پاکستان میں حکومت کے ساتھ یہ بات وابستہ کرلی گئی ہے کہ اسے چلانے والا عوام میں غیرمقبول اور اپوزیشن والا لازماً مقبول ہوتا جائے گا۔ ایسا ہوا بھی کیونکہ جب تک پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو اسکے وابستگان کے وارے نیارے تھے لیکن عوام میں وہ غیرمقبول ہوتی جارہی تھی ۔ اس دوران جتنے بھی ضمنی الیکشن ہوئے وہ پی ٹی آئی ہارتی رہی ۔ تب مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی جیسی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ پھر جب پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو اسکی مقبولیت زمین بوس ہونے لگی اور زیرعتاب بن جانے والی جماعت پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھنے لگی ۔ یہ صرف حکومت کا مسئلہ نہیں بلکہ جو جماعت اسٹیبلشمنٹ کی لاڈلی بن جائے اسکی مشکلات کم ہوجاتی ہیں لیکن عوام کی صفوں میں اسکی مقبولیت بڑھنے لگ جاتی ہے اور جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی علامت بن جاتا ہے وہ محبوب بن جاتا ہے ۔ دو سال قبل تک جب پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی لاڈلی تھی تو وہ مزوں میں تھی لیکن عوام کی نظروں میں گر رہی تھی جبکہ نواز شریف مقبول ہوتے جارہے تھے ۔ اب جب مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے بارے میں یہ تاثر عام ہوا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی لاڈلی ہیں تو عوام اس سے دور ہونے لگے ۔یہ روش خود اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے اور اسے اپنا محاسبہ کرکے سوچنا چاہئے کہ کیوں اسکے محبوب، لوگوں کی نظروں میں مغضوب بن جاتے ہیں ۔

حکومت کے نتیجے میں نامقبول ہوجانے کی روش کو بدلا جاسکتا ہے لیکن اس کیلئے حکومت کرنے والی جماعتوں کو خود کو بدلنا ہوگا۔ دنیا کے کئی ممالک میں الٹا لوگ حکومت کے ذریعے ہی مقبول بنتے ہیں۔ طیب اردوان پہلے استنبول کے مئیر تھے اور یہاں بہتر حکمرانی کے ذریعے وہ پورے ملک کے محبوب اور پھر سربراہ حکومت بنے ۔ وہ چونکہ اچھی حکمرانی کررہے ہیں تو کئی مرتبہ تواتر کے ساتھ لوگوں نے انہیں ووٹوں کی سپورٹ سے نوازا اور جب انکی حکومت کے خلاف کچھ لوگوں نے سازش کی تو عوام سڑکوں پر نکل کر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ اسی طرح انڈیا کے نریندر مودی پہلے ایک ریاست کے حکمراں تھے لیکن وہاں سے انہوں نے بہتر کارکردگی اور پوپولزم کے ذریعے اپنی مقبولیت اتنی بڑھا دی کہ وہ دوبارہ انڈیا کے حکمران بن گئے ۔گویا حکمرانی کے ساتھ عدم مقبولیت لازمی نہیں بلکہ حکمرانی جہاں مقبولیت گراتی ہے وہاں مقبولیت دلواتی بھی ہے ۔ اگر حکمراں اچھی حکمرانی کرتے ہوئے لوگوں کے دل جیت لے تو وہ مقبول سے مقبول تر بھی بن سکتا ہے ۔

یقیناً اس وقت پاکستان کی حکمرانی آسان کام نہیں لیکن اتنی مشکل بھی نہیں جتنا کہ اسے بنا دیا گیا ہے ۔ اگر حکمراں ایک انقلابی فیصلہ کرلیںکہ انہیں مافیاز پر ہاتھ ڈال کر دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کو ختم کرنا ہے اور پھر وہ ایسا کر بھی ڈالیں تو نہ صرف پاکستان کا معاشی بحران ختم ہوجائے گا بلکہ وہ حکمراں ہمیشہ کیلئے امر ہوجائیں گے ۔ آئی ایم ایف ہم سے یہ نہیں کہتا کہ تم بجلی، گیس اور تیل مہنگا کرو ۔ اس کامطالبہ صرف یہ ہے کہ اپنی آمدنی بڑھاو اور چونکہ آئی ایم ایف جانتا ہے کہ پاکستانی حکمراںڈائریکٹ ٹیکسیشن کرکے بڑے بڑے مافیاز پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے اس لئے وہ حکومتوں سے ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن کرواتا ہے جس کی وجہ سے عام آدمی حکومت سے بددل ہوتا ہے ۔ شہباز شریف حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس وقت مہنگائی اپنے عروج پر ہے ۔ غریب تو کیا مڈل کلاس لوگوں کا جینا بھی حرام ہوگیا ہے ۔ وہ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کو برداشت نہیں کرسکتے ۔ اگر اس حکومت نے بوجھ امیر طبقات کی طرف منتقل کرکے معیشت کو سنبھالا دیا اور پرائیویٹائزیشن اور سرمایہ کاری میں اضافے جیسے اقدامات میں کامیاب ہوئی تو پھر یہ بطور مقبول جماعت امر ہوجائے گی لیکن اگر ایسا کرنے میں ناکام رہی اور حسب سابق قرضوں اور غریبوں پر مزید بوجھ ڈالنے سے کام چلاتی رہی تو پھر کوئی مسلم لیگ (ن) کا نام لیوا نہیں رہے گا ۔ انقلابی فیصلے کرنے کیلئے بیوروکریسی سے بھی کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ بیوروکریسی گروپنگ کی شکار، نااہل اور کرپٹ بن چکی ہے۔ ان بیورکریٹس کی اکثریت کام کرنے کی بجائے، کام نہ کرنے کو اپنی ڈیوٹی سمجھنے لگی ہے۔ اسی طرح جو سرمایہ کار باہر بھاگ گیا ہے یا بھاگ رہا ہے، اسے بھی یقین دلا کر ملک کے اندر لانا ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے دو صاحبزادے حسین نواز اور حسن نواز اپنے خلاف درج کیے گئے مختلف مقدمات میں ضمانت کیلئے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوں گے۔

