عام انتخابات کے انعقا د کے بعد حکومت سازی کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کا عمل ماضی کی طرح اپنے جوبن اور عروج پر ہے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات اوروعدے وعید کرکے حکومت بننے کی صورت میں عہدوں کی تقسیم کے تناسب اور طریقہ کار کو حتمی شکل دینے جارہی ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت کو واضح اور مطلوبہ برتری نہ ملنے کی وجہ سے اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ کم ازکم وفاق میں بننے والی حکومت میں ایک سے زائد جماعتیں شریک ہوں گی، سیاسی مکالمے اور مذاکرات کے نتیجے میں وفاق اور صوبوں میں حکومتیں جلد قائم ہو جائیں گی حالیہ سیاسی منظر نامے اور ماحول میں ایک اہم ترین پہلو بالکل واضح ہے کہ عام انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا ہے، شہروں اور دیہات میں عورتوں، مردوں، نوجوانوں اور بوڑھوں نے بڑھ چڑھ کر انتخابی عمل میں حصہ لے کر ایک طرف سیاسی نظام پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور دوسری طرف سیاسی جماعتوں پر ملک اور قوم کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی بھاری بھرکم ذمہ داری بھی سونپ دی ہے یہ بات ایک طے شدہ اور خوش آئند حقیقت ہے کہ عوام کے سیاسی شعور ، فکر ، تدبُر اور فہم و فراست میں بے حد اضافہ ہوچکا ہے اب عوام کو سیاسی جماعتوں کی کارکردگی، وعدوں اور دعوئوں کو پرکھنے اور جانچنے کا مکمل شعور اور ادراک ہے اس عوامی شعور کی بیداری اور پختگی میں بلاشبہ میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا کا خاصا کردار ہے نئی بننے والی وفاقی حکومت کو سیاسی محاذ سے ہٹ کر کئی سنگین اور پیچیدہ چیلنجز درپیش ہو ں گے یہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے حکومت سازی کے عمل کے بعد عوامی توقعات پر پورا نہ اُتر سکنے کے خدشات کا بھی بَر ملا اظہار ہو رہا ہے وفاقی حکومت جو جماعت بھی بنائے گی اسکا سب سے پہلا کٹھن ترین امتحان تباہ حال ملکی معیشت کی بحالی ہوگا اس امتحانی پرچہ میں ماضی میں بننے والی حکومتیں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں کوئی بھی حکومت عوام کو درپیش بد ترین معاشی مشکلات اور مہنگائی کے چُنگل سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو پائی، اب تو ملکی معاشی بحران دن بدن بد تر اور سنگین تر ہوتا چلا جا رہا ہے ملک پر پہاڑ کی مانند قرضوں کا بوجھ کم ہونے کی کوئی صورت قطعاََ نظر نہیں آرہی اور یہی بوجھ ملکی معیشت کو شدید متاثر کر رہا ہے مہنگائی کے خوفناک طوفان نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے بے روزگاری ہر گھر میں بسیرا کیے ہوئے ہے قومی صنعتوں کی تباہ حالی ہمارے سامنے ہے ہماری ہی ناقص اور فرسودہ معاشی اور ٹیکس پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ہماری صنعتیں دوسرے ممالک میں منتقل ہوتے جا رہی ہیں تمام بڑے قومی ادارے بدقسمتی سے خسارے میں جارہے ہیں ہماری زراعت بھی بدترین صورتحال سے دوچار ہے زرعی ملک ہونے کے باوجود اگر تمام طرح کی اجناس امپورٹ ہو رہی ہیں تو اسکا مطلب بالکل واضح ہے کہ زراعت کا شعبہ ڈوب چکا ہے زرخیز کھیت کھلیانوں اورسر سبز و شاداب رقبوں پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کا قائم ہوجانا ہماری غفلت اور لا پروائی کا واضح ثبوت ہے ملک میں ہر جانب بد عنوانی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار خوب گرم ہے سرکاری اداروں میں بھی قدم بہ قدم سیاست کی فضا اور ماحول قائم ہے سرکاری تعیناتیوں میں سیاسی عمل دخل نے میرٹ کا گلا گھونٹ کررکھ دیا ہے بلاشبہ اب نئی حکومت کو اپنے قدم پھو نک پھونک کر رکھنے ہوں گے اور اس بات کو ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ اقتدار کسی بھی طور پھولوں کا بسترثابت نہیں ہوگابدترین معاشی مشکلات کے بھنور سے نکلنے کیلئے گھِسے پھِٹے وعدے اور روایتی بیانات اور اعلانات ہر گز نہیں چلیں گے بلکہ ایک واضح، دو ٹوک اور قابل عمل موثر معاشی پلان دینا ہوگا جس میں سرِفہرست ہر طرح کے سرکاری اخراجات میں نمایاں کمی کرنا ہوگی ذاتی ، جماعتی اور سیاسی مفاد کی خاطر سرکاری خزانے کا منہ کھولنے کا کلچر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردینے کا یہ بہترین وقت ہے غیر ضروری اور من پسند بھرتیوں کی ماضی کی روش ختم کئے بغیر ملک کی خدمت کرنے کا دعویٰ کھوکھلا اور بے معنی ثابت ہوگا یہ بات طے شدہ ہے کہ کوئی سڑک یا پُل بناکر اُسکا ڈھنڈورا پیٹنے، افتتاح کرکے تختیاں لگانے اور سیاسی فائدے حاصل کرنے کا دور اب ختم ہوچکا ہے، نئی حکومت کو یہ بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ اس ملک میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہر چیز موجود ہے یہاں سمندر، دریا، زرعی زمینیں ، ہر طرح کا موسم، پہاڑ، بیش قیمت معدنیات اور بیشمار قدرتی وسائل موجود ہیں مگر صد افسوس کہ ہم پھر بھی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اسکی واحد وجہ ہماری ناقص پالیسیاں، نااہلی، کوتاہی اور غفلت ہے، امُورِ حکومت بہتر انداز میں چلانے کیلئے ترقی یافتہ اور کامیاب ممالک سے سیکھنا اور استفادہ کرنا بہت ضروری ہے ایسے درجنوں ممالک ہیں کہ جو ہم سے بھی برُے حالات سے دو چار تھے مگر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں روایتی طرزِ حکومت کی بجائے دو چار اچھے کامیاب غیر ملکی ماڈلز کوا پنا کر گورننس کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ابرار احمد کا کہنا ہے کہ مسٹری اسپینرسن کر اچھا لگتا ہے، ایک دو نئی بال پر کام کررہا ہوں۔

