‎جبر و آمریت کی مخالفت اس درویش کے رگ و ریشے بلکہ ہڈیوں تک میںہے اس اپروچ کے زیر اثر اس کی کتاب’’جمہوریت یا آمریت؟‘‘ تخلیق ہوئی ۔اس پس منظر میں محترم ڈاکٹر جاوید اقبال سے کئی مواقع پر بحث بھی ہو جاتی جن کا فرمانا ہوتا کہ دیکھیں اصولی اور نظریاتی سچائیاں اپنی جگہ مگر کچھ تلخ زمینی حقائق ایسے شدید ہوتےہیں جن سے آنکھیں بند کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی ان سے ٹکرا کر ْٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓآگے بڑھا جا سکتا ہے ہم مانیں یا نہ مانیں ،اس ملک کی تخلیق کے ساتھ ہی جس نوع کا ہائبرڈ سسٹم تشکیل پایا اس کی وجوہ پر بحث ہو سکتی ہے لیکن اسکے وجود سے انکار کر کے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، اگر آپ یہ چاہیں کہ اسے بائی پاس کر کے گزر جائیں گے یا اسے پاش پاش کر کے عوامی اقتداراعلیٰ منوا لیں گے تو یہ ممکن نہیں۔جب تک جمہوریت کے حوالے سے عوامی کمٹمنٹ بنیان مرصوص نہیں ہوجاتی آپ کو بیچ کی کوئی راہ نکالنی پڑے گی ۔یہ درویش محترم ڈاکٹر جاوید اقبال سے خوب الجھتا مگرآج وقت نے ان کی فکری پختگی اس ناچیز پر نہ صرف یہ کہ واضح کر دی ہے بلکہ وہ اس اصولی ہدایت پر ایمان لے آیاہے کہ پریکٹس کے بغیر تھیوری محض دماغی خلل ہے، مثال کے طور پر درویش کا موقف ہے کہ پاک ہند تعلقات یا دوستی محض تاریخی تہذیبی یا سفارتی سطح سے کہیں آگے بڑھ کر تجارتی یا موسٹ فیورٹ نیشن جیسی،یک جان دو قالب کی طرح ہو لیکن کیا یہ سب ہمارے طاقتوروں کی رضا یا خوشنودی کے بغیر ممکن ہے؟ہرگز نہیں، اس سلسلے میں چاہے ہم اس خطے کے کروڑوں باسیوں کی غربت بے بسی یا دکھوں کو لے آئیں چاہے آئینی دستاویز اٹھا لائیں ، چاہے میثاق مدینہ کے حوالہ جات پیش کریں کہ اگر یہود کی ہم وطنی متحدہ قومیت کی بنیاد بن سکتی ہے تو اس خطہء ہند میں ہنود کے ساتھ کیوں نہیں؟ سچائی یہی ہے کہ ہم اپنے طاقتوروں کو نہ تو بائی پاس کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ ہی ہم ان سے ٹکرا سکتے ہیں ،لہٰذا سیدھے سبھاؤ ان سے بات کرو ، دلائل کے ساتھ ان کی ذہنی کایا پلٹ کرو، پھر کسی بھلائی کی امید رکھو، ہر دو ممالک سے عوام کا جو بھی نمائندہ قومی قیادت کیلئے منتخب ہو، خطے کےعوام اس سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ جنوبی ایشیا میں بھڑکائی گئی منافرت کی آگ کو ٹھنڈا کرتے ہوئے دشمنی کو دوستی میں بدلے یا بدلنے کی کاوش کرے، شرارت کی جڑیا بون آف کنٹینش کو غیر معینہ یا طویل مدت کیلئے سرد خانے میں ڈال کر ترقی و خوشحالی کے نئے دریچے کھولے لیکن نہیں صاحب آپ کی جو بھی تمنائیں ہیں کروڑوں انسانوں کی جو بھی حسرتیں ہیں وہ سب ایک تنازع کی یرغمال بن کر رہ جائیںگی۔ ن لیگ نے الیکشن سے قبل ہمسائیوںسےاچھے تجارتی اور برادرانہ تعلقات کی بات کی لیکن اس کی راہ میں ایسی کنڈیشن ڈال دی گئی جس کا پورے ہونا ناممکن ہے، یوں لگا کہ ساری لفاظی محض ثواب دارین کیلئےتھی۔اس بند گلی سے نکلنے کی ایک ہی ترکیب ہے کہ طاقتوروں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھا جائے۔ ہمسائیوں سےمنافرت کانتیجہ سوائے ہماری قومی بربادی کے کچھ نہیں نکلا،معاشی زبوں حالی ہی نہیں ملی ، ہماری عالمی ساکھ دو ٹکے کی ہو کر رہ گئی۔ اسی طرح ہماری سیاسی قیادت نے جب بھی عسکری قیادت سے ٹکراؤ کی پالیسی اپنائی اس کا نتیجہ سوائے سویلین اتھارٹی کی کمزوری اور آمریت کی مضبوطی کے اور کچھ نہیں نکلا۔آج ہمارے کچھ سیاسی اناڑی جس طرح بظاہر سویلین اتھارٹی کا راگ الاپ رہے ہیں اور طاقتوروں کے خلاف منافرت پھیلاتے ہوئے جس نوع کی محاذ آرائی کی راہ پر گامزن ہیں اس کی آؤٹ پٹ کیا ہے؟وہ شخص جسےطاقتوروں کے سامنے کھڑے ہونے یا استدلال سے اپنا موقف منوانے کا یارا تھا اسے پیچھے ہٹنا پڑا، طاقتوروں کو اپنی مرضی کا مادھو مل گیا جو کسر رہ گئی تھی وہ نئی کابینہ میں غیر منتخب افراد کی شمولیت سے سب کے سامنے ہے ،آگے چل کر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات اور ماورائی ہدایات کے ساتھ اس نوع کے مزید کرشمے بھی سامنے آنے والے ہیں اگر آپ اپنے ساتھی سیاستدانوں کو چور چور کہتے ہوئے ان کے ساتھ اچھوتوں جیسا برتاؤ کرو گے تو آئندہ بھی ایسے ہی نتائج کیلئے تیار رہیں جو آج آپ لوگ بھگت رہے ہیں بہتر یہی ہے کہ آپ سب لوگ باہمی احترام و وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نہ صرف یہ کہ گفت و شنید کی راہ اپنائیں بلکہ داخلی و خارجی پالیسیوں میں خالص قومی مفاد کا تعین میرٹ پر استدلال سے کریں جس طرح ہمیں اس منفی ذہنیت کو بدلنا ہے کہ ہمارا ہمسایہ ہمارا دشمن ہے اسی طرح ہمارے طاقتور بھی غیر نہیں ہمارے اپنے ہیں،بشرطیکہ آزادی اظہار کی فضا میں اپنی بات منطقی استدلال اور وسیع تر انسانی مفاد میں منوائی جاسکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تین روز قبل تاجر اور اس کے پارٹنرز کو سپرہائی وے سے اغوا کیا گیا تھا۔

