پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے 45سال پہلے اپنے ہی کئے گئے ایک فیصلے کو متنازع قرار دے دیا ہے۔یہ فیصلہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ قتل کے بارے میں ہے۔ جس میں انہیں اپنے ایک سیاسی حریف کے والد نواب احمد خان کے قتل کے مبیّنہ جُرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ یہ مقدمہ جن حالات اور انداز میں چلایا گیا وہ شروع سے ہی کافی مشکوک تھا ۔ اس لیے دنیا کے ممتاز ماہرین قانون نے اسے جناب بھٹو کا عدالتی قتل قرار دیا تھا۔ جس کا مقصد فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کی طرف سے بھٹو صاحب کو اپنے راستے سے ہٹانا تھا۔ جنکی عوامی مقبولیت جنرل ضیاء کے اقتدارکیلئے بہت بڑا خطرہ بن چکی تھی۔

دوسری طرف امریکی سامراج بھی جنرل ضیاء کی پُشت پناہی کر رہا تھا کیونکہ وہ بھٹو کی سامراج مخالف پالیسیوں سے خائف تھا ۔ وہ بھٹو کی پاکستان کو ایٹمی قوّت بنانے اور فرانس سے ری پروسیسنگ پلانٹ کے معاہدے پر بھی اپنی شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے جناب بھٹو کو عبرتناک مثال بنانے کی دھمکی دے چکا تھا۔ ان تمام حالات میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے حق و انصاف کا ساتھ دینے کی بجائے ایک آئین شکن ڈکٹیٹر کا ساتھ دیا اور قائدِ عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر مہر ِ تصدیق ثبت کر دی ۔ اس عدالتی قتل کا اہم ترین پہلو یہ تھا کہ عوام کی عظیم اکثریت نے یکطرفہ ریاستی پروپیگنڈے کے باوجود اس عدالتی فیصلے کو تسلیم نہ کیا اور جناب بھٹو کو قاتل کی بجائے ایک قومی ہیرو کا درجہ دیتے رہے۔ جسکا اظہار انہوں نے جناب بھٹو کی پھانسی کے 11سال بعد ہونے والے عام انتخابات میں تما متر ریاستی دھاندلی کے باوجود پیپلز پارٹی کی کامیابی کے ذریعے کیا۔

مولانا عبدالکلام آزاد نے 1922میں مقدمہ بغاوت ِ ہند میں انگریز مجسٹریٹ کے سامنے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ عدالت کا کٹہرا بھی کیا عظیم الشان جگہ ہے ۔ جہاں حضرت عیسیٰ ؑجیسے پیغمبر اور دوسری طرف معروف قاتل اور ڈاکو ایک ساتھ کھڑے کئے گئے جہاں عیسیٰؑ کو مصلوب کرنے اور مجرم کو رہا کرنے کا حکم جاری ہوا۔ تاریخ میں سب سے زیادہ نا انصافیاں میدان ِ جنگ کے بعد عدالتوں کے ایوانوں میں ہوئیں ۔ لیکن وقت کی عدالت سے اوپر ایک تاریخ کی عدالت بھی ہے جس کا فیصلہ حتمی فیصلہ ہوتا ہے۔ لیکن اس فیصلے کے آنے میں کئی صدیاں درکار ہوتی ہیں۔

جناب ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے صرف 44سال کے بعد آنے والے اس فیصلے نے نہ صرف اس حقیقت کو ثابت کر دیا کہ وقت کی عدالت کے اوپر ایک تاریخ کی عدالت بھی ہوتی ہے بلکہ ایک نئی حقیقت بھی آشکار کردی ہے کہ آج وقت کی رفتار اس قدر تیز ہو چکی ہے کہ تاریخ کی عدالت کے فیصلے اب صدیوں میں نہیں ،برسوں میں سامنے آرہے ہیں۔ جناب بھٹو کی شہادت کے فوراً بعد میں نے اسی موضوع پر ایک نظم لکھی تھی جس میں اس فیصلے کی پیش گوئی کی گئی تھی ۔مجھے خوشی ہے کہ تاریخ کی عدالت کا فیصلہ میں نے اپنی زندگی میں ہی سُن لیا ہے ۔ وہ نظم آپکی خدمت میں پیش ہے۔

اِک روز کٹہرا بولے گا

ہر ایک عدالت میں یارو

اِک چیز کٹہرا ہوتی ہے

یہ چیز بھی کیسی یکتا ہے

یہ ہنستی ہے نہ روتی ہے

اس ایک کٹہرے نے اب تک

کیا کیا نہیں منظر دیکھے ہیں

منصور سے مجرم دیکھے ہیں

سُقراط سے منکر دیکھے ہیں

یاں صوفی سنت بھی پہنچے ہیں

غدّار بھی اس پر آئے ہیں

آزادی کے متوالوں نے بھی

گیت یہاں پر گائے ہیں

یہ وہی کٹہرا ہے جس پر

ہر قوم کے ہیرو آتے ہیں

کچھ زہر کا پیالہ پیتے ہیں

کچھ سولی پہ چڑھ جاتے ہیں

یہ ایک کٹہرا کیا شے ہے

یاں کیسا کیسا کھیل، ہوا

یاں اک پلڑے میں برابّا

اور اک پلڑے میں عیسیٰ تھا

پھر اسی کٹہرے نے دیکھا

کہ سچ کو یوں انصاف ملا

اک قاتل مجرم بچ نکلا

اور عیسیٰ دار پہ جھول گیا

انصاف کی کُرسی کے منصف

جو لکھتے رہے جو کہتے رہے

چپ چاپ کٹہرا سنتا رہا

کہ اس پر وقت کے پہرے تھے

جب وقت کا پہرہ اُٹھا تھا

تاریخ نے جب انصاف کیا

اس روز کٹہرے نے اپنے

ہونٹوں کا تالا توڑ دیا

پھر صرف کٹہرا بولا تھا

ہر راز پرانا کھولا تھا

تاریخ نے تب اعلان کیا

سب جھوٹے، عیسیٰ سچّا تھا

جب پھر تاریخ نے عدل کیا

اس روز کٹہرا بولے گا

اس دور کا عیسیٰ کون بنا

سب راز پرانے کھولے گا

اِک روز کٹہرا بولے گا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

محکمہ موسمیات نے پیر کی شام کو رمضان المبارک کا چاند نظر آنے کے قوی امکانات ظاہر کردیے۔

