علت و معلول یعنی Effect & Cause ایک کونیاتی تصور ہے جو نہ صرف فلسفہ و سائنس بلکہ ہماری معاشرت کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہے۔

روزمرہ معاملات میں اگر کسی آفت یا پریشانی سے پالا پڑ جائے تو عقل کو بروئے کار لاتے ہوئے اثرات کو دور کرنے کی بجائے سبب کا تدارک کیا جاتا ہے۔ جیسے کسی نہر یا دریا کےکنارے شگاف پڑ جائے تو بہتے پانی کو خشک یا کنٹرول کرنے کی بجائے شگاف کو پُر کیا جاتا ہے ۔ بچہ بوجہ بھوک رو رہا ہو تو اسے کھیلنے کے لیے کھلونے یا پارک کی سیر نہیں کرائی جاتی بلکہ کھانا دیا جاتا ہے کیونکہ ماں جانتی ہے کہ اس کے رونے کا سبب بھوک ہے۔

گویا یہ بات اصول کا درجہ رکھتی ہے کہ سبب کو کنٹرول کر کے ہم اثرات کو بھی قابو میں لا سکتے ہیں اب اگر اس اصول کو پاکستان کے سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو آپ کو پہیہ الٹا چلتا دکھائی دے گا کیونکہ ملکی معاملات میں ہر وقت اثرات پر واویلا ہوتا رہتا ہے جبکہ اسباب پر منہ بند رکھا جاتا ہے۔ جب کسی کا گلا دبایا جائے گا تو وہ ضرور آنکھیں نکالے گا ۔ ہمارے حالات و واقعات کے پس منظر میں کاز اینڈ ایفیکٹ کی یہ ایک ادنیٰ سی مثال ہے جو معروضی طور پر بھی صادر آتی ہے اور مفہوم کے اعتبار سے بھی درست معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں آنکھیں نکالنے پر شور و غل تو مچ جاتا ہے تاہم گلا دبانے پر یعنی cause پر کوئی بات نہیں کرتا۔

حالیہ الیکشن کے نتائج پر کیا جیتنے والا اور کیا ہارنے والا سب ہی آنکھیں نکال رہے ہیں تاہم کوئی الیکشن کمیشن سے نہیں پوچھ رہا کہ آخر آپ نے گلے دبانے جیسی حرکات کیوں کی ہیں؟ اور تو اور الیکشن کمیشن کی بے اعتنائی پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ جنہوں نے نتائج میں تاخیر یا دوسری بے اعتدالیوں پر معذرت خواہانہ انداز تک نہیں اپنایا۔ یوں تو ہمارے ہاں شکست کو تسلیم کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے اور ہر الیکشن میں ہارنے والا دھاندلی کا الزام لگا کر احتجاج کا حق استعمال کرتا ہے تاہم اس الیکشن کے تو انداز ہی نرالے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں اب کی بار دھاندلی عریانی کی حد تک عیاں تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ جیتنے والے بھی خوش نہیں ہیں اور ہارنے والے بھی ہجر کی سی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اب اس سبب یعنی cause کے باعث وطن عزیز میں پھر جلسے، جلوس، ریلیاں ، احتجاج اور سڑکوں کی بندش جاری ہے۔ میرے آج کے کالم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اگر ہم مضر سیاسی اسباب کو پیدا نہ کریں تو لامحالہ طور پر ملک میں عدم استحکام جیسے مضر اثرات مرتب نہ ہوں مثلاً اگر ہر الیکشن میں عوامی رائے کا احترام کیا جاتا تو ملک میں مستحکم حکومتیں بنتیں اور ملک استحکام کی منزل سے سرفراز ہوتا۔ اگر اچھی/ بری حکومتوں کو پانچ سال پورے کرنے دیے جائیں تو انتخابات میں عوام خود ووٹ کے ذریعے ان کا احتساب کر دیں۔ اگر پانچ سال کسی سیاسی جماعت کو کھل کھیلنے کی اجازت دی جاتی تو وہ کبھی مظلومیت کا لبادہ نہ اوڑھ سکتی۔ اگر ملک میں جمہوریت قائم کرنے کی شوقین پارٹیاں اپنے اندر بھی جمہوریت نافذ کرتیں تو آج پاکستانی عوام چند خاندانوںکے غلام نہ ہوتے۔ قریب تھا کہ آئندہ الیکشن میں ملک سے پی ٹی آئی کا صفایا ہو جاتا مگر بیس تیس اراکین پارلیمنٹ نے سال ڈیڑھ سال پہلے ہی رجیم چینج کا ایسا کھیل کھیلا جو ملک میں افراتفری کا سبب بنا اور پھر وہی ہوا جو ہر مرتبہ حکمراں سیاسی پارٹیوں کو نصیب ہوتا رہا ہے یعنی پی ٹی آئی کے ہاتھ بھی مظلومیت کا کارڈ لگ گیا اور یوں پارٹی کے مردہ تن کو نئی زندگی نصیب ہوئی۔ کم و بیش تمام حکمراں سیاسی پارٹیوں کو مظلومیت کا کارڈ مل چکا ہے آئندہ بھی شاید ملتا رہے یہی وجہ ہے کہ اس الیکشن میں بھی آپ نے یہ بیانیے سنے ہوں گے کہ’’ اگر ہماری حکومت جاری رہتی تو ہم یہ کرتے........ وہ کرتے.... وغیرہ وغیرہ ‘‘۔

