پاکستان کی تاریخ انتخابی دھاندلیوں سے بھری پڑی ہے لیکن حالیہ الیکشن نے تمام ریکارڈ ز توڑ دیے ہیں۔الیکشن کمیشن اور انتظامیہ جنہوں نے ملکر یہ الیکشن کروائے ، وہ اس عمل میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے جس پر پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی اس الیکشن پر شدید اعتراضات اٹھائے گئے۔حتی کہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے بھی انتخابی دھاندلی پر اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔ اس الیکشن سے ایک بات ابھر کر سامنے آئی ہے کہ ہم اس سماج میں جمہوریت کو پروان چڑھانے میں بالکل سنجیدہ نہیں ۔مبصرین کا خیال تھا کہ 2018ء کے تلخ تجربے سے کوئی سبق حاصل کیا جائے گا ،جس میں تحریک انصاف کو مسلط کیا گیا اور جس کا خمیازہ آج بھی عوام مہنگائی کی صورت میں بھگت رہے ہیں اور یہ کہ 2024ء میں ایسا کھلواڑ کرنے سے اجتناب کیا جائے گا۔سونے پر سہاگہ کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان اور انکی جماعت کے لیڈروں پر پے در پے اتنے مقدمات بنوائے کہ تحریک انصاف عوام کی نظروں میں مظلوم تر بن کر ابھری۔یوں تحریک انصاف کسی سماجی ترقی کے بغیر ہی مخالفانہ کارروائیوں اور سابقہ حکومت کی ناقص اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ۔اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے تحریک انصاف سے انتخابی نشان چھیننے کے فیصلے نے بھی تحریک انصاف کو مظلوم بننے میں مدد کی ۔یوں مقتدرہ ، انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کی تمام ترکوششوں کے باوجودبھی تحریک انصاف پارلیمنٹ کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی اور اب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو اکٹھا کر کے مرکزمیں حکومت بنائی جا رہی ہے۔ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ تباہی اور بربادی کے بعد ہر شخص اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ جمہوری عمل کی بیخ کنی کرنے کی وجہ سے ملک کو تباہی اور معاشی بحرانوں کا سامنا کر نا پڑا لیکن جب بربادی سے بچنے کے مواقع موجود ہوتے ہیں تو سیاسی لیڈران ، حکمرانوں سے اس طرح خوف زدہ ہوتے ہیں کہ کہیں" تطہیر "کی تلوار ان ہی کی گردن پر نہ پھیر دی جائے ۔ پاکستان کی تاریخ میں مقتدر ادارے اس بات پر بار بار زور دیتے ہیں کہ ملک کے ـ"عظیم تر مفادات "کی خاطرجمہوریت،آئین اور قانون کے تقدس سے انحراف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا کرتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ کاوشیں کہیں وفاق کے بحران میں تبدیل ہی نہ ہو جائیں!

بلوچستان میں بھی کافی عرصے سے الیکشن کے عمل کو مکمل طور پرمفلوج کیا ہوا ہے۔یوں اس دفعہ تمام قوم پرست جماعتوں کو دیوار سے لگا دیا گیا جس کی وجہ سے بلوچستان میں کافی دنوں سے عام ہڑتال اور دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے۔اس عمل سے نوجوانوں میں بے چینی اور ناامیدی کی لہر پھیل رہی ہے جو انہیں انتہا پسندی کی طرف راغب کر سکتی ہے اور یوں پاکستانی وفاق مزید کمزور تر ہوتا چلا جائے گا۔بلوچستان میں پہلے کم از کم سیاسی لیڈروں کو من پسند سیاسی لیڈران سے ہروایا جاتا تھا لیکن اب اس عمل میں ایک نئی روایت کا اضافہ کرتے ہوئے ایک ہی خاندان کے تین ایسے افراد جن میں باپ، بیٹا اور داماد شامل ہیں،کو جتوادیا گیا، جن کو مقامی لوگ جانتے بھی نہیں تھے۔اس طرح کے لوگوں کو اسمبلیوں میں بٹھانےکا کیا مقصد ہے؟۔تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کو جبر اور استحصال کے ذریعے بہت دیر تک اکٹھا نہیں رکھا جا سکتا۔

