شہباز شریف حکومت جسے پی ڈی ایم ٹو کا نام دیا جا رہا ہے قائم ہو چکی۔ کابینہ کے اراکین نے حلف اُٹھا لیا۔ نئے وزیر خزانہ نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا، محسن نقوی بھی وزیر داخلہ کے طور پر سامنے آ چکے۔ وزیراعظم اور وزراء نے اپنے عہدے سنبھالتے ہی کام شروع کر دیا، میٹنگز پر میٹنگز کی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم خود کہہ چکے اور کابینہ کے اراکین کو بھی یہ بات سمجھا دی گئی ہے کہ اب ماسوائے کارکردگی دکھانے اور پاکستان کو موجودہ معاشی بھنور سے نکالنے کے اور کوئی چارہ نہیں۔ میڈیا اور سیاست سے تعلق رکھنے والے افراد یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ یہ حکومت کب تک چلے گی۔ کوئی مہینوں کی بات کرتا ہے تو کوئی ایک دو سال تک حکومت کو دے رہا ہے۔ الیکشن میں دھاندلی کی وجہ سے حکومت کے اخلاقی جواز پر بھی بات ہو رہی ہے اور یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ ایسی حکومت جو مبینہ دھاندلی کا نتیجہ ہو کیسے سیاسی اور معاشی استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔ ان سوالوں کا جواب تو وقت ہی دے گا لیکن جتنا اس حکومت کو کمزور سمجھا جا رہا ہے حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ ہے۔ گزشتہ ہفتہ کور کمانڈرز کانفرنس میں فوج کی طرف سے شہباز شریف حکومت کو مکمل سپورٹ کرنے کا اعلان کیا گیا۔شہباز شریف اور موجودہ عسکری قیادت کا گزشتہ پی ڈی ایم حکومت کے دور کا ورکنگ ریلیشن شپ کا تجربہ بہت اچھا رہا اور جو انڈرسٹینڈنگ اُس وقت پیدا ہوئی اُسی کی بنیاد پر موجودہ حکومت کے آگے چلنے کا امکان ہے۔ معیشت کی بہتری کیلئے سول اور فوجی قیادت مل کر کام کریں گے جس کی بنیاد شہباز شریف کی گزشتہ حکومت کے دوران SIFC کی صورت میں رکھ دی گئی تھی۔ گویا شہباز شریف کی حکومت کو فوجی قیادت کی مکمل حمایت حاصل ہے اور یہ وہ نکتہ ہے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی سول حکومت کے استحکام کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ شہباز حکومت کیلئے عمران خان، تحریک انصاف، مولانا فضل الرحمن ،کوئی دوسرا سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت خطرہ نہیں۔ پیپلز پارٹی جو وفاقی کابینہ میں شامل تو نہ ہوئی لیکن شہباز حکومت کی حمایت جاری رکھے گی۔ آصف علی زرداری کو ایوان صدر پہنچا دیاگیا،چیئرمین سینٹ سمیت کچھ گورنرز بھی پیپلزپارٹی کو مل جائیں گے۔ ممکنہ طور پر کچھ عرصہ میں پیپلز پارٹی کابینہ میں بھی شامل ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں شہباز حکومت کو اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ صرف اور صرف اپنے آپ سے ہے۔ یعنی خطرہ صرف ایک ہے اور اُس کا تعلق حکومت کی کارکردگی سے ہے۔اگر حکومت معاشی چیلنجز سے نبٹنے میں کامیابی کے درست سفرکا تعین کر لیتی ہے اور تو پھر یہ ایک مضبوط حکومت ہی رہے گی۔ لیکن اگر شہباز حکومت مشکل فیصلے کرنے سے کتراتی رہی، معاشی مشکلات کو حل کرنے میں ناکام رہی، ٹیکس نیٹ نہ بڑھا سکی، کھربوں کا نقصان دینے والے قومی اداروں کی نجکاری نہ کر سکی تو پھر یہ حکومت نہیں چل سکتی۔ معاشی مشکلات کا حل فوری تو ممکن نہیں لیکن چند ہفتوں، مہینوں میں حکومتی فیصلوں اور پالیسیوں کو دیکھ کر اس بات کا تعین ہو جائے گا کہ شہباز حکومت کا مستقبل کیا ہو گا۔ یہ بات وزیراعظم کو معلوم ہے اور اُن کی کابینہ کو بھی کہ اُن کی ناکامی کی صورت میں نقصان پاکستان کا ہو گا ،جسے کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔پاکستان کو جس انداز میں ماضی میں چلایا گیا اُس طریقہ سے اب اس ملک کا چلنا ممکن نہیں۔ حکمرانوں، حکمران طبقہ اور اشرافیہ کو اپنے اطوار کو بدلنا پڑے گا اور اس کیلئے فیصلے بھی شہباز شریف اور اُن کی کابینہ کو ہی کرنا پڑیں گے اور خود کو مثال بنا کر بھی پیش کرنا پڑے گا۔ شہباز حکومت کے پاس پرفارم کرنے کیلئے وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے دو صاحبزادے حسین نواز اور حسن نواز اپنے خلاف درج کیے گئے مختلف مقدمات میں ضمانت کیلئے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوں گے۔