اعظم سواتی نے کہا کہ قومی اسمبلی جعلی ہے، مانسہرہ میں نواز شریف کو بری شکست ہوئی۔

رین ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، وزیر اعلیٰ سندھ نے عوام سے غیر ضروری طور پر گھروں سے نہ نکلنے کی اپیل کردی یے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر مولانا فضل الرحمان کا مینڈیٹ خیبر پختونخوا میں چوری ہو گیا ہے تو وہ مینڈیٹ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے تو چوری نہیں کیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے مسلم لیگ ن نے ایاز صادق کو امیدوار نامزد کیا ہے جبکہ ڈپٹی اسپیکر کے لیے پیپلز پارٹی کی جانب سے غلام مصطفیٰ شاہ کو نامزد کیا گیا ہے۔

کراچی کی شارع فیصل پر قائم عمارت میں آگ لگ گئی، آگ عمارت کے ساتویں فلور پر لگی، آتشزدگی کے باعث کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

عمر ایوب بلامقابلہ مرکزی جنرل سیکریٹری تحریک انصاف منتخب ہوگئے ہیں، اعلامیہ

ذرائع کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت کا ڈیزل کی موجودہ قیمت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بالی ووڈ کی باربی گرل اور معروف اداکارہ کترینہ کیف کے شوہر وکی کوشل جو خود بھی اداکار ہیں انھوں نے اپنے فون کے وال پیپر پر کترینہ کی بچپن کی تصویر لگائی ہوئی ہے، جس پر انکے پرستاروں کا کہنا ہے دراصل وہ کترینہ جیسی ہی کیوٹ (پیاری) بچے کی پیدائش کے خواہشمند ہیں۔