تین روز قبل تاجر اور اس کے پارٹنرز کو سپرہائی وے سے اغوا کیا گیا تھا۔

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بارش برسانے والا مغربی ہواؤں کا سسٹم صوبے سے نکل گیا، بارشوں کے بعد کوئٹہ میں چلنے والی یخ بستہ ہواؤں سے سردی کی شدت میں اضافہ ہوگیا، گیس پریشر میں کمی اور بندش جبکہ بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔

بلوچستان سے خالی ہونے والی سینیٹ کی 3 نشستوں پر ضمنی انتخاب آج ہوگا، 7 امیدواروں مدمقابل ہیں۔

کراچی کے علاقے بھینس کالونی میں بیوپاری سے رقم چھین لی گئی، گزشتہ روز ہوئی واردات کی سی سی ٹی وی ویڈیو بھی سامنے آگئی۔

صدر آصف علی زرداری ہاؤس میں مختصر قیام کریں گے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دونوں بچوں کوان کی بڑی خالہ کے گھر منتقل کر دیا گیا، گھر پر لیڈی پولیس بھی تعینات کردی گئی ہے۔

مشہور ٹیلی ویژن شو تارک مہتا کا الٹا چشمہ کے اداکاروں کی منگنی کی اطلاعات زیر گردش ہیں۔

تھانہ روجھان کی حدود میں پولیس نے ڈاکوؤں کی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی، ڈاکوؤں اور روجھان پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، ترجمان پنجاب پولیس

نوجوان کرکٹرز کے ساتھ ایسے سینیئرز بھی ہیں جو خود کو بہتر کرنا چاہتے ہیں، کوچ اسلام آباد یونائیٹڈ

جنوبی بھارت اور بالی ووڈ کے معروف اداکار رجنی کانت کی بیٹی ایشوریا رجنی کانت کی اسپورٹس ڈرامہ فلم لال سلام ریلیز ہوتے ہی موضوع بحث بن گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ اور کنٹری ڈائریکٹر نے معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا،

پولیس نے فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات شروع کردیں۔

مشقوں میں رینجرز، جیل پولیس، بم ڈسپوزل اسکواڈ اور ریسکیو 1122 نے حصہ لیا۔

وزیر خزانہ نے مہنگائی اور شرحِ سود میں جلد کمی کی توقع، اخراجات میں کمی کا عزم بھی کیا۔

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق عرفی ایکتا کپور کی فلم "ایل ایس ڈی 2" کے ذریعے پہلی مرتبہ بڑے پردے پر نظر آنے کےلیے تیار ہیں۔

QOSHE - سلیم صافی - سلیم صافی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

سلیم صافی

59 5
14.03.2024

پاکستان میں حکومت کے ساتھ یہ بات وابستہ کرلی گئی ہے کہ اسے چلانے والا عوام میں غیرمقبول اور اپوزیشن والا لازماً مقبول ہوتا جائے گا۔ ایسا ہوا بھی کیونکہ جب تک پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو اسکے وابستگان کے وارے نیارے تھے لیکن عوام میں وہ غیرمقبول ہوتی جارہی تھی ۔ اس دوران جتنے بھی ضمنی الیکشن ہوئے وہ پی ٹی آئی ہارتی رہی ۔ تب مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی جیسی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ پھر جب پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو اسکی مقبولیت زمین بوس ہونے لگی اور زیرعتاب بن جانے والی جماعت پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھنے لگی ۔ یہ صرف حکومت کا مسئلہ نہیں بلکہ جو جماعت اسٹیبلشمنٹ کی لاڈلی بن جائے اسکی مشکلات کم ہوجاتی ہیں لیکن عوام کی صفوں میں اسکی مقبولیت بڑھنے لگ جاتی ہے اور جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی علامت بن جاتا ہے وہ محبوب بن جاتا ہے ۔ دو سال قبل تک جب پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی لاڈلی تھی تو وہ مزوں میں تھی لیکن عوام کی نظروں میں گر رہی تھی جبکہ نواز شریف مقبول ہوتے جارہے تھے ۔ اب جب مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے بارے میں یہ تاثر عام ہوا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی لاڈلی ہیں تو عوام اس سے دور ہونے لگے ۔یہ روش خود اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے اور اسے اپنا محاسبہ کرکے سوچنا چاہئے کہ کیوں اسکے محبوب، لوگوں کی نظروں میں مغضوب بن جاتے ہیں ۔

حکومت کے نتیجے میں نامقبول ہوجانے کی روش کو بدلا جاسکتا ہے لیکن اس کیلئے حکومت کرنے والی جماعتوں کو خود کو بدلنا ہوگا۔ دنیا کے کئی ممالک میں الٹا لوگ حکومت کے ذریعے ہی مقبول بنتے ہیں۔ طیب اردوان پہلے........

© Daily Jang


Get it on Google Play