یہ بات تو سیاسی مخالفین بھی مانتے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے سیاست میں ہمیشہ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا ہے اور کبھی بھی ٹکرائو کی سیاست نہیں کی جس کا ظاہر ہے ملک کو فائدہ ہوا ہے۔ اس جماعت کی سیاسی زندگی میں کئی اُتار چڑھائو آئے ہیں حتیٰ کہ قائدین اور کارکنوں نے جانیں بھی قربان کی ہیں لیکن پارٹی نے کبھی بھی ایسا قدم نہیں اُٹھایا جس سے ملک میں انتشار اور عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہو، نہ ہی کبھی ٹکرائو کا راستہ اختیار کیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت جب سے آصف علی زرداری نے سنبھالی ہے سیاست میں مفاہمت اور رواداری کی مثالیں قائم کی ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شہادت کے فوری بعد جب میاں نوازشریف نے الیکشن کے بائیکاٹ کی بات کی تو اس سخت ترین وقت بھی آصف زرداری نے پاکستان کھپّے کا نعرہ لگایا اور نوازشریف کو الیکشن کا بائیکاٹ نہ کرنے پر قائل کیا۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو بھی احتجاج سے روکا اور ملکی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیا۔ اِنسانی فطرت کو دیکھا جائے تو وہ بلاشبہ آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے لئے مشکل ترین وقت تھا اس وقت بھی ملک میں استحکام کو برقرار رکھنا بڑے حوصلے، ہمت اور حُبُّ الوطنی کا مظاہرہ کرنا بہت بڑی بات تھی۔

پاکستان پیپلزپارٹی عام لوگوں کی پارٹی ہے اس لئے اس کی جڑیں عوام میں ہیں اور تمام تر اُتار چڑھائو اور مشکلات کے باوجود آج بھی عام آدمی پیپلزپارٹی کا حامی ہے۔ یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے بھی پیپلزپارٹی کو چھوڑا وہ بعد میں بہت پچھتائے۔ آصف علی زرداری جب پارٹی چیئرمین بنے تو اُنھوں نے پارٹی کی مفاہمانہ پالیسیوں کو اسی طرح نہ صرف جاری رکھا بلکہ مفاہمت اور رواداری کو فروغ دیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ملک میں زرعی اصلاحات کے ذریعے کسانوں کی اہمیت کو تسلیم کروایا۔ مزارع اور ہاریوں کو زمینوں کے مالکانہ حقوق دیئے جن سے ان غریب مزارعین کی زندگی تبدیل ہوئی۔ کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو وہ حقوق دیئے جن کا اُنھوں نے مزارعوں کی طرح کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ آج کارخانوں، مختلف اداروں اور تعلیمی اداروں میں اگر یونینز موجود ہیں تو اس کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔ ملکی دفاع کے لئے ان کا عظیم کارنامہ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کا تحفہ ہے۔ بے شک ایٹمی دھماکے نوازشریف کے دورِ حکومت میں ہوئے اور اس کا اعزاز اس وقت کی عسکری قیادت اور نوازشریف کو ہی حاصل ہے لیکن ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیاد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی حالانکہ اس وقت بعض بیرونی طاقتوں نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔

کوئی جتنی بھی کوشش کرے لیکن سی پیک کی بنیاد رکھنے کا اعزاز آصف علی زرداری سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ اگر ان کو سی پیک کا بانی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اس میں بھی شک نہیں کہ نوازشریف نے اپنے دورِ حکومت میں سی پیک کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کو مزید بڑھانے اور کام کی رفتار کو تیز کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ جو لوگ سی پیک کی شروعات اور اس عظیم منصوبے کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس منصوبے کی بنیاد رکھ کر آصف علی زرداری نے اس ملک کی کتنی بڑی خدمت کی ہے۔ دُوسری طرف بانی پی ٹی آئی نے اپنے دورِ حکومت میں ملکی مفاد کے اس عظیم منصوبے پر اپنی ناقص پالیسیوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر کام روکا ورنہ اب تک سی پیک پر کام مکمل نہیں تو تکمیل کے کافی قریب ضرور پہنچ چکا ہوتا اور ہزاروں لوگوں کی روزی روٹی کا انتظام بھی چلتا۔ سی پیک کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پڑوسی ملک اور بعض بیرونی پاکستان مخالف طاقتیں اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی نہ صرف ہرممکن کوششیں کر چکے ہیں بلکہ ان کی یہ کوششیں اب بھی جاری ہیں جن میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔

آصف علی زرداری نے بطور صدرِ پاکستان اپنے کئی اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کیے جو ملکی تاریخ میں کبھی کسی نے نہیں کیا ہے۔ اسی طرح اس پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ملک کے سب سے کم عُمر وزیر خارجہ کا اعزاز حاصل ہے۔ اُنھوں نے اپنے دورِ وزارت میں کئی ممالک کے دورے کئے اور ان ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت سیاسی مخالفین ان کے دوروں پر تنقید کرتے ہوئے اسے سیر سپاٹے کہتے رہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کے ان دوروں سے ملک کو کتنی امداد ملی۔ افسوس یہ ہے کہ ہم لوگ حقائق کو سمجھنے کے بجائے تنقید برائے تنقید کرنا جانتے ہیں اور یہ جانتے ہی نہیں یا جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ کہیں بے جا تنقید سے ملک کا نقصان تو نہیں کررہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کرنے اور منتخب کرانے میں بھی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کا اہم اور کلیدی کردار ہے۔ جس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس بات پر کوئی نیا تنازعہ کھڑا نہ ہو جائے کیونکہ مخصوص جماعت ہر موقع پر اور ہر طرح سے ملک کو تنازعات اور انتشار میں مبتلا کرنا چاہتی ہے۔ اس جماعت کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے حصولِ اقتدار۔ بصورت دیگر ملک برباد ہو جائے اس کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔جبکہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ملکی مفاد کے لئے اقتدار کو چھوڑ کر مفاہمت اور رواداری کا راستہ اختیار کیا۔ اب یہ نئے وزیراعظم کا امتحان ہے کہ وہ ملکی معیشت کی بہتری، مہنگائی کے خاتمے، روزگار اور امن و امان کے قیام کے لئے کیا اقدامات کرتے ہیں اور 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچاتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اورواٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

وزیراعظم شہباز شریف کو ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے ٹیلی فون کرکے عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

پشاور زلمی کے عامر جمال کا کہنا ہے کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ جہاں موقع ہو ٹیم کیلئے اپنا کردار ادا کروں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ بازیاب کروائے گئے افراد میں محمد جان، برکت علی، بابر علی اور بہرام خان شامل ہیں۔

گوادر میں تباہ کن بارشوں کے بعد متعدد علاقوں میں اب بھی پانی موجود ہے، جس سے متاثرہ محلوں میں بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ غربت میں کمی، روزگار کی فراہمی اور کمزور طبقوں کی فلاح دوسری ترجیح ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے ویلنشیاء ٹاؤن کےقریب پنجاب کا پہلا سرکاری کینسر اسپتال بنانے کا بھی اعلان کیا اور اسپتال کی مجوزہ سائٹ کا جائزہ لیا۔

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے پریس بریفنگ کے دوران پنجاب کی خاتون وزیراعلیٰ بننے کو سنگ میل قرار دے دیا۔

میرا نہیں خیال کہ صرف اقرباپروری والوں کو ہی دوبارہ چانس ملتا ہے، بھارتی اداکار

فلم 12ویں فیل سے شہرت حاصل کرنے والے وکرانت نے اپنی گرل فرینڈ شیتل ٹھاکر سے 2022 میں شادی کی۔ دونوں 7 فروری 2024 کو بیٹے کے والدین بنے۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی کارکردگی سے پی ٹی آئی کو دن میں تارے اور رات میں ڈراؤنے خواب نظر آنا شروع ہو گئے ہیں، رہنما ن لیگ