خاتون کے شوہر اور دونوں دیوروں کو گرفتار کرلیا۔

پی ٹی آئی نے منصفانہ الیکشن کے لیے ملک گیر اتحاد قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کردیا۔

ملزم نے 25 فروری کو خاتون کو نوکری کا جھانسہ دے کر بلایا اور نامعلوم مقام پر لے گئے جہاں انہوں نے خاتون کیساتھ مبینہ زیادتی کی اور اسکی ویڈیو بھی بنائی۔

بھارت میں مختلف زبانوں میں بننے والی ری میڈ فلم دریشم جس میں کمل ہاسن، وینکاٹیش اور اجے دیوگن نے مرکزی کردار ادا کیے، جبکہ اس فلم کو چینی زبان میں بھی بنایا جاچکا ہے۔

اگر آپ کی مرضی کا حکم جاری نہیں کیا گیا تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟ آپ کا فورم سپریم کورٹ ہے، آپ وہاں جائیں، حلیم عادل شیخ

چیمپئن شپ کے فائنل راؤنڈ میں دانیہ سعید لیڈر کے طور پر میدان میں اتریں مگر وہ اپنی برتری قائم نہ رکھ سکیں۔

کراچی کنگز کی جانب سے دیا گیا 166 رنز کا ہدف کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے آخری گیند پر حاصل کیا۔

QOSHE - محمد طیب ایڈووکیٹ - محمد طیب ایڈووکیٹ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد طیب ایڈووکیٹ

8 9
01.03.2024

عام انتخابات کے انعقا د کے بعد حکومت سازی کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کا عمل ماضی کی طرح اپنے جوبن اور عروج پر ہے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات اوروعدے وعید کرکے حکومت بننے کی صورت میں عہدوں کی تقسیم کے تناسب اور طریقہ کار کو حتمی شکل دینے جارہی ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت کو واضح اور مطلوبہ برتری نہ ملنے کی وجہ سے اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ کم ازکم وفاق میں بننے والی حکومت میں ایک سے زائد جماعتیں شریک ہوں گی، سیاسی مکالمے اور مذاکرات کے نتیجے میں وفاق اور صوبوں میں حکومتیں جلد قائم ہو جائیں گی حالیہ سیاسی منظر نامے اور ماحول میں ایک اہم ترین پہلو بالکل واضح ہے کہ عام انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا ہے، شہروں اور دیہات میں عورتوں، مردوں، نوجوانوں اور بوڑھوں نے بڑھ چڑھ کر انتخابی عمل میں حصہ لے کر ایک طرف سیاسی نظام پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور دوسری طرف سیاسی جماعتوں پر ملک اور قوم کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی بھاری بھرکم ذمہ داری بھی سونپ دی ہے یہ بات ایک طے شدہ اور خوش آئند حقیقت ہے کہ عوام کے سیاسی شعور ، فکر ، تدبُر اور فہم و فراست میں بے حد اضافہ ہوچکا ہے اب عوام کو سیاسی جماعتوں کی کارکردگی، وعدوں اور دعوئوں کو پرکھنے اور جانچنے کا مکمل شعور اور ادراک ہے اس عوامی شعور کی بیداری اور پختگی میں بلاشبہ میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا کا خاصا کردار ہے نئی بننے والی وفاقی حکومت کو سیاسی محاذ سے ہٹ کر کئی سنگین اور پیچیدہ چیلنجز درپیش ہو ں گے یہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے حکومت سازی کے عمل کے بعد عوامی توقعات پر پورا نہ اُتر سکنے کے خدشات کا بھی بَر ملا اظہار ہو رہا ہے وفاقی حکومت جو جماعت بھی بنائے گی اسکا سب سے پہلا کٹھن ترین امتحان تباہ حال ملکی........

© Daily Jang


Get it on Google Play