اس الیکشن سے ایک سبق یہ بھی ملا ہے کہ جمہوریت کی بقا کیلئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کے ادارے کو ہندوستان کے الیکشن کمیشن کے ادارے کی طرح فعال کیا جائے تاکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ کے بغیر ہی عوام کے اعتماد پر پورا اتر سکے۔چیف الیکشن کمشنر اور ممبران الیکشن کمیشن کی نامزدگی کے عمل میں تمام جمہوری اداروں ، عدلیہ اور بار کونسلزکی رائے کو لازمی جزو بنایا جائے۔اس دفعہ الیکشن کرانے والے عملے کا تعلق انتظامیہ سے تھا ، جسکی نا اہلی کے ثبوت کے طور پر راولپنڈی کے کمشنر کی پریس کانفرنس ہی کافی ہے حالانکہ انکا سافٹ ویر اپڈیٹ کرنے کے بعد نئے بیانیے بھی مرتب کروا لیے گئے ہیںلیکن یہ سب کچھ ایک دیر پا سماجی اور سیاسی انحطاط کی علامتیں ہیں ۔ ہندوستان میںالیکشن کرانے کے عملے کا زیادہ تر تعلق الیکشن کمیشن سے ہی ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں کم از کم اس سلسلے میں ایک قانون سازی کی ضرورت ہے جس کے تحت عدلیہ کو پابند کیا جائے کہ تمام الیکشن اسٹاف کا تعلق اسی ادارے سے ہو کیونکہ انتظامیہ کے عملے کو باآسانی دبایا اور خریدا جا سکتا ہے جبکہ عدلیہ کے عملے کو دبانے اور خریدنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ایک موثر قانون کے ذریعے الیکشن کے اس عملے کو قانونی شکنجوں میں لایا جائے جو الیکشن کے دوران دھاندلی میں ملوث پائے جائیں۔آج پاکستان اپنی 75سالہ تاریخ کے سب سے نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے جہاں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔حالیہ الیکشن کی وجہ سے جو دیرپا سیاسی اور سماجی انحطاط کی علامتیں ابھری ہیں ، ان کو روکنے کا بس ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اس ملک کے مستقبل کی خاطر اکٹھے بیٹھ کر ایک ایسے نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد ڈالیں اور ایسی قانون سازی پر متفق ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے سیاسی اور انتظامی کردار سے مکمل اجتناب کرنے پر مجبور ہو جائے ۔ نئی حکومت کو فوری طور پر تمام سیاسی لیڈروں کو رہا کر دینا چاہیے اورتمام سیاسی مقدمات فوری طور پر واپس لے لیے جانے چاہئیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ عمران خان قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد سیاسی طور پر کتنے ارتقاپذیر ہوئے ہیں۔ کیا وہ اپنے پرانے اختلافات اور رویے بھلا کر تمام سیاسی پارٹیوں سے ملکر اس ملک کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گے؟

نگراں کابینہ نے سمری سرکولیشن کے ذریعے فیصلے کی توثیق کی، پائپ لائن بچھانے سے پاکستان 18 ارب ڈالر جرمانے کی ادائیگی سے بچ جائے گا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بجلی کمپنیوں نے نقصانات لائن لاسز اور کم وصولیوں کی مد میں کیے۔

پاکستان کی مسلح افواج، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور سروسز چیفس نے پیغام میں کہا کہ 27 فروری 2019 ہماری تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔

بجلی جنوری کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مہنگی کی گئی ہے۔

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ یہ ایسی چیز نہیں کہ اس پر امریکا تبصرہ کرے۔

تحریک انصاف کے اسد قیصر اور بی این پی مینگل کے اختر مینگل کی درمیان ملاقات ختم ہوگئی۔

ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت نے نومنتخب اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کو ٹاسک دے دیا۔ کراچی سے اعلامیہ کے مطابق اراکین کو اپنے حلقے کے عوام کو درپیش مسائل کی مکمل رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

صدر مملکت کا مؤقف بالکل درست ہے، صدر آئین کے تحت اجلاس بلانے کے پابند ہیں، رہنما تحریک انصاف

آخری حملہ ایوان صدر سے ہوا ہے، رہنما پیپلز پارٹی

خیبر پختونخوا اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کیلیے ثریا بی بی کا نام فائنل کرلیا گیا۔

افسوس ہو رہا تھا میں جس موقع پر آؤٹ ہوا، وکٹ کیپر بیٹر اسلام آباد یونائیٹڈ

نارتھ اٹلانٹک ملٹری اتحاد نیٹو میں سوئیڈن کی شمولیت کے معاملہ پر ہنگری کی پارلیمنٹ نے سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت کی توثیق کر دی۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کا پہلا اجلاس کل ہوگا جس کے لیے عمارت کی تزئین وآرائش سمیت تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔

پشاور زلمی تینوں شعبوں میں اٹیکنگ گیم کھیلتی ہے، اوپنر پشاور زلمی

دوبارہ گنتی گورنمنٹ ٹیکنیکل ہائی اسکول پیپلز کالونی میں کل دن 11 بجے ہوگی، نوٹیفکیشن

ملک بھر کی 60 امیچور گالفرز کے درمیان زبردست ایکشن دکھائی دے گا۔

QOSHE - ایوب ملک - ایوب ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایوب ملک

18 0
27.02.2024

پاکستان کی تاریخ انتخابی دھاندلیوں سے بھری پڑی ہے لیکن حالیہ الیکشن نے تمام ریکارڈ ز توڑ دیے ہیں۔الیکشن کمیشن اور انتظامیہ جنہوں نے ملکر یہ الیکشن کروائے ، وہ اس عمل میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے جس پر پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی اس الیکشن پر شدید اعتراضات اٹھائے گئے۔حتی کہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے بھی انتخابی دھاندلی پر اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔ اس الیکشن سے ایک بات ابھر کر سامنے آئی ہے کہ ہم اس سماج میں جمہوریت کو پروان چڑھانے میں بالکل سنجیدہ نہیں ۔مبصرین کا خیال تھا کہ 2018ء کے تلخ تجربے سے کوئی سبق حاصل کیا جائے گا ،جس میں تحریک انصاف کو مسلط کیا گیا اور جس کا خمیازہ آج بھی عوام مہنگائی کی صورت میں بھگت رہے ہیں اور یہ کہ 2024ء میں ایسا کھلواڑ کرنے سے اجتناب کیا جائے گا۔سونے پر سہاگہ کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان اور انکی جماعت کے لیڈروں پر پے در پے اتنے مقدمات بنوائے کہ تحریک انصاف عوام کی نظروں میں مظلوم تر بن کر ابھری۔یوں تحریک انصاف کسی سماجی ترقی کے بغیر ہی مخالفانہ کارروائیوں اور سابقہ حکومت کی ناقص اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ۔اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے تحریک انصاف سے انتخابی نشان چھیننے کے فیصلے نے بھی تحریک انصاف کو مظلوم بننے میں مدد کی ۔یوں مقتدرہ ، انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کی تمام ترکوششوں کے باوجودبھی تحریک انصاف پارلیمنٹ کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی اور اب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو اکٹھا کر کے مرکزمیں حکومت بنائی جا رہی ہے۔ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ تباہی اور بربادی کے بعد ہر شخص اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ جمہوری عمل کی بیخ کنی کرنے کی وجہ سے ملک کو تباہی اور معاشی بحرانوں کا سامنا کر نا پڑا لیکن جب بربادی سے بچنے کے مواقع موجود ہوتے ہیں تو........

© Daily Jang


Get it on Google Play