تین روز قبل تاجر اور اس کے پارٹنرز کو سپرہائی وے سے اغوا کیا گیا تھا۔

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بارش برسانے والا مغربی ہواؤں کا سسٹم صوبے سے نکل گیا، بارشوں کے بعد کوئٹہ میں چلنے والی یخ بستہ ہواؤں سے سردی کی شدت میں اضافہ ہوگیا، گیس پریشر میں کمی اور بندش جبکہ بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔

بلوچستان سے خالی ہونے والی سینیٹ کی 3 نشستوں پر ضمنی انتخاب آج ہوگا، 7 امیدواروں مدمقابل ہیں۔

کراچی کے علاقے بھینس کالونی میں بیوپاری سے رقم چھین لی گئی، گزشتہ روز ہوئی واردات کی سی سی ٹی وی ویڈیو بھی سامنے آگئی۔

صدر آصف علی زرداری ہاؤس میں مختصر قیام کریں گے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دونوں بچوں کوان کی بڑی خالہ کے گھر منتقل کر دیا گیا، گھر پر لیڈی پولیس بھی تعینات کردی گئی ہے۔

مشہور ٹیلی ویژن شو تارک مہتا کا الٹا چشمہ کے اداکاروں کی منگنی کی اطلاعات زیر گردش ہیں۔

تھانہ روجھان کی حدود میں پولیس نے ڈاکوؤں کی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی، ڈاکوؤں اور روجھان پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، ترجمان پنجاب پولیس

نوجوان کرکٹرز کے ساتھ ایسے سینیئرز بھی ہیں جو خود کو بہتر کرنا چاہتے ہیں، کوچ اسلام آباد یونائیٹڈ

جنوبی بھارت اور بالی ووڈ کے معروف اداکار رجنی کانت کی بیٹی ایشوریا رجنی کانت کی اسپورٹس ڈرامہ فلم لال سلام ریلیز ہوتے ہی موضوع بحث بن گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ اور کنٹری ڈائریکٹر نے معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا،

پولیس نے فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات شروع کردیں۔

مشقوں میں رینجرز، جیل پولیس، بم ڈسپوزل اسکواڈ اور ریسکیو 1122 نے حصہ لیا۔

وزیر خزانہ نے مہنگائی اور شرحِ سود میں جلد کمی کی توقع، اخراجات میں کمی کا عزم بھی کیا۔

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق عرفی ایکتا کپور کی فلم "ایل ایس ڈی 2" کے ذریعے پہلی مرتبہ بڑے پردے پر نظر آنے کےلیے تیار ہیں۔

QOSHE - انصار عباسی - انصار عباسی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

انصار عباسی

21 1
14.03.2024

شہباز شریف حکومت جسے پی ڈی ایم ٹو کا نام دیا جا رہا ہے قائم ہو چکی۔ کابینہ کے اراکین نے حلف اُٹھا لیا۔ نئے وزیر خزانہ نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا، محسن نقوی بھی وزیر داخلہ کے طور پر سامنے آ چکے۔ وزیراعظم اور وزراء نے اپنے عہدے سنبھالتے ہی کام شروع کر دیا، میٹنگز پر میٹنگز کی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم خود کہہ چکے اور کابینہ کے اراکین کو بھی یہ بات سمجھا دی گئی ہے کہ اب ماسوائے کارکردگی دکھانے اور پاکستان کو موجودہ معاشی بھنور سے نکالنے کے اور کوئی چارہ نہیں۔ میڈیا اور سیاست سے تعلق رکھنے والے افراد یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ یہ حکومت کب تک چلے گی۔ کوئی مہینوں کی بات کرتا ہے تو کوئی ایک دو سال تک حکومت کو دے رہا ہے۔ الیکشن میں دھاندلی کی وجہ سے حکومت کے اخلاقی جواز پر بھی بات ہو رہی ہے اور یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ ایسی حکومت جو مبینہ دھاندلی کا نتیجہ ہو کیسے سیاسی اور معاشی استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔ ان سوالوں کا جواب تو وقت ہی دے گا لیکن جتنا اس حکومت کو کمزور سمجھا جا رہا ہے حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ ہے۔ گزشتہ ہفتہ کور کمانڈرز کانفرنس میں فوج کی طرف سے شہباز شریف حکومت کو مکمل سپورٹ کرنے کا اعلان کیا گیا۔شہباز شریف اور موجودہ عسکری قیادت کا گزشتہ پی ڈی ایم حکومت کے دور کا ورکنگ ریلیشن شپ کا تجربہ بہت اچھا رہا اور جو انڈرسٹینڈنگ اُس وقت پیدا ہوئی اُسی کی بنیاد پر موجودہ حکومت کے........

© Daily Jang


Get it on Google Play