمت کی تو وہ شانے سےشانہ ملا کر ان کے ساتھ کھڑی ہوگئیں۔ نہ جیل سے گھبرائیں اور نہ نیب کے احتساب سے۔ جیل اس بہادری سے کاٹی کہ سب حیران تھے کہ نازوں میں پلی، صنعت کار خاندان کی یہ لاڈلی اتنی سخت جان کیسے نکل آئی؟ نوازشریف کی آخری وزارت ِعظمیٰ کے دور میں جب ان کی مقتدرہ سے ٹھن گئی تو مریم نے وزیراعظم ہائوس کا مورچہ سنبھال لیا، سوشل میڈیا ہو یا ٹی وی چینلز، اس میں نواز شریف کے جارحانہ دفاع کی منصوبہ بندی یہ کرتیں، سب بڑے بڑے فیصلوں میں شریک ہوتیں۔مشکل کے اس دور میں والد کی تنہائی کی ساتھی بھی یہی تھیں، ہر روز گھنٹوں والد کی صحبت میں گزارتیں۔ اس قربت کی وجہ سے مخالفوں کا نزلہ بھی ان پر گرتا تھا۔ جنرل باجوہ کو جہاں اور باتوں کی نوازشریف سے شکایتیں تھیں، مریم کےسخت موقف پر بھی ان کو شدید اختلافات تھے۔ اس زمانے میں پی ٹی آئی اور مقتدرہ ایک ہوا کرتے تھے اس لئے عمران خان اور پی ٹی آئی کانشانہ مریم بھی بنتی رہیں۔ اس زمانے میں خاندان کے اندر کلثوم نواز، مریم نواز اور اسحاق ڈار کا ایک نیا اندرونی حلقہ بن گیا یہی حلقہ حتمی سیاسی فیصلے کرتا تھا۔ چودھری نثار علی اسی زمانے میں مریم کے خلاف بولے تھے۔ مریم نواز کوڈان لیکس میں بھی ملوث قرار دینے کی کوشش کی گئی لیکن چودھری نثار علی کی کوشش سے جنرل باجوہ ان کا نام نکالنے پر راضی ہوگئے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں بھی مریم نے کئی بڑے شہروں میں جلسے کئے، اپنے مزاحمتی انداز اور رویے کی وجہ سے انہیں پذیرائی بھی بہت ملی۔

شریف خاندان نے اپنی سیاست کا آغاز پیپلز پارٹی کی مخالفت سے کیا۔ مقتدرہ اور دائیں بازو کی بے پناہ حمایت سے انہوں نےبھٹو کی جماعت کے’ لاڑکانہ‘ پنجاب میں تعمیر و ترقی اور سیاسی ترغیب و انتقام سے اس کا صفایا کردیا۔ شریف خاندان نے مریم نواز کو بھی ایجنڈے کے تحت پنجاب میں اتارا ہے ان کا خیال ہے کہ اگر چند سال مل گئے تو مریم نواز کے پیچھے ان کے والد بیٹھ کر تحریک انصاف کا بھی وہی حشر کریں گے جوپیپلز پارٹی کا کیا تھا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ مریم کی خوبیاں ان کی پنجاب میں سیاست کو آگے بڑھائیں گی یا ان کی کمیاں اور کوتاہیاں ن لیگ کو پہلے سے بھی کمزور کردیں گی۔

مریم نواز کی خامیاں اور کوتاہیاں بیان کرنابھی ضروری ہے۔ مریم نواز کے سیاسی کیریئر کو دیکھا جائے تو وہ کبھی بھی فل ٹائم سیاستدان نہیںرہیں،وہ پارٹ ٹائم سیاست کرتی رہی ہیں ۔کبھی تو وہ سیاست میں متحرک ہو کر جلسوں میں جوش و خروش سے تقریریں کرتی ہیں اور کبھی کئی کئی مہینے وہ خاموشی اور چپ کاروزہ رکھ لیتی ہیں۔ اب ان کا یہ انداز ِسیاست چل نہیں سکے گا ،اب انہیں ہر وقت اور ہر پل متحرک سیاست میں رہنا پڑے گا۔ شریف خاندان میں اپنی قدیم روایات کی وجہ سے خاندان کا ریموٹ کنٹرول میاں نواز شریف کےپاس ہے، کئی معنوں میں یہ اچھی بات بھی ہوسکتی ہے مگر وزیر اعلیٰ پنجاب جیسے بااختیار عہدے پر فائز ہو کر بھی کیا ان کا کنٹرول ان کے والد کےپاس ہی رہے گا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر ووڈرو ولسن اپنے پروفیسر والد سے ہدایات لیتے تھے۔ میاں نواز شریف کےبارے میں بھی یہ مشہور تھا کہ وہ اپنے والد میاں شریف سے ہدایات لیتے تھے۔ بظاہر والد سے رہنمائی یا ہدایات لینے میں کوئی منفی بات نہیں مگر ایسا کرنے سے اقتدار کا مرکز ایک نہیں رہتا دو ہو جاتے ہیں۔ ایک میان میں دو تلواریں سما نہیں سکتیں۔مریم نواز کو گورننس کا تجربہ بہت کم ہے ،پنجاب کےکروڑوں عوام اور اس کی بے لگام پولیس اور بیوروکریسی کو وہ اس محدود تجربے سے کتنا سنبھال سکیں گی، یہ ان کی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا۔ اس وقت سب سے بڑا سیاسی مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کا کیا کرنا ہے؟ن لیگ آج تک اس مسئلے کا کوئی شافی بیانیہ نہیں دےسکی۔ کیا مریم بھی ماضی کی طرح تحریک انصاف کو دبانے، ان کے خلاف مقدمے بنانے اور انہیں جیلوں میں رکھنے کا پروگرام جاری رکھیںگی یا پھر مصالحت اور مفاہمت کا کوئی نیا راستہ تلاش کریں گی۔ مردوں کے اس معاشرے میں عورتوں کی نصف سے زیادہ آبادی کی نمائندگی مریم کا کرنا اچھا شگون تو ہے مگر مردوں کی اکثریت پرمشتمل کابینہ، اسمبلی اور سیکرٹریز کو چلانا ان کیلئے ایک چیلنج ہوگا۔