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بارش برسانے والا مغربی ہواؤں کا سسٹم صوبے سے نکل گیا، بارشوں کے بعد کوئٹہ میں چلنے والی یخ بستہ ہواؤں سے سردی کی شدت میں اضافہ ہوگیا، گیس پریشر میں کمی اور بندش جبکہ بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔

بلوچستان سے خالی ہونے والی سینیٹ کی 3 نشستوں پر ضمنی انتخاب آج ہوگا، 7 امیدواروں مدمقابل ہیں۔

کراچی کے علاقے بھینس کالونی میں بیوپاری سے رقم چھین لی گئی، گزشتہ روز ہوئی واردات کی سی سی ٹی وی ویڈیو بھی سامنے آگئی۔

صدر آصف علی زرداری ہاؤس میں مختصر قیام کریں گے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دونوں بچوں کوان کی بڑی خالہ کے گھر منتقل کر دیا گیا، گھر پر لیڈی پولیس بھی تعینات کردی گئی ہے۔

مشہور ٹیلی ویژن شو تارک مہتا کا الٹا چشمہ کے اداکاروں کی منگنی کی اطلاعات زیر گردش ہیں۔

تھانہ روجھان کی حدود میں پولیس نے ڈاکوؤں کی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی، ڈاکوؤں اور روجھان پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، ترجمان پنجاب پولیس