اس سارے منظر نامے میں قارئین کرام اگر وارے نیارے ہیں تو سیاسی جماعتوں کے اور اگر نقصان ہو رہا ہے تو فقط وطن اور ہم وطنوں کا۔ Effect & Cause کی یہ ستم ظریفی ہمارے ہاں ہر سطح پر در آئی ہے۔ جب اشرافیہ یا حکمرانوں کی جانب سے جینے کے حقوق نہیں دیے جاتے تو عوام الناس میں اس کے یقینی اثرات ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آئے دن سڑکوں پر ڈاکٹرز ، وکیل، بے روزگار، نابینا افراد ، کلرک، زمیندار و صحافی وغیرہ احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ستم بالائےستم یہ کہ جب تک سڑکیں بلاک نہ کی جائیں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اس معاشرتی رجحان کو اب ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کی نچلی سطح ہو یا ایوان ہائے حکومت، ہر سطح پر اسباب کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم بہت کچھ کھو چکے ہیں اب مزید کھونے کے لیے کچھ نہیں بچا ۔ عوام سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے متنفر ہو چکے ہیں بلکہ اس سسٹم سے ہی متنفر ہو چکے ہیں اس سے پہلے کہ ملک سے منہ موڑ لیں انہیں واپس لانا ہوگا۔ ٹھیک ہے جمہوریت میں احتجاج ہر کسی کا جمہوری حق ہے مگر اب عام آدمی سڑکوں پر ہا ہو اور شور و غل سے تنگ آ چکا ہے۔ وہ سکون چاہتا ہے۔ آخر پچھتر سال سے جلسے جلوس ریلیاں احتجاجی تحریکیں اور فسادات ہی اس ملک کا مقدر کیوںہیں ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ ہم causes کی روک تھام نہیں کرتے بس effects کا رونا روتے رہتے ہیں۔آخری جملہ.... ! پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنا مشکل ہے شگاف پُر کریں اور مزید شگاف نہ ہونے دیں ملک سکون میں آ جائے گا۔

کراچی کنگز کے ذاہد محمود کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے ہر میچ اہم ہے، کوشش تھی ٹیم کے لیے جہاں موقع ملے پرفارم کروں۔

غزہ کے فلسطینیوں کو بمباری کے ساتھ بھوک سے مارنے کی اسرائیلی سازش، شمالی غزہ میں کھانے پینے کی قلت سے مزید 2 فلسطینی شہید ہوگئے۔

کراچی کنگز، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے درمیان پلے آف میں پہنچنے کےلیے رسہ کشی جاری ہے۔

پاکستان میں ایرانی سفیر ڈاکٹر رضا امیری نے آصف زرداری کو صدرِ پاکستان منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ آصف زرداری سب سے پہلے ایوانِ صدر کو غسلِ جمہوریت دیں گے۔

عبداللّٰہ نے کہا کہ شعیب ملک تجربہ کار بیٹر ہیں۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے مینڈیٹ چوری کے خلاف کل پرامن احتجاج کا اعلان کردیا۔