ہر فردکی آزادی اہم ہے، ہر فرد کو اپنے لباس کی چوائس کا پورا حق حاصل ہے لیکن ورکنگ وومن اور عام خاتون کے لباس میں فرق ہوتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنےلباس میں سفید دوپٹہ اور کوٹ کا اضافہ کرکے اسے ورکنگ وومن کا ڈریس بنا لیا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح اپنے زندگی کے آخری برسوں میں سفید اور کریم کلر کاسوٹ اور اسی رنگ کا دوپٹہ اورڑھتی تھیں۔ بیگم نصرت بھٹو اور بیگم رعنا لیاقت علی خان ساڑھیاں پہنتی تھیں۔ مریم نواز شریف کو بھی اپنے لباس کو ورکنگ وومن کا ٹچ دینا پڑے گا۔

وزیر اعلیٰ مریم نواز نہ صرف پنجاب بلکہ شریف خاندان کیلئے ایک نیا سیاسی تجربہ ہیں، وہ سیاسی تقریروں میں تو اعلیٰ نمبر لیتی رہی ہیں لیکن کیا وہ گورننس میں اپنے والد اور چچا جیسی کارکردگی دکھا سکیں گی۔ شریف خاندان کے سیاسی مستقبل کا انحصار اب مریم نواز کی حکومتی کارکردگی پر ہے، اگر تو وہ سیاست کی گتھی سلجھا کر تحریک انصاف کا سحر توڑ سکیں تو ان کابھی مستقبل ہے اور ان کے خاندان کا بھی۔تاہم اگر وہ کارکردگی نہ دکھا سکیں تو ن لیگ کاحشر بھی پنجاب میں پیپلز پارٹی جیسا ہوسکتا ہے۔ فی الحال شریف خاندان نے اپنے سارے سیاسی انڈے مریم کے سیاسی مستقبل میں ڈال دیئے ہیں، دیکھئے اس سے کیا ظہور میں آتا ہے۔

پشاور زلمی کے پاول والٹر کا کہنا ہے کہ بابر اعظم کے ساتھ کھیلنا اچھا لگا ہے۔

پشاور زلمی کے صائم ایوب نے اچھی بیٹنگ کی اور ہمیں دباؤ میں رکھا، نوجوان کرکٹر اعتماد کے ساتھ کھیلا، بیٹر لاہور قلندرز

اکبر ایس بابر نے مزید کہا کہ ڈاکٹر عارف علوی کو غیر آئینی اور غیر قانونی کام کرنے کی عادت سی پڑگئی ہے۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان کی 3 بڑی جماعتیں نئی سوچ دینے میں ناکام رہی ہیں۔

قذافی اسٹیڈیم لاہور میں پشاور زلمی کے خلاف شاندار اننگز کھیلتے ہوئے وینڈر ڈوسن نے اپنی سنچری مکمل کی۔

اسلامی تعاون تنظیم نے مزید کہا کہ خطے میں امن کا واحد راستہ فلسطینیوں کے حقوق کو تسلیم کرنا ہے۔

بالی ووڈ کی معروف اداکارہ اور چھوٹے نواب سیف علی خان کی اہلیہ کرینہ کپور نے کہا ہے کہ دیپکا پدکون، کنگنا رناوت اور ودیا بالن جیسی اداکارائوں نے فلموں میں خواتین کی حیثیت کو کافی تک بہتر بنایا۔