کرکٹر کائنات امتیاز کا کہنا تھا کہ صائم ایوب کا کرکٹ میں بہت اچھا مستقبل ہے، ہمارے خلاف بھی صائم نے دو سو رنز کئے تھے۔

پارٹی رہنما شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دراڑ پڑنے کا انتظار نہیں کریں گے، اب ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی قوتوں کے درمیان مفاہمت ہو۔

20 میں سے 15 سماعتیں ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سے متعلق جبکہ 5 سماعتیں سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ سے متعلق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بابر اعظم بھی انسان ہے، وہ کبھی ناکام بھی ہوسکتا ہے، بابر اعظم کی بطور کپتان حکمت عملی کافی شاندار ہے۔

پاکستان کے نئے صدر کا انتخاب آج ہوگا ، حکمراں اتحاد کی جانب سے آصف علی زرداری اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے محمود خان اچکزئی امیدوار ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے رہنماؤں نےکہا ہے کہ عالمی یوم خواتین پر تحریک انصاف کی خواتین گرفتار ہیں۔

تامل، تلگو اور ملیالم فلموں کی معروف اداکارہ نین تارا نے اپنے شوہر وگنیش شیون سے طلاق کی افواہوں کو غلط اور بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے ایک فیملی تصویر شیئر کی ہے۔

سہیل خان نے کہا کہ وکٹ بیٹنگ کیلئے مشکل نہیں تھا، کوشش کریں گے کہ اگلے میچز میں کم بیک کریں۔

برطانیہ کے صوبے ویلز میں طویل فاصلے کا ٹگ آف وار منعقد ہوا جو کہ 1694 فٹ پر محیط تھا۔

جنوبی بھارت سے تعلق رکھنے والے تامل فلموں کے معروف اداکار اجیت کمار کو nerve swelling کے علاج جو کہ ایک چھوٹے میڈیکل پروسیجر پر مبنی ہے اسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔

جوائنٹ سیکریٹری وزارتِ دفاع عبدالجبار کاتبادلہ کردیا گیا، انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

مقتولین ایک شوروم پر گاڑی لینے آئے تھے۔ موٹر سائیکل سوار ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔

سوئیڈن کا جھنڈا پیر کو برسلز میں نیٹو کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی ایک تقریب لہرایا جائے گا۔

محمکہ ہاؤسنگ نے سابق نگراں وزیراعظم کی واجبات ادائیگی کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا۔

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 9 کے 25 ویں میچ میں پشاور زلمی نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو 76 رنز سے شکست دے دی۔

QOSHE - ڈاکٹرخالد جاوید جان - ڈاکٹرخالد جاوید جان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈاکٹرخالد جاوید جان

19 1
09.03.2024

پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے 45سال پہلے اپنے ہی کئے گئے ایک فیصلے کو متنازع قرار دے دیا ہے۔یہ فیصلہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ قتل کے بارے میں ہے۔ جس میں انہیں اپنے ایک سیاسی حریف کے والد نواب احمد خان کے قتل کے مبیّنہ جُرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ یہ مقدمہ جن حالات اور انداز میں چلایا گیا وہ شروع سے ہی کافی مشکوک تھا ۔ اس لیے دنیا کے ممتاز ماہرین قانون نے اسے جناب بھٹو کا عدالتی قتل قرار دیا تھا۔ جس کا مقصد فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کی طرف سے بھٹو صاحب کو اپنے راستے سے ہٹانا تھا۔ جنکی عوامی مقبولیت جنرل ضیاء کے اقتدارکیلئے بہت بڑا خطرہ بن چکی تھی۔

دوسری طرف امریکی سامراج بھی جنرل ضیاء کی پُشت پناہی کر رہا تھا کیونکہ وہ بھٹو کی سامراج مخالف پالیسیوں سے خائف تھا ۔ وہ بھٹو کی پاکستان کو ایٹمی قوّت بنانے اور فرانس سے ری پروسیسنگ پلانٹ کے معاہدے پر بھی اپنی شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے جناب بھٹو کو عبرتناک مثال بنانے کی دھمکی دے چکا تھا۔ ان تمام حالات میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے حق و انصاف کا ساتھ دینے کی بجائے ایک آئین شکن ڈکٹیٹر کا ساتھ دیا اور قائدِ عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر مہر ِ تصدیق ثبت کر دی ۔ اس عدالتی قتل کا اہم ترین پہلو یہ تھا کہ عوام کی عظیم اکثریت نے یکطرفہ ریاستی پروپیگنڈے کے باوجود اس عدالتی فیصلے کو تسلیم نہ کیا اور جناب بھٹو کو قاتل کی بجائے ایک قومی ہیرو کا درجہ دیتے رہے۔ جسکا اظہار انہوں نے جناب بھٹو کی پھانسی کے 11سال بعد ہونے والے عام انتخابات میں تما متر ریاستی دھاندلی کے باوجود پیپلز پارٹی کی کامیابی کے ذریعے........

© Daily Jang


Get it on Google Play