نوجوان کرکٹرز کے ساتھ ایسے سینیئرز بھی ہیں جو خود کو بہتر کرنا چاہتے ہیں، کوچ اسلام آباد یونائیٹڈ

جنوبی بھارت اور بالی ووڈ کے معروف اداکار رجنی کانت کی بیٹی ایشوریا رجنی کانت کی اسپورٹس ڈرامہ فلم لال سلام ریلیز ہوتے ہی موضوع بحث بن گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ اور کنٹری ڈائریکٹر نے معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا،

پولیس نے فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات شروع کردیں۔

مشقوں میں رینجرز، جیل پولیس، بم ڈسپوزل اسکواڈ اور ریسکیو 1122 نے حصہ لیا۔

وزیر خزانہ نے مہنگائی اور شرحِ سود میں جلد کمی کی توقع، اخراجات میں کمی کا عزم بھی کیا۔

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق عرفی ایکتا کپور کی فلم "ایل ایس ڈی 2" کے ذریعے پہلی مرتبہ بڑے پردے پر نظر آنے کےلیے تیار ہیں۔

سب کمیٹی کے اجلاس سےمتعلق نوٹس جاری کردیا گیا، جس کے مطابق اجلاس میں پاک امریکا تعلقات بھی زیر بحث آئیں گے۔

QOSHE - افضال ریحان - افضال ریحان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

افضال ریحان

14 1
14.03.2024

‎جبر و آمریت کی مخالفت اس درویش کے رگ و ریشے بلکہ ہڈیوں تک میںہے اس اپروچ کے زیر اثر اس کی کتاب’’جمہوریت یا آمریت؟‘‘ تخلیق ہوئی ۔اس پس منظر میں محترم ڈاکٹر جاوید اقبال سے کئی مواقع پر بحث بھی ہو جاتی جن کا فرمانا ہوتا کہ دیکھیں اصولی اور نظریاتی سچائیاں اپنی جگہ مگر کچھ تلخ زمینی حقائق ایسے شدید ہوتےہیں جن سے آنکھیں بند کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی ان سے ٹکرا کر ْٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓآگے بڑھا جا سکتا ہے ہم مانیں یا نہ مانیں ،اس ملک کی تخلیق کے ساتھ ہی جس نوع کا ہائبرڈ سسٹم تشکیل پایا اس کی وجوہ پر بحث ہو سکتی ہے لیکن اسکے وجود سے انکار کر کے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، اگر آپ یہ چاہیں کہ اسے بائی پاس کر کے گزر جائیں گے یا اسے پاش پاش کر کے عوامی اقتداراعلیٰ منوا لیں گے تو یہ ممکن نہیں۔جب تک جمہوریت کے حوالے سے عوامی کمٹمنٹ بنیان مرصوص نہیں ہوجاتی آپ کو بیچ کی کوئی راہ نکالنی پڑے گی ۔یہ درویش محترم ڈاکٹر جاوید اقبال سے خوب الجھتا مگرآج وقت نے ان کی فکری پختگی اس ناچیز پر نہ صرف یہ کہ واضح کر دی ہے بلکہ وہ اس اصولی ہدایت پر ایمان لے آیاہے کہ پریکٹس کے بغیر تھیوری محض دماغی خلل ہے، مثال کے طور پر درویش کا موقف ہے کہ پاک ہند تعلقات یا دوستی محض تاریخی تہذیبی یا سفارتی سطح سے کہیں آگے بڑھ کر تجارتی یا موسٹ فیورٹ نیشن جیسی،یک جان دو قالب کی طرح ہو لیکن کیا یہ سب ہمارے طاقتوروں کی رضا یا خوشنودی کے بغیر ممکن ہے؟ہرگز نہیں، اس سلسلے میں چاہے ہم اس خطے کے کروڑوں باسیوں کی غربت بے بسی یا دکھوں کو لے آئیں چاہے آئینی دستاویز اٹھا لائیں ، چاہے میثاق مدینہ کے حوالہ جات پیش کریں کہ اگر یہود کی ہم وطنی متحدہ قومیت........

© Daily Jang


Get it on Google Play