بالی ووڈ سپر اسٹارز سلمان خان اور عامر خان کے بچپن کے ایک دوست ناصر خان نے کہا کہ یہ دونوں بھی عام بچوں کی طرح ہی تھے اور ان میں کوئی فرق نہیں تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے تحریک انصاف کی الیکشن 2024ء سے متعلق سیاست پر تبصرہ کردیا۔

بھارت میں گرو گرام کے علاقے میں کم از کم پانچ افراد کی حالت اس وقت بگڑ گئی جب انھوں نے ایک ریسٹورنٹ میں ڈنر کے بعد مائوتھ فریشنر جو کہ ڈرائی آئس کے ساتھ مکس کی گئی تھی اسے کھا لیا۔

امریکی سپریم کورٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں انتہائی اہم آئینی فیصلہ دیدیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ انفرادی ریاستیں ڈونلڈ ٹرمپ کو نومبر کا صدارتی الیکشن لڑنے سے نہیں روک سکتیں۔

کراچی کے علاقے کلفٹن میں عمارت کی 20ویں منزل پر واقع فلیٹ سے ایک شخص کی لاش ملی۔ پولیس کے مطابق لاش 8 سے 10 گھنٹے پرانی ہے۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کے 197 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پشاور زلمی کی ٹیم 9 وکٹوں پر 167 رنز بناسکی۔

QOSHE - ایس اے زاہد - ایس اے زاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایس اے زاہد

10 0
05.03.2024

یہ بات تو سیاسی مخالفین بھی مانتے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے سیاست میں ہمیشہ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا ہے اور کبھی بھی ٹکرائو کی سیاست نہیں کی جس کا ظاہر ہے ملک کو فائدہ ہوا ہے۔ اس جماعت کی سیاسی زندگی میں کئی اُتار چڑھائو آئے ہیں حتیٰ کہ قائدین اور کارکنوں نے جانیں بھی قربان کی ہیں لیکن پارٹی نے کبھی بھی ایسا قدم نہیں اُٹھایا جس سے ملک میں انتشار اور عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہو، نہ ہی کبھی ٹکرائو کا راستہ اختیار کیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت جب سے آصف علی زرداری نے سنبھالی ہے سیاست میں مفاہمت اور رواداری کی مثالیں قائم کی ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شہادت کے فوری بعد جب میاں نوازشریف نے الیکشن کے بائیکاٹ کی بات کی تو اس سخت ترین وقت بھی آصف زرداری نے پاکستان کھپّے کا نعرہ لگایا اور نوازشریف کو الیکشن کا بائیکاٹ نہ کرنے پر قائل کیا۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو بھی احتجاج سے روکا اور ملکی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیا۔ اِنسانی فطرت کو دیکھا جائے تو وہ بلاشبہ آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے لئے مشکل ترین وقت تھا اس وقت بھی ملک میں استحکام کو برقرار رکھنا بڑے حوصلے، ہمت اور حُبُّ الوطنی کا مظاہرہ کرنا بہت بڑی بات تھی۔

پاکستان پیپلزپارٹی عام لوگوں کی پارٹی ہے اس لئے اس کی جڑیں عوام میں ہیں اور تمام تر اُتار چڑھائو اور مشکلات کے باوجود آج بھی عام آدمی پیپلزپارٹی کا حامی ہے۔ یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے بھی پیپلزپارٹی کو چھوڑا وہ بعد میں بہت پچھتائے۔ آصف علی زرداری جب پارٹی چیئرمین بنے تو اُنھوں نے پارٹی کی مفاہمانہ پالیسیوں کو اسی طرح نہ صرف جاری رکھا بلکہ مفاہمت اور رواداری کو فروغ دیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ملک میں زرعی اصلاحات کے ذریعے کسانوں کی اہمیت کو تسلیم کروایا۔ مزارع اور ہاریوں کو زمینوں کے مالکانہ حقوق دیئے جن سے ان غریب مزارعین کی زندگی تبدیل ہوئی۔ کارخانوں میں کام کرنے........

© Daily Jang


Get it on Google Play