سلمان خان کو گھر کی مرغی دال برابر نہیں محسوس کرنا چاہیے، سیٹ پر انہیں ایک سپر اسٹار کی ہی عزت دی جاتی ہے، بھارتی اداکار

مذکورہ واقعہ آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریہ میں پیش آیا جس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

بارش کے باعث دبئی میں عرب امارات اور اسکاٹ لینڈ کا ایک روزہ میچ بھی منسوخ کردیا گیا۔

حکومتی اتحادی جماعت استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے رہنما جہانگیر ترین نے لودھراں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا جدید ادارہ بنانے کی خواہش کا اظہار کردیا۔

فہیم اشرف نے کہا کہ پاکستان میں قومی ٹیم سے زیادہ پی ایس ایل کے میچ دیکھے جاتے ہیں، پی ایس ایل کا دنیا میں نام ہے۔

سفیر پاکستان نے اس فیسٹیول میں شرکت کرنے والے تمام اداروں میں تعریفی سرٹیفکیٹ تقسیم کیے۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ کلیرنس آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز نے مزید 4 دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔

ہم اس حکومت کو اون کر رہے ہیں، ہم اچھے مشورے دیں گے۔ لوگوں نے ہم سے امید رکھی ہے، ان کی مشکلات دور کریں گے، ترجمان پیپلز پارٹی

کراچی کنگز کے شعیب ملک نے آخری گیند پر چوکا لگا کر اپنی ٹیم کو اہم کامیابی دلوادی۔

QOSHE - ڈاکٹر حسن فاروقی - ڈاکٹر حسن فاروقی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈاکٹر حسن فاروقی

11 0
10.03.2024

علت و معلول یعنی Effect & Cause ایک کونیاتی تصور ہے جو نہ صرف فلسفہ و سائنس بلکہ ہماری معاشرت کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہے۔

روزمرہ معاملات میں اگر کسی آفت یا پریشانی سے پالا پڑ جائے تو عقل کو بروئے کار لاتے ہوئے اثرات کو دور کرنے کی بجائے سبب کا تدارک کیا جاتا ہے۔ جیسے کسی نہر یا دریا کےکنارے شگاف پڑ جائے تو بہتے پانی کو خشک یا کنٹرول کرنے کی بجائے شگاف کو پُر کیا جاتا ہے ۔ بچہ بوجہ بھوک رو رہا ہو تو اسے کھیلنے کے لیے کھلونے یا پارک کی سیر نہیں کرائی جاتی بلکہ کھانا دیا جاتا ہے کیونکہ ماں جانتی ہے کہ اس کے رونے کا سبب بھوک ہے۔

گویا یہ بات اصول کا درجہ رکھتی ہے کہ سبب کو کنٹرول کر کے ہم اثرات کو بھی قابو میں لا سکتے ہیں اب اگر اس اصول کو پاکستان کے سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو آپ کو پہیہ الٹا چلتا دکھائی دے گا کیونکہ ملکی معاملات میں ہر وقت اثرات پر واویلا ہوتا رہتا ہے جبکہ اسباب پر منہ بند رکھا جاتا ہے۔ جب کسی کا گلا دبایا جائے گا تو وہ ضرور آنکھیں نکالے گا ۔ ہمارے حالات و واقعات کے پس منظر میں کاز اینڈ ایفیکٹ کی یہ ایک ادنیٰ سی مثال ہے جو معروضی طور پر بھی صادر آتی ہے اور مفہوم کے اعتبار سے بھی درست معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں آنکھیں نکالنے پر شور و غل تو مچ جاتا ہے تاہم گلا دبانے پر یعنی cause پر کوئی بات نہیں کرتا۔

حالیہ الیکشن کے نتائج پر کیا جیتنے والا اور کیا ہارنے والا سب ہی آنکھیں نکال رہے ہیں تاہم کوئی الیکشن کمیشن سے نہیں پوچھ رہا کہ آخر آپ نے گلے دبانے جیسی حرکات کیوں کی ہیں؟ اور تو اور الیکشن کمیشن کی بے اعتنائی پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ جنہوں نے نتائج میں تاخیر یا دوسری بے اعتدالیوں پر معذرت خواہانہ انداز تک نہیں اپنایا۔ یوں تو ہمارے ہاں شکست کو تسلیم کرنا گناہ کبیرہ........

© Daily Jang


Get it on Google Play