پی پی پی رہنما نے مزید کہا کہ صدر ماضی کی طرح آئین سے کھیلنے سے گریز کریں، صدر علوی کی ہر آئین شکنی اور عہدے کا غلط استعمال تاریخ کا حصہ رہے گا۔

امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا صدر بنا تو برطانوی شہزادہ ہیری کے ساتھ خصوصی برتاؤ نہیں رکھا جائے گا۔

پی ٹی آئی اعلامیے کے مطابق بیرسٹر گوہر علی نے چئیرمین اور عمرایوب نے سیکریٹری جنرل کے عہدے کے انتخابات کے لیے کاغذات جمع کروائے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے نامزد وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ڈاکٹروں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے۔

واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس روانہ کردی گئی، ایس ایس پی حسن سردار

امدادی سامان روانگی کی تقریب میں پاکستان میں تعینات فلسطینی سفیر اور وزارت خارجہ کے حکام موجود تھے۔

پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے لاہور میں خاتون کو ہراساں کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔

ایک بار پھر پاکستان سپر لیگ کیلئے آنے پر خوش ہوں۔ پی ایس ایل کا معیار دنیا کی ٹاپ لیگز میں سے ہے، فاسٹ بولر اسلام آباد یونائیٹڈ

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنوینر مصطفیٰ کمال نے پارٹی کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کی تصدیق کردی۔

QOSHE - سہیل وڑائچ - سہیل وڑائچ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

سہیل وڑائچ

47 7
26.02.2024

اب جبکہ مریم نواز شریف وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھانے والی ہیں تو ضروری ہے کہ منطقی انداز میں ان کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیا جائے۔یہ دیکھا جائے کہ ماضی میں ان کی سیاست اور شخصیت کن کن مراحل سے گزری اور وہ مستقبل میں کن خوبیوں کی بنا پر آگےبڑھ سکتی ہیں اور کن خامیوں کی وجہ سے انہیں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔

مریم نواز شریف کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کے طور پر نامزدگی اس بات کا باضابطہ اعلان ہے کہ شریف خاندان نے انہیں اپنے جانشین اور سیاسی چہرے کے طور پر آگے بڑھایا ہے۔ شریف خاندان میں میاں محمد شریف کی وفات کے بعد سے میاں نواز شریف کو باضابطہ طور پر خاندان کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ اس لئے خاندان کے سیاسی اور بیشتر سماجی فیصلے اور اندرونی تنازعات و اختلافات کوبھی وہی حتمی شکل دیتے ہیں۔ شریف خاندان ان کے فیصلوں پر ،اختلاف ہو تب بھی، سرتسلیم خم کرتا ہے۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز میں سے وزیر اعلیٰ چننے کا فیصلہ نواز شریف نے کیا ہے اور اس پر شہباز شریف اور حمزہ نے صادکہا ہے۔ اب حمزہ پنجاب اسمبلی کی بجائے قومی اسمبلی کا حلف اٹھائیں گے اور وہاں شہباز شریف کی معاونت کریں گے۔

مریم نواز شریف اپنے والد کے بعد اپنے خاندان کی واحد کرشماتی شخصیت ہیں۔ وہ کرائوڈ پُلر ہیں، جارحانہ اور جذباتی سیاست کرتی ہیں، والد نے مقتدرہ کے خلاف مزاحمت کی تو وہ شانے سےشانہ ملا کر ان کے ساتھ کھڑی ہوگئیں۔ نہ جیل سے گھبرائیں اور نہ نیب کے احتساب سے۔ جیل اس بہادری سے کاٹی کہ سب حیران تھے کہ نازوں میں پلی، صنعت کار خاندان کی یہ لاڈلی اتنی سخت جان کیسے نکل آئی؟ نوازشریف کی آخری وزارت ِعظمیٰ کے دور میں جب ان کی مقتدرہ سے ٹھن گئی تو مریم نے وزیراعظم ہائوس کا مورچہ سنبھال لیا، سوشل میڈیا ہو یا ٹی وی چینلز، اس میں نواز شریف کے جارحانہ دفاع کی منصوبہ بندی یہ کرتیں، سب بڑے بڑے فیصلوں میں شریک ہوتیں۔مشکل کے اس دور میں والد کی تنہائی کی ساتھی بھی یہی تھیں، ہر روز گھنٹوں والد کی صحبت میں گزارتیں۔ اس قربت کی وجہ سے مخالفوں کا نزلہ بھی ان پر گرتا تھا۔ جنرل باجوہ کو جہاں اور باتوں کی نوازشریف سے شکایتیں تھیں، مریم کےسخت موقف پر بھی ان کو شدید اختلافات تھے۔ اس زمانے میں پی ٹی آئی اور مقتدرہ ایک........

© Daily Jang


Get